
حیران کن طور پر راولپنڈی کے سابق کمشنر لیاقت علی چٹھہ نے پریس کانفرنس کے دوران دیا گیا اپنا سابقہ بیان اب واپس لے لیا ہے۔ اپنے سابقہ بیان میں انہوں نے چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس آف پاکستان پر انتخابی دھاندلی میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔ تاہم چٹھہ نے اب سی ای سی سکندر سلطان راجہ اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف اپنے الزامات کو واپس لیتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو ایک تحریری بیان جمع کرایا ہے۔ انہوں نے عام انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بیانیے کی حمایت کرنے اور مستقبل میں اچھی پوزیشن کے بدلے ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کا اعتراف کیا۔ ان کے مطابق لاہور سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ایک رہنما، جس کے ساتھ ان کا گہرا تعلق تھا، نے انہیں یہ پیشکش کی۔ چٹھہ نے یہ بھی دعوی کیا کہ پورا منصوبہ پی ٹی آئی کی سینئر قیادت کی مشاورت اور منظوری سے تیار کیا گیا تھا۔ ہمارے ملک میں ایسے واقعات کا سامنے آنا انتہائی افسوسناک ہے جہاں ایک اعلی عہدے دار بغیر ثبوت کے اداروں اور انتخابات کی شفافیت کے خلاف بے بنیاد الزامات لگاتا ہے اور جہاں میڈیا اس طرح کی غلط معلومات کا پرچار کرتا ہے۔یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ایک مخصوص سیاسی گروہ سرکاری اہلکاروں اور اداروں کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ یہ گروہ ان اداروں کے خلاف پروپیگنڈہ پھیلانے کے ہر موقع سے مسلسل فائدہ اٹھاتا ہے۔ سابق کمشنر راولپنڈی اور اس گروہ کے درمیان ممکنہ تعلقات کی چھان بین ضروری ہے۔ مزید برآں، اسی گروپ نے ملک بھر میں دھاندلی کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے اور ان کے مطابق انکا مینڈیٹ چرایا گیا ہے ۔ ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ اس پس منظر میں ایک خطرناک مہم شروع کی گئی ہے، جس میں مختلف ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز (DROs) کی تصاویر ان کے اہل خانہ اور بچوں کے ساتھ سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی گئی ہیں، جو نفرت کو اس انداز میں بھڑکا رہے ہیں جس سے ان کی حفاظت کو خطرہ لاحق ہے۔ مبینہ طور پر یہ مہم ماضی کے 9 مئی کے واقعات سے مشابہت رکھتی ہے جس میں پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی گرفتاری کے بعد پرتشدد مظاہرے ہوئے تھے۔مٹھی بھر ریاست مخالف عناصر پاک فوج کو شروع سے ہی تنازعات میں الجھا کر اسے سیاسی رنگ دینے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں اعتماد اور دیانت سب سے اہم ہے پاکستان میں پاک فوج ہی وہ واحد ادارہ ہے جس پر عوام کو مکمل بھروسہ اور اعتماد ہے۔ ہمارے فوجی فرض اور قربانی کا عہد کرتے ہیں اور اکثر ناقابل تسخیر چیلنجوں کا سامنا کرتے ہیں۔ تاہم، جب فوجی اہلکاروں کے خلاف جھوٹے الزامات لگائے جائیں تو یہ کمٹمنٹ خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اسکے اثرات انفرادی زندگیوں سے آگے بڑھتے ہیں اور اس حوصلے، آپریشنل تاثیر اور اعتماد کی بنیاد کو متاثر کرتے ہیں جس پر مسلح افواج انحصار کرتی ہیں۔ فوجی اہلکاروں کے خلاف جھوٹے الزامات مختلف ذرائع سے شروع ہو سکتے ہیں، جن میں ذاتی انتقام سے لے کر افراد یا مجموعی طور پر ادارے کو جان بوجھ کر بدنام کرنے کی کوششیں شامل ہیں۔ ان کے پیچھے کے محرکات سے قطع نظر اس کے نتائج بہت گہرے اور کثیر جہتی ہوتے ہیں۔ ملٹری سروس اکثر نہ صرف سروس ممبر بلکہ ان کے اہل خانہ سے بھی قربانیاں مانگتی ہے۔ ایک جھوٹا الزام تحقیقات، قانونی کارروائیوں اور عوامی جانچ پڑتال کو متحرک کر سکتا ہے، ساکھ کو داغدار کر سکتا ہے اور سالوں کی وقف خدمت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ بری کئے جانے کے بعد بھی شک کا سایہ برقرار رہ سکتا ہے، جو مستقبل کے مواقع اور تعلقات کو متاثر کر سکتا ہے۔ مزید برآں، جھوٹے الزامات فوجی برادری کے اندر اس اعتماد کو کمزور کرتے ہیں جو موثر ٹیم ورک، ہم آہنگی اور مشن کی کامیابی کی بنیاد بناتا ہے۔جھوٹے الزامات ایک ادارے کے طور پر فوج پر عوام کے اعتماد کو ختم کرتے ہیں۔ فوج اپنے مشن کی تکمیل اور قومی مفادات کے تحفظ کے لیے سویلین سپورٹ اور اعتماد پر انحصار کرتی ہے۔ جھوٹے الزامات کے ہائی پروفائل کیس شکوک و شبہات کو جنم دے سکتے ہیں اور مسلح افواج کی سالمیت پر عوام کے اعتماد کو کم کر سکتے ہیں۔ بھرتی، فنڈنگ، اور فوجی مداخلتوں اور کارروائیوں کے بارے میں عوامی تاثر پر اس کے بڑے پیمانے پر مضمرات ہو سکتے ہیں۔مزید برآں جھوٹے الزامات فوج کو درپیش حقیقی خطرات اور چیلنجوں سے قیمتی وسائل کو ہٹا دیتے ہیں۔ جھوٹے الزامات پر مبنی بدعنوانی کی تحقیقات وقت، افرادی قوت اور مالی وسائل کا استعمال کرتی ہیں جو تربیت، سازوسامان اور تیاری کے لیے بہتر طریقے سے مختص کیے جا سکتے ہیں۔ بے بنیاد الزامات کے تعاقب میں گزرنے والا ہر لمحہ فوجیوں کو درپیش پیچیدہ اور ابھرتے ہوئے خطرات کی تیاریوں سے روکتا ہے۔کسی ملک کی فوجی قوت کی ساکھ اور سالمیت اکثر اس کی شناخت کے سنگ بنیاد کے طور پر کام کرتی ہے اور قربانی، ہمت اور ریاستی دفاع کے لیے عزم جیسی اقدار کو مجسم کرتی ہے۔ نتیجتا، متعدد ممالک نے اپنی مسلح افواج کی عزت کی حفاظت اور ان کی ساکھ کو داغدار کرنے یا عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والے اقدامات کو روکنے کے لیے سخت قوانین نافذ کیے ہیں۔ یہ قوانین قومی سلامتی کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے فوجی اہلکاروں کے حوصلے اور تاثیر کو بڑھانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ مختلف ممالک نے فوج کو بدنام کرنے کے خلاف سخت ضابطے بنائے ہیں اور ایسے اقدامات کے پیچھے کی دلیل واضح ہے۔سنگاپور اپنے سخت ہتک عزت کے قوانین کے لیے مشہور ہے، جن کا دائرہ مسلح افواج تک ہے۔ ملک کا سیڈیشن ایکٹ اور انٹرنل سیکیورٹی ایکٹ کسی بھی قسم کی تقریر یا اشاعت پر پابندی لگاتا ہے جو فوج سمیت حکومت کے خلاف نفرت یا توہین کو ہوا دے سکے۔ مسلح افواج پر تنقید، خاص طور پر عام لوگوں کی طرف سے، کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے اور یہ عمل قانونی کارروائی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس طرح کے اقدامات کا مقصد فوجی صفوں میں نظم و ضبط برقرار رکھنا اور سنگاپور کی مسلح افواج کی پیشہ ورانہ ساکھ کو برقرار رکھنا ہے۔تھائی لینڈ میں جہاں فوج کا خاصا اثر و رسوخ ہے، مسلح افواج کی بدنامی کے خلاف قوانین سختی سے نافذ ہیں۔ بادشاہت جیسے قابل احترام اداروں کی حفاظت کے لیے بنائے گئے ملک کے لیس میجسٹی قوانین، اکثر فوج پر تنقید کا احاطہ کرتے ہیں۔ وہ افراد جو فوج یا اس کے قائدین کی تذلیل کرتے ہیں انہیں قید اور جرمانے سمیت سخت سزاں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ قوانین تھائی معاشرے میں فوج کے لیے گہری عقیدت اور قومی خودمختاری اور استحکام کے تحفظ میں اس کے اہم کردار کی نشاندہی کرتے ہیں۔ترکی کی فوج کی توہین کے خلاف قوانین نافذ کرنے کی تاریخ ہے۔ ترک پینل کوڈ کی دفعہ 301 ترک قوم، ریاستی اداروں یا علامتوں بشمول مسلح افواج کی توہین کو منع کرتی ہے۔ فوج یا اس کے رہنماں کی توہین کے مرتکب پائے جانے والے افراد کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا ہے، انہیں قید یا دیگر تعزیری اقدامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ قوانین فوج کی عزت اور وقار کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت کے عزم کی نشاندہی کرتے ہیں، جو ملکی مفادات اور اقدار کے محافظ کے طور پر ترک معاشرے میں ایک قابل احترام مقام رکھتی ہے۔
چین فوج پر تنقید سمیت تقریر اور اظہار پر سخت کنٹرول رکھتا ہے۔ ملک کا قومی سلامتی کا قانون اور دیگر ضوابط ایسے اقدامات کی ممانعت کرتے ہیں جو قومی سلامتی یا سماجی استحکام کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ وہ افراد جو فوج کی تذلیل کرتے ہیں یا اس کی سرگرمیوں کے بارے میں غلط معلومات پھیلاتے ہیں، انہیں قید سمیت سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ اقدامات چینی حکومت کی سخت نظریاتی کنٹرول کو برقرار رکھنے اور کمیونسٹ پارٹی کی حکمرانی کے ایک ستون کے طور پر فوج کے اختیار کو برقرار رکھنے کی کوششوں کی عکاسی کرتے ہیں۔
اس کے برعکس پاکستان میں اداروں کے بارے میں ہرزہ سرائی کرنے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کا فقدان ہے اور جب بھی ایسا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو انسانی حقوق کے خود ساختہ علمبردار ان ریاست دشمن عناصر کی حمایت میں آگے آ جاتے ہیں۔ اگر اداروں کا مخالف گروپ یہ دعوی کرتا ہے کہ سابق کمشنر راولپنڈی کے پہلے والے الزامات درست ہیں تو اسے انتخابات کے دوران پاک فوج کی غیر جانبداری کے حوالے سے ان کی کہی گئی بات کو بھی تسلیم کرنا چاہیے۔ مزید برآں، فوج کی غیرجانبداری کی حمایت کرنے والی ایک اور بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ اگر وہ مخصوص جماعتوں کی حمایت کرتی تو انتخابی نتائج واضح طور پر مختلف ہوتے اور اس کے نتیجے میں کسی مخصوص جماعت کو واضح یا دو تہائی اکثریت حاصل ہوتی۔ ان جماعتوں سے کئی اہم سیاسی شخصیات کی شکست بھی اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ انہیں اداروں کی جانب سے غیر منصفانہ حمایت نہیں ملی۔
قارئین، تمام عناصر کے لیے ضروری ہے کہ وہ حقائق اور انتخابی نتائج کو تسلیم کریں۔ تحفظات کو دھونس، بدمعاشی، ہٹ دھرمی، احتجاج یا بے بنیاد الزامات کے بجائے قانونی ذرائع اور عدالتوں کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔ حقیقت قوم اور دنیا پر عیاں ہے۔ انتخابات کے دوران پاک فوج کی غیرجانبداری کی تصدیق انتخابی نتائج اور سابق کمشنر راولپنڈی کے بیانات سے بھی ہوتی ہے۔ قوم اس ادارے کو تنازعات میں گھسیٹنے کی کسی بھی کوشش کی مذمت کرتی ہے۔ پوری قوم پاک فوج کے خلاف نفرت پھیلانے اور جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کرتی ہے۔