حالات حاضرہ کے حوالے سے ہم مضامین پڑھتے ہیں ویسے تو بہ حیثیت مجموعی سب ہی اچھے ہوتے ہیں لیکن ان مضامین کے اندر بعض پیراگراف یا کچھ لائنیں اتنی موثر اور متاثر کن ہوتی ہیں کہ دل چاہتا ہے کہ دوسرے لوگ اور ہمارے قارئین بھی اسے دیکھ لیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی بڑے صحافی جو قلم کے جادوگر بھی ہوتے ہیں وہ انتہائی سخت بات کو بھی اپنے قلم کو شہد میں ڈبو کر اس طرح لکھتے ہیں کہ جس فرد یا ادارے کے بارے میں بات لکھی جارہی ہے وہ بھی کوئی برا نہیں مانتے۔ ذیل میں اسی طرح کہ چند اقتصابات پیش خدمت ہیں۔پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اتحاد پر ایک دانشور لکھتے ہیں گویا مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی ایک رشتے میں بندھ گئے ہیں تاہم یہ رشتہ نکاح نہیں متعہ سے ملتا جلتا ہے کہ اس کے نتیجے میں جو کچھ برآمد ہوگا اس کی ذمے داری کا تعین بہت مشکل ہوگا۔انتخابات میں جدید انداز کی دھاندلی پر ایک قلمکار لکھتے ہیں دنیا بھر کے ماہرین کا خیال ہے کہ مصنوعی ذہانت کی حشر سامانیاں جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے محض لوگوں کی ملازمتیں اور کمپنیوں کا مستقبل ہی خطرے میں نہیں ہے بلکہ سب کچھ دائو پر لگ چکا ہے، انسانی تہذیب مٹ جانے کا اندیشہ ہے، جمہوریت خطرے میں ہے اور پارلیمانی نظام اس کی ذد میں آچکا ہے اور اب اس کی مدد سے کسی بھی ملک میں انتخابی عمل پر اثرانداز ہوکر اسے عدم استحکام سے دوچار کیا جاسکتا ہے۔ملک میں بوسیدہ جمہوریت کے مستقبل پر ایک دانشور یوں رقم طراز ہیں سوشل میڈیا پر خواجہ سعد رفیق کی قومی اسمبلی میں کی گئی ایک تقریر زیر گردش ہے وہ فرماتے ہیں ہم نے ملک اور اس نظام کی جو درگت بنائی ہے، وہ وقت دور نہیں جب پاکستان میں وزارت عظمی کا کوئی امیدوار موجود نہیں ہوگا، سیاستدان یہ منصب جلیلہ سنبھالنے سے یوں حذر کریں گے جیسے اس کرسی پر براجمان ہونے سے طاعون کا اندیشہ ہو اور آپ کو تاج وزارت پہنانے کے لیے سر میسر نہیں آئیں گے۔ آگے چل کر مزید لکھتے ہیں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں طویل مذاکرات میں ان ہی سوالوں کے جوابات تلاش کیے جارہے تھے اور جو بھی معاہدہ طے پایا ہے شنید ہے کہ اس کے ضامن بھی موجود ہیں، اور کل کو اگر کسی ضامن کو توسیع بھی دی گئی تو یہ ہمارے لیے باعث حیرت نہیں ہوگا۔ ظاہر تو یوں لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کو گن پوائنٹ پر حکومت دی جارہی ہے اور باقی سیاسی جماعتیں فقط تماش بینی کے فرائض انجام دینا چاہتی ہیں بالخصوص پی پی پی۔ ایک صاحب لکھتے ہیں پاکستان کے مقتدر حلقوں کے زیر اثرجہاں نہ صرف ذہین اور قابل قیادت کا پاکستانی سیاست میں داخلہ روکا گیا بلکہ طرح طرح کے روبوٹ تخلیق کیے گئے اور پھر جس نے سر اٹھایا اس کا سر قلم کردیا گیا۔ آگے چل کر مزید لکھتے ہیں بقول حفیظ اللہ نیازی کے عمران خان کے اندر صحیح سیاسی فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے ان کا تازہ ترین گنڈاسا علی امین گنڈا پور ہے۔ جن کے ذریعے عمران خان ایک نئے انتشار کی دھمکی دے رہے ہیں وہ بھی ان حالات میں جب پاکستان عمران پروجیکٹ کے ہاتھوں زخم زخم ہے۔ جیسے فلمی دنیا سے گنڈاسا دور گزرنے کے بعد پتا چلا فلم انڈسٹری ہی تباہ ہو چکی اسی طرح عمرانی گنڈاسے کا یہ دور گزرنے کے بعد پتا چلے گا کہ ہم نے کیا کچھ کھویا ہے؟ایک اور صحافی لکھتے ہیں، 2011 میں پی ٹی آئی کے غبارے میں ہوا بھرنے کا عمل شروع کیا گیا تو سب سے پہلے ق لیگ کے بندے توڑنے کا کام شروع کیا گیا۔ چودھری برادران پریشان ہو گئے اور شکایت کرنے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے گھر جا پہنچے۔ ان کو کچھ ریکارڈنگ بھی سنوائی گئیں جن میں ایجنسی کے افسران ق لگ کے ارکان کو ترغیب دے رہے تھے کہ ق لیگ قصہ پارینہ ہو چکی اب پی ٹی آئی ہی روشن مستقبل ہے اس لیے دیر نہ کریں۔ جنرل کیانی نے مکمل طور پر لاعلمی کا اظہار کیا اور اسی وقت ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا کو فون ملا کر پوچھا جنرل پاشا نے کہا مجھے کچھ علم ہے نہ ہی اس معاملے سے آئی ایس آئی کا کوئی تعلق ہے۔ جنرل کیانی نے کہا چیک کرلیں جو بھی ہوں انہیں روک دیں۔ ساتھ ہی چودھری برادران کوکھانے پر مدعو کرکے تسلی دینے کا کہا۔ چودھری برادران جنرل پاشا کے پاس گئے تو انہوں نے کہا آپ کو کسی نے غلط اطلاع دی ہے ہمارا پی ٹی آئی سے کیا لینا دینا۔ کھانے کی میز پر سیاسی گفتگو چھڑ گئی۔ اسی دوران جنرل پاشا بھول گئے کہ چودھری برادران کیا شکایت لے کر آئے ہیں ان کے منہ سے نکل گیا آپ عمران خان سے اتحاد کرلیں ملاقات کا اہتمام ہم کردیں گے
0 38 3 minutes read