کالم

مذہب کے نام پر اتنی انتہا پسندی کیوں؟

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو مخاطب کرکے فرمایا ہے
ترجمہ: ”اے اولاد آدم کی ہم نے اتاری تم پر پوشاک جو ڈھانکے تمہاری شرمگاہیں اور اتارے آرائش کے کپڑے اور لباس پرہیزگاری کا وہ سب سے بہتر ہے، یہ نشانیاں ہیں اللہ کی قدرت کی” تاکہ وہ لوگ غور کریں۔”
اسی طرح ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ
”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں اور مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی اور فرمایاکہ: تم ایسے لوگوں کو اپنے گھروں سے نکال دو۔”
علماء نے اس غدیث کو ان الفاظ میں بیان کیا۔ جب ممانعت کی بنیادی علت مشابہت ہے اور اور جہاں یہ علت نہیں ہوگی وہاں ممانعت بھی نہیں ہوگی؛ اس لیے ایسی کڑھائی یا ڈیزائن والے کپڑے جو عورتوں کے کپڑوں کے مشابہ نہ ہوں (اور ان میں کفار کی مشابہت بھی نہ ہو)، ایسے کپڑوں کا مردوں کے لیے پہننا جائز ہوگا۔
(صحیح البخاری، رقم الحدیث: 5547
آج کل ایک موضوع زیر بحث ہے جس میں ایک ایسی خاتون کو بارہا نصیحت کی جا رہی ہے کہ اسے عربی خطاطی والا لباس پہننا ہی نہیں چاہیئے تھا۔
کسی حد تک تمام پند و نصائح درست بھی ہیں کہ ایسے معاشرے میں جہاں قرآن کریم کو خوبصورت جزدان میں چھپا کر الماری میں اتنی اوپر رکھ دیا جاتا ہے کہ کھول کر پڑھنے میں ہی سستی آجائے۔ جہاں سمجھ کر پڑھنے اور پھر اس پر عمل کرنے والی کتاب کو کبھی کھول کر دھیان سے پڑھا ہی نہ جائے، جہاں دینی تعلیم نام نہاد علماء سے سیکھی جائے جو اپنے خطبوں اور واعظ میں جنت کی حوروں کے حسن کو ایسے بیان کرتے ہیں کہ سننے والا شرم سے پانی پانی ہو جائے۔ جو ان دیکھی حوروں کے حسن میں معاشرے کے مردوں کو یوں مبتلا کرتے ہیں کہ ان کی بیویوں کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں۔ دنیا کی عورت تو محض فتنہ ہے۔
اسی طرح کی تعلیم حاصل کرنے والے کبھی قرآن کو خود اپنی آنکھوں سے نہیں پڑھتے، اپنے ذہن سے نہیں غور کرتے کہ جس جنت کے خواب دکھائے جا رہے ہیں اسے حاصل کرنے کا صحیح راستہ کون سا ہے۔
کوئی لڑکی سادہ لباس سے ہٹ کر کچھ پہن لے تو یہ نہیں سکھایا جاتا کہ مرد نے اس پر نگاہ ہی کیوں ڈالی، مرد کا نگاہ ڈالنا بھی تو حرام ہے۔ مگر اس بات پر واویلا مچا دیا جاتا ہے، فتوے جاری کردیئے جاتے ہیں کہ عورت ایسے لباس میں ہوگی تو مرد تو متاثر ہوگا ہی۔
جب مذہب کا پرچار کرنے والے ہی ایسی تشریح کریں گے تو سیکھنے والے کیا سیکھیں گے۔
ایک عورت عربی خطاطی والے لباس میں ملبوس بازار چلی جاتی ہے۔ مان لیجیئے وہ غلطی پر ہے۔ مگر اس پر نگاہ ڈالنے والے، اور دوسروں کو بھی دکھانے والے، کیا گناہ گار نہیں۔ مومن کی پہلی نگاہ جو غلطی سے پڑ گئی وہ معاف ہے۔ اس کے بعد تاڑنے والی نگاہیں کس زمرے میں آتی ہیں۔
اب بہت سے پڑھے لکھے یہ بیانات دیتے نظر آرہے ہیں کہ چونکہ عربی زبان قرآنی زبان ہے اور اس سے پاکستانیوں کا بہت لگاؤ ہے تو ان سے بس اتنی سی عرض ہے کہ پاکستان میں کتنے گھروں میں غیر ملکی مصنوعات استعمال ہوتی ہیں۔ کتنے خاندانوں کے کفیل عرب ممالک میں ملازمتیں کرتے ہیں، دوست رشتے دار عرب ممالک میں رہائش پذیر ہیں اور ہر بار پاکستان
