کالم

غیر یقینی صورتحال

یہ قصہ مختصر سا ہے کسی اور ملک کا نہیں پاکستان کا ہے ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک گھر میں ایک والد کے دس بیٹھے تھے ان کے سارے بچے بڑے تھے کوئی چھوٹا نہ تھا سمجھدار اور خود کمانے والے تھے سارے انتہائی تگڑے بھی تھے اور سارے مالدار بھی تھے کسی کے محتاج نہیں تھے لیکن ان کی بدقسمتی یہ تھی کہ ان کا آپس میں اتفاق نہیں تھا اور نہ ہی ایک دوسرے کی بات پر دھیان دیتے تھے یہ سلسلہ چلتا رہا تاوقتیکہ ان سب کا کاروبار اور گھریلو نظام تباہ ہوگیا کیونکہ وہ ہمیشہ آپس میں لڑائی کرتے تھے بالآخر ان کے بچوں نے مشورہ کیاکہ لڑائی سے تو کسی کے بھی ہاتھ کچھ نہیں آیا سوائے نقصان کے ,پھر انہوں نے عہد کیا کہ والدین کو سمجھائیں گے کہ اب وقت لڑائی کا نہیں بلکہ اپنے خاندان کو اور دوسروں کو فائدہ پہنچانے کا ہے لیکن بچوں کیسمجھانے کا بھی کوئی فائدہ نہ تھا کیوں کہ تب تک انہوں نے ایسے نقصانات اٹھائے تھے جن کا ازالہ کرنا ناممکن تھا میری باتوں کا مقصد یہ ہے کہ اس وقت وفاقی اور صوبائی حکومتیں تیاری کے مراحل میں ہیں لیکن اب تمام جماعتوں کا بڑے دل کا مظاہرہ کرنے کا وقت ہے اختلافات اپنی جگہ پر رکھ کر عوام کی خدمت کا وقت ہے عوام کے لیے کچھ کرنے کا وقت ہے جس مقصد کی خاطر عوام نیامیدواران کو ووٹ دیا ہے اور اسمبلیوں تک پہنچایا ہے اب ان کے اعتماد پر پورا اترنے کا وقت ہے اگر اب بھی حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرتے رہیں اور عوام کی فلاح و بہبود کے کام میں رخنے ڈالتے رہیں اور آئندہ پانچ سال بھی جنگ کا یہ سلسلہ جاری رہے تو الیکشن لڑنے کا کیا فائدہ, پانچ سال تک ممبران کام نہ کریں اور وقت بیان بازی پر گزاریں تو پانچ سال کے بعد کس منہ سے عوام کے پاس ووٹ مانگنے جائیں گے کیا کہیں گے کہ ہم نے ان پانچ سالوں میں کونسا کارنامہ سرانجام دیا ہے عوام تو یہ نہیں چاہتے کہ آپ بیان بازی کریں لڑائیاں کریں ایک دوسرے کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ ڈالیں عوام تو کام چاہتے ہیں محرومیاں دور کرنا چاہتے ہیں صحت ,تعلیم اور دیگر اداروں کو ریلیف دینا چاہتے ہیں اگر ممبران کام نہیں کرسکتے اور اسمبلیوں کے فلور پر بیان بازی کریں یہ تو عوام بھی کرسکتے ہیں اسمبلیوں کی موجودہ صورت حال سے یہ بو آرہی ہے کہ عوام نے جو ممبران منتخب کئے ہیں وہ پانچ سال تک ایک دوسرے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کریں گے کیونکہ حلف برداری کی تقریبات نے یہ پیغام دیا ہیکہ پانچ سال عوام کے ضائع ہونے ہیں اور ان پانچ سالوں میں کچھ نہیں ہوگا ماسوائے جنگ اور بیان بازی کے ,اسمبلی کے فلور پر کوئی کہے گا کہ فلاں چور ہے اور کوئی کہے گا فلاں نے ملک کو بے حیائی کے دہانے پر پہنچایا ہے یہی وجہ ہے کہ جیل کی سزا کاٹ رہا ہے ۔اب بھی وقت ہے ایک دوسرے سے بلا شبہ اختلاف رکھیں ، بیان بازی بھی کریں لیکن جس مقصد کی خاطر عوام نے ان کو ووٹ دیا ہے اور ایوانوں تک پہنچایا ہے انہی مقاصد پر پورا اترنے کی بھرپور کوشش کریں ورنہ وہ دن دور نہیں کہ عوام کا رہا سہا اعتماد بھی کھو دیں گے۔یہ اختلافات کی جگہ بھرپور محبت اور معاونت کا وقت ہے۔حکومت اور اپوزیشن کو ایک دوسرے کے خلاف نہیں بلکہ عوام کی خدمت میں مشغول ہونا چاہئے۔ اگر انہیں ایک دوسرے کے خلاف باتیں کرنی ہیں تو وہ عوام کے مفادات کے ارتقا میں ہونی چاہئیں۔ہمیں اب بڑے دل کے ساتھ ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کرنا ہوگا اور ملک کو اگلے پانچ سال کے لیے سیاسی،معاشی اور معاشرتی استحکام کی راہ پر گامزن کرنا ہوگا۔انتہائی ضروری ہے کہ اسمبلیوں میں منتخب ممبران اپنے مقاصد پر پورا اتریں اور عوام کی مشکلات کی تلاش کریں اگر وہ یہ کام نہ کریں تو عوام کا حق ہے کہ ان کو اگلی باریکسر مسترد کردیں ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button