کالم

رائیٹر ویلفیئر فنڈ

گزشتہ دنوں محکمہ اطلاعات وثقافت حکومت پنجاب کی جانب سے شاعر اور ادیبوں کی فلاح و بہبود کے لیے رائیٹر ویلفئیر فنڈ کے تحت چیک تقسیم کرنے کی ایک تقریب بہاولپور آرٹس کونسل میں منعقد ہوئی جس کی صدارت معروف دانشور اور ماہر ِ تعلیم جناب اسلم ادیب نے کی، جنرل سیکرٹر ی کے فرائض معروف پروفیسر عظمت اللہ نے کی۔ انہوں نے اہل ِ بہاولپور کی جانب سے آرٹس کونسل بہاولپور کے ڈائریکٹر سجاد حسین کا شکریہ ادا کیا کہ ان کی کوششوں کے باعث ادیبوں اور شاعروں کو ویلفئیر فنڈ تقسیم کیے جارہے ہیں۔مذکورہ تقریب میں ہم بھی موجود تھے۔ ویل فئیر فنڈ کے چیک جس طرح تقسیم کیے گئے اسے دیکھ کر ہمیں سخت حیرت ہوئی کیونکہ چیک کی تقسیم کو ادبی خدمات صلہ نہیں کہا جاسکتا۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ نامزد شاعروں کو ویل فئیر فنڈ کے تحت چیک تقسیم کیے گئے ہیں۔ ان میں ایسے شعرا بھی شامل تھے جنہیں 50 ہزار روپے کے چیک دیے گئے حالانکہ آج تک ان کی کوئی بھی غزل کسی بھی ادبی جریدے یا رسالے میں شائع نہیں ہوئی اور جن شعرا نے پوری زندگی اد ب کی خدمت کرنے میں گزار دی انہیں 20، 20 ہزار روپے کا چیک دیا گیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ رقم دینے کا فیصلہ اطلاعات و ثقافت حکومت ِ پنجاب لاہور کے عملے نے کیا حالانکہ وہ لوگ بہاولپور ڈویژن کے شاعروں اور ادیبوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اس لیے سفارش کو اہمیت دی گئی۔ اگر اس معاملے میں بہاولپور کے معروف ادیب اور ماہر تعلیم جناب اسلم ادیب سے مشورہ کیا جاتا تو حقداروں کو حق مل جاتا۔ویلفئیر فنڈ ان شاعروں اور ادیبوں کے لیے ہوتا ہے جو مالی طور پر کمزور ہوں یا ان کا ذریعہ آمدن نہ ہو۔ ظہور آثم لگ بھگ نصف صدی سے ادب کی خدمت کررہا ہے اس نے کئی ادبی جریدے شائع کیے ایک ہفت روزہ اخبار بھی شائع کیا مگر 20 سال قبل اس کی بینائی جاتی رہی وہ بے روزگار ہوگیا اس کی آمد ن کا ذریعہ ختم ہوگیا اب عزیزو اقارب کی مالی معاونت ہی اس کا ذریعہ آمدن ہے۔ ویلفئیر فنڈ کے حصول کے لیے اس نے اپنی ادبی خدمات سے آگاہ کیا تھا جس پر کوئی توجہ نہ دی گئی نتیجتا اسے 20 ہزار روپے کا چیک دیا گیا۔ حالانکہ اس کی خدمات کا تقاضا ہے کہ اسے کم از کم 20 ہزار روپے ماہانہ دیا جائے۔ جو شاعر چند سال سے شاعری کر رہے ہیں انہیں 50،50 ہزار روپے کے چیک سے نوازنا ظہور آثم کی ادبی خدمات کے منہ پر طمانچہ ہے۔ ویلفئیر فنڈ سے فیض یاب ہونے والے شاعر ایسے بھی ہیں جن کی کوئی غزل کسی بھی ادبی جریدے میں شامل نہیں ہوئی۔ویلفئیر فنڈ کا اجرا قابل ِ تحسین ہے مگر اس کی تقسیم غلط طور پر کی گئی ہے۔ کیونکہ اس فنڈ کے اجرا کا مقصد ایسے شعرا اور ادیبوں کی مالی معاونت ہے جن کا ذریعہ معاش نہ ہو یا ذریعہ ضروریاتِ زندگی سے کم ہو۔ مگر بہاولپور آرٹس کونسل میں تقسیم ہونے والے چیک ایسے افراد کو بھی دیے گئے ہیں جو صاحب ِ جائداد ہیں اور برسرِ روزگار ہیں۔
محترم اسلم ادیب یہ خوش خبری بھی سنائی ہے کہ ان کی کوشش ہے کہ جو ادیب اور شاعر اپنی کتاب شائع کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ اس کی کتاب شائع کی جائے گی۔ انہوں نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ کالجوں اور اسکولوں کی لائبریری کے لیے 10،10 کتابیں خریدنے کا پابند کرنے کی بھی کوشش کی جائے گی تاکہ کتب بینی کا ذوق پروان چڑھ سکے اور کتاب کی اشاعت میں آسانی ہوسکے۔ یادشت بخیر ہر صوبے کے گورنر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کالجوں اور ہائی اسکولوں کے پرنسپل اور ہیڈ ماسٹر کو 10 کتابیں خریدنے کی تاکید کرے مگر گورنر صاحب اس معاملے میں دلچسپی نہیں رکھتے ان کی نظر میں پارٹی ورکر اہم ہوتا ہے۔ سو اسے زیادہ سے زیادہ سہولتیں اور آسانیاں فراہم کی جاتی ہیں۔ اگر گورنر صاحباں علم دوستی اور ادب پر وری کو اپنا وتیرہ بنا لیں یا مقصد بنا لیں تو کتاب کی اشاعت میں آسانی پیدا ہوسکتی ہے جہاں کتاب خریدنا غیر ضروری سمجھا جاتا ہو وہاں کتاب شائع کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ ہماری 2 کتابیں شائع ہوچکی ہیں 2 ناول اور 6 کتابیں اشاعت کی منتظر ہیں اور شاید منتظر ہی رہیں گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button