آتے ہوئے کبھی ضرورتاً یا تحفتاً شیمپو، ٹوتھ برش، صابن، فیس کریمیں، باڈی کریمیں اور ایسی ہی بہت سی مصنوعات جو بیت الخلاء یا غسل خانوں میں ہی رکھی جاتی ہیں۔ کبھی ان کو پڑھ کر دیکھا ہے، پیچھے تمام معلومات و ہدایات عربی زبان میں درج ہوتی ہیں۔
عرب ممالک سے کھانے پینے کی اشیائ، بسکٹ یا چاکلیٹ وغیرہ کے خالی لفافے کوڑے کی زینت بنتے ہیں۔ ان پر بھی عربی لکھی ہوتی ہے۔ عربی سے اتنا ہی لگائو ہے تو کیا ان تمام مصنوعات کو جزدان میں لپیٹ کر رکھتے ہیں۔ کب تک اپنی قوم کی انتہا پسندی کو ہوا دیتے رہیں گے۔ کب تک جہالت پر بڑے بڑے بیان لپیٹ کر اسے چھپاتے رہیں گے۔ آخر کب اس قوم کو دین کے نام پر صحیح راستہ دکھایا جائے گا۔ آدھی رات کو بچوں کس یرغمال بنا کر ماں کے ساتھ ہوس پوری کرکے اپنی عزت داغدار کرتے ہیں تو بیان دیا جاتا ہے کہ یہ وقت کسی عورت کے باہر نکلنے کا تھا ہی نہیں۔ جینز پہننے والی لڑکی کے ساتھ دراندازی پر کہہ دیا جاتا ہے کہ اگر وہ ایسا لباس نہ پہنتی تو۔۔۔
کیا ہماری قوم کے مرد اتنے ہی نظر کے کچے اور کردار کے کھوکھلے یو چکے ہیں۔ جب کوئی انتہائی اقدام ہو تو اس کا حق میں دلیلیں دینے کے بجائے غلط کو کھل کر غلط کہنے میں کیا قباحت ہے۔
اسلام کے نام پر بننے والے ملک کے شہریوں کو اپنی مذہبی کتاب کا ایک لفظ بھی پڑھنا نہ آیا۔
”حلوہ” یہ تو اردو میں بھی ہے تو ایک لفظ بھی نہ پڑھ سکنے والے سزا و جزا کا فیصلہ کریں گے۔
اسلام تو ہمیشہ میانہ روی کا درس دیتا ہے، کبھی نہ حد سے تجاوز نہ کم، ہمیشہ درمیانی راہ پر زور دیا گیا۔
”اعتدال میں رہنے والا انسان کبھی مفلسی کا شکار نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ غیر ضروری فکروں میں مبتلا ہوتا ہے۔ آپ ۖ کا فرمان ہے کہ ” میانہ روی نبوت کا پچیسواں جزو ہے۔ ”(ابوداؤد،مسنداحمد)جبکہ ایک
اور حدیث میں بطورِ تاکید کے تین بار فرمایا کہ تم درمیانی راہ اختیار کرو، درمیانی راہ اختیارکرو، درمیانی راہ اختیار کرو!”
اس طرح کی انتہا پسندی کے واقعات سے ملک کا کتنا مذاق بنتا ہے۔ بحیثیت ایک پاکستانی، قوم کا سر کیسے شرم سے جھک جاتا ہے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ اسلام کے نام پر یہ سب ہوتا آرہا ہے
۔ ایسا دین جو واحد ہے جس میں عورت کی عزت و تکریم، حقوق اور مرتبے کی بات ہوتی ہے۔
ایسا دین جو صبر، برداشت اور میانہ روی کا درس دیتا ہے۔ ایک بہترین معاشرے کے اصول وضع کرتا ہے جہاں ہر کوئی دوسرے کے شر سے محفوظ ہو۔
ایسے دین کے نام پر کبھی کسی سری لنکن کو زندہ جلا ڈالنا، کبھی توہین رسالت کا نام لے کر عام شہریوں کی املاک جلا ڈالنا، کبھی پوری کی پوری عیسائی کالونی کو آگ لگا دینا۔
جتنا خوبصورت مذہب اسلام ہے اور جتنی بہترین تعلیمات ہمارے اپنے ہاتھ میں ہیں کوئی دوسرا تو اتنا خوش قسمت ہی نہیں۔ فقط اتنا کرنا ہے قرآن کریم کو کھول کر اپنی آنکھوں سے پڑھنا ہے اور اس کو سمجھنے کی کوشش کرنی ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button