کالم

استقبالِ رمضان۔ فیوض و برکات

رمضان المبارک کا مہینہ پوری اُمت مسلمہ کے لئے رحمت و مغرفت کا مہینہ ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ترجمہ "مہینہ رمضان کا ہے جس میں نازل ہوا قرآن۔ ہدایت ہے واسطے لوگوں کے اور دلیلیں روشن۔ سو جو کوئی پائے تم میں سے اس مہینہ کو تو ضرور روزہ رکھے”۔ (سورئہ البقرہ180-)۔ قرآن مجید جو ضابطہ حیات بھی ہے اور متقیوں کے لئے سرچشمہ رشدو ہدایت بھی اسی ماہ مبارک میں نازل فرمایا گیا جس کے باعث اس مہینہ کی فضیلت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ نبی اکرمۖ نے ماہ رمضان کے بہت سے فضائل و برکات بیان فرمائی ہیں۔تمام اعمال ایک حد تک پھلتے پھولتے ہیں۔ ماہ رمضان بھی خیر و صلاح کے پھلنے پھولنے کا مہینہ ہے جس میں پوری اُمتِ مسلمہ مل کر نیکی کے باغ کو سیراب کرتی ہے۔اس ماہ مبارک میں جتنی نیک نیتی کے ساتھ عمل کئے جائیں گے اور ان کو باقی گیارہ مہینوں تک باقی رکھا جائے گا اتنا ہی وہ پھلیں پھولیں گے اور دائمی فائدہ حاصل ہو گا کیونکہ رمضان میں انکے پھلنے پھولنے کی کوئی انتہاء نہیں ہے۔ رمضان کے مہینے میں دن کو روزہ رکھ کر رات کو قیام کرنا بہت بڑی عبادت ہے۔ انسان کو عبد پیدا کیا گیا ہے اور عبدیت اس کی عین فطرت ہے۔ بندے کو چاہئیے کہ بندگی کرے اور زندگی کے ہر معاملے میں اپنے معبودِ حقیقی کی خوشنودی حاصل کرے اور اُس کی ناراضگی سے بچے۔ جب ایک بندے کی پوری زندگی کا یہ معمول بن جائے تو پھر سمجھنا چاہئیے کہ بندے نے بندگی کا حق ادا کر دیا۔ رمضان کے مہینے میں اپنا بیشتر وقت عبادت اور نیک کاموں میں گزارنے اور ہر طرح کے بُرے کاموں سے بچنے کی کوشش کرنے سے نیکی کا شوق پیدا ہوتا ہے اور بدی سے نفرت ہو تی ہے۔ روایت ہے کہ جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمانوں اور جنت کے دروازوں کو کھول دیا جاتا ہے ۔ دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے (حدیث)۔ ایک ہی مہینے (یعنی رمضان) میں پوری اُمت مسلمہ کا ایک ہی عبادت (یعنی روزہ رکھنا) میں مصروف ہونے سے باہمی یگانگت میں فروغ پیدا ہوتا ہے۔ رمضان المبارک کی آمد پر جناب رسالت مآب ۖ نے خطبہ استقبالیہ فرمایا تھا۔ حضرت سلمان فارسی نے روایت کی ہے کہ آپۖ نے شعبان کی آخری تاریخ کو صحابہ کرام کو مخاطب کر کے فرمایا ” اے لوگو! ایک باعظمت مہینہ آ پہنچا ہے جو ماہ مبارک ہے۔ اس میں ایک رات ہے جو ہزار ماہ سے بہتر ہے۔ اس ماہ کے روزے اﷲ تعالیٰ نے فرض فرمائے ہیں۔اور اس کی راتوں میں قیام کرنا تطوع(غیر فرض) قرار دیا ہے۔ اس ماہ میں جو شخص کوئی نیکی کا کام کرے گا اس کو ایسا اجروثواب ملے گا جیسے اس کے علاوہ دوسرے مہینہ میں فرض ادا کرنا اور فرض کا ثواب ملنا۔اور جو شخص اس ماہ میں ایک فرض ادا کرے تو اس کو ستر فرضوں کے برابر ثواب ملے گا۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے اور یہ آپس کی غم خواری کا مہینہ ہے۔ اس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس ماہ میں جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرا دے تو یہ اس کے مغفرت کا اور دوزخ سے اس کی گردن کی آزادی کا سامان بن جائے گا اور اس کو اسی قدر ثواب ملے گا جتنا روزہ دار کو ملے گا مگر روزہ دار کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہو گی”۔اسی خطبے میں ارشاد فرمایا کہ "اس ماہ کا ائول حصہ رحمت ہے۔ دوسرا حصہ مغفرت ہے اور تیسرا حصہ دوزخ سے آزادی کا ہے۔ اس مہینہ میں کلمہ طیبہ کا ورد کرنا۔ مغفرت طلب کرنا۔جنت کا سوال کرنا اور دوزخ سے پناہ مانگنا”۔ حضور ۖ نے فرمایا کہ ماہ رمضان میں ان چار کاموں کی کثرت کرو ۔رمضان کا چاند نظر آ جانے سے روزے کی ابتداء ہو جاتی ہے۔ اگر بوجہ ابر چاند نظر نہ آ سکے اور شعبان کی تیس دن پورے ہو جائیں تو رمضان کا آغاز ہو جاتا ہے۔ارشادِ نبویۖ ہے ” مہینہ انتیس دنوں کا ہوتا ہے یہاں تک کہ تم چاند دیکھ لو۔ اگر مطلع ابرآلود ہو تو شعبان کے لئے تیس کی گنتی پوری کرو "(بخاری)۔ ارکانِ اسلام سے مراد دین کے وہ بنیادی اصول ہیں جن پر اسلام کی پوری عمارت قائم ہے۔ نبی آخر الزمانۖ فرماتے ہیں "اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر اُٹھائی گئی ہے۔ اس بات کی شہادت کے اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اوریہ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اُس کے آخری رسول ہیں۔نماز قائم کرنا۔ زکوٰة دینا۔ حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا ” (بخاری۔مسلم)۔قرآن مجید میں جو متقیوںکے لئے ہدایت ہے اسی ماہ مقدس میں نازل ہوا اور اسی ماہ مبارک میں روزوں کی فرضیت بھی یہی معنی رکھتی ہے کہ انسان روزے رکھ کر تقویٰ حاصل کرے تا کہ اﷲ کی آخری کتاب سے کماحقہ’ استفادہ کر سکے۔ تقویٰ۔ صغیرہ وکبیرہ۔ ظاہرہ اور باطنہ گناہوں سے بچنے کا نام ہے۔ پورے ماہ رمضان کے روزے رکھنا ہر عاقل ۔ بالغ مسلمان پر فرض ہے۔ پابندیوں کے ساتھ روزہ رکھنے سے با طن کے اندر ایک نکھار اور نفس کے اندر سدھار پیدا ہوجاتا ہے۔ لغت میں صوم کے معنی روک لینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاع میں طلوع فجر سے لے کر غروبِ آفتاب تک کچھ نہ کھانے پینے۔ ازدواجی تعلقات سے دور رہنے اور ہر طرح کے برائی کے کام سے بچنے کا نام روزہ ہے۔ نیت کرنا۔ کھانے پینے کی چیزوں اور ان چیزوں سے پرہیز کرنا جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے بچنا روزے کا رکن ہے۔ روزہ اسلام کا چوتھا بنیادی رکن ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے "اے ایمان والو!فرض کیا گیا تم پر روزہ جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر تا کہ تم پرہیز گار ہو جائو”(سورئہ البقرہ183-)۔ روزہ ایک ایسی مخفی عبادت ہے جس کا حال صرف رکھنے والے اور جس کی رضا کے لئے رکھا جائے کو ہی معلوم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور کو معلوم نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ تیس روزوں میں بھوک۔ پیاس برداشت کر لینے سے اس کا حق ادا ہو گیا بلکہ پوری زندگی کو عبادت بنانے کی ایک مشق ہے جو بندہ کو بڑی عبادت کے لئے تیار کرتی ہے۔ روزے کا مقصد یہ ہے کہ انسان نفسانی خواہشات کو چھوڑ کر احکامِ الہیٰ کے تابع ہو کر خود کو متقی بنا لے۔ روزہ رکھنے سے متقی بننے کی مشق بھی ہو جاتی ہے اور ضبطِ نفس سے ہر شیطانی لالچ کا آسانی سے مقابلہ کر سکتا ہے۔حضورۖ کا فرمان ہے کہ "اگر کوئی شخص روزہ رکھ کر بھی جھوٹ اور غلط کاریوں سے نہیں بچتا تو اس کا کھاناچھڑانے سے اﷲ کو کوئی دلچسپی نہیں”(بخاری)۔ حضور ۖ کا ارشاد ہے کہ ” شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اﷲ تعالیٰ کا”۔آدمی کے ہر عمل کا ثواب (اللہ تعالیٰ کے یہاں) دس گناسے لے کر سات سو گنا تک ہو جاتا ہے (لیکن روزے کی توبات ہی کچھ اور ہے )
اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے "مگر روزہ تو خاص میرے لئے ہے اس لئے اس کا ثواب میں اپنی مرضی سے جتنا (چاہوں گا) دوں گا”(مسلم)۔ یوں تو روزہ ایک انفرادی عبادت ہے لیکن اس کے ساتھ اجتماعی فوائد بھی بہت سے ہیں ۔ روزہ رکھنے سے بھوک اور پیاس کا احساس ہوتا ہے اور معاشرے کے ان مستحق افراد کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ ابھرتا ہے جن کو ضرورت کے مطابق کھانے پینے کو نہیں مل سکتا۔ روزہ رکھنے سے قناعت اور ایثار کی صفات بھی پیدا ہوتی ہیں۔ خوردونوش کی اشیاء موجود ہوتے ہوئے بھی کچھ نہ کھانے پینے سے اﷲ کے سامنے اس کی بزرگی اور اپنی عاجزی کا احساس پیدا ہوتا ہے اور جب یہ احساس دائمی صورت اختیار کر لے تو تقویٰ پیدا ہو جاتا ہے۔ حضورۖ کا فرمان ہے” ایمان اور احتساب کے ساتھ رکھے گئے روزہ سے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button