کالم

تعلیم شہریوں کا بنیادی حق اور ریاست کی ذمہ داری ہے

ایک زمانہ تھا کہ دیہاتی سکولوں میں سنگل ٹیچر ہوا کرتے تھے جو کہ کچی سے لے کر پانچویں تک چھ کلاسز کو پڑھایا کرتے۔ بڑے قصبوں اور شہروں کے بڑیسکولوں میں عموماً تین سے پانچ اساتذہ ہوا کرتے۔ تب اساتذہ بڑے محنتی ہوا کرتے تھے۔ دیہات میں ایک ہی استاد بیک وقت چھ کلاسز کو تمام مضامین یکساں مہارت سے پڑھایا کرتے تھے۔ شہری سکولوں کے اساتذہ بھی بھرپور محنت کروایا کرتے تھے۔ بچوں کے ساتھ ساتھ ان کے والدین بھی اساتذہ کا بے حد احترام کیا کرتے تھے۔ والدین کی طرف سے بچوں کو سزا دینے کی کوئی ممانعت نہ تھی بلکہ گھروں میں ضدی بچوں کو یہ کہہ کر ڈرایا جاتا تھا کہ اگر ضد نہیں چھوڑو گے تو تمہارے استاد کو شکایت لگائی جائے گی۔ یہ دھمکی تیر بہدف ثابت ہوا کرتی تھی۔ اساتذہ کی معاشرے میں عزت تھی، ایک مقام تھا۔ شہروں کے پرائمری سکولوں میں جہاں چار پانچ اساتذہ ہوا کرتے تھے ان اساتذہ کے درمیان مسابقت کی دوڑ لگی رہتی تھی۔ ہیڈ ماسٹر صاحبان دفتری امور کے علاوہ کسی ایک کلاس کے انچارج بھی ہوا کرتے تھے۔ تب پوری تحصیل کے پرائمری سکولوں کے لیے صرف ایک افسر ہوا کرتے تھے جنہیں اے ڈی آئی (اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر) کہا جاتا تھا۔ اے ڈی آئی بڑے بااصول ہوا کرتے تھے۔ رعب کا یہ عالم ہوتا تھا کہ وہ سکول میں داخل ہوتے تو اساتذہ اور طلبہ سہم سے جاتے تھے۔
اچانک حکومت کو خیال آیا کہ اگر تحصیل بھر میں ایک اے ڈی آئی کی زیرِ نگرانی سکول اتنی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو تحصیل میں پانچ چھ اے ڈی آئی تو سکولوں کی پرفارمنس کو بہت بہتر کر دیں گے۔ چنانچہ ہر تحصیل کے بڑے بڑے شہروں کو مراکز بنایا گیا، ہر مرکز میں پچیس تیس سکول رکھے گئے اور ان کے اوپر ایک افسر مقرر کر دیا گیا جسے اے ای او (اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر) کا نام دیا گیا۔ یہ اے ای اوز سکولوں کا معائنہ کرنے کے علاوہ دیگر انتظامی امور کے بھی ذمہ دار تھے جن میں ٹیچرز کی رخصت اتفاقیہ کی منظوری دینا، سنگل ٹیچر سکول میں استاد کی چھٹی کی صورت میں کسی دوسرے سکول سے متبادل استاد کا بندوبست کرنا تاکہ سکول بند نہ ہو، تبادلے کی صورت میں اساتذہ کو حاضر فارغ کرنا اور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کی معاونت ہوتا تھا۔زنانہ و مردانہ پرائمری، مڈل اور ہائی سکولوں کے لیے ایک ہی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ہوا کرتے تھے۔ سکولوں کا نظام بہترین انداز میں چل رہا تھا۔
حکومت کو خیال آیا کہ اگر ایک ڈی ای او اچھی کارکردگی دکھا رہا ہے تو کیوں نہ زنانہ اور مردانہ شعبے الگ کر کے مزید بہتر رزلٹ لیے جائیں چنانچہ زنانہ اور مردانہ سکولوں کے لیے ڈی ای اوز الگ الگ مقرر کر دیے گئے۔ چند سال بعد کارکردگی میں نکھار لانے کے لیے مڈل اور پرائمری سکولوں کے لیے ایک ڈی ای او جبکہ ہائی سکولوں کے لیے الگ ڈی ای او کا تقرر کیا گیا۔ اس کے بعد کارکردگی مزید بہتر بنانے کی خاطر سوچا گیا کہ تحصیل کی سطح پر بھی آفیسر کا ہونا ضروری ہے چنانچہ ایلیمنٹری ونگ کے لیے زنانہ اور مردانہ الگ الگ ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کا تقرر کر دیا گیا۔ اس سے اگلی حکومت کو احساس ہوا افسران کافی بڑھ گئے ہیں چنانچہ ضلعی سطح پر ان سب کے اوپر ایک افسر مقرر ہونا چاہیے۔ لہٰذا افسروں کا افسر چیف ایگزیکٹو آفیسر کا تقرر کیا گیا جن کے ماتحت تمام انتظامی افسران اور ضلع بھر کے تمام پرائمری، ایلیمنٹری، ہائی اور ہائیر سیکنڈری سکول دے دیے گئے۔ گویا عملی طور پر وہ پرانے دور کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ہیں۔ پہلے پہل انہیں ای ڈی او (ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ آفیسر) کا نام دیا گیا تھا۔
اس قدر انقلابی اصلاحات اور افسران کی بھرمار کے بعد ہمیں تعلیمی لحاظ سے یورپ اور امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑ دینا چاہیے تھا۔ مگر حیرت انگیز طور پر افسران کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ معکوس ترقی کا سفر بھی شروع ہو گیا۔ پہلے استاد صرف استاد ہوتا تھا۔ اسے محض پڑھانے سے غرض ہوتی تھی۔ سکول کے اوقات سے ہٹ کر بھی وہ طلبہ کو کافی وقت دیا کرتا تھا۔ وہ اپنی عزت اور وقار کے لیے طلبہ کو محنت کروا کر اچھا رزلٹ حاصل کرتا اور سارا سال اس پر فخر کرتا۔ اس کے خلوص اور محنت کے عوض اسے معاشرے نے بلند مقام عطا کر دیا تھا۔
اب چلتے چلتے ہم پروفیشنل ازم کے دور میں پہنچ گئے ہیں۔ ماضی میں استاد کا ڈر اور احترام ہوتا تھا۔ اب مار نہیں پیار کے سلوگن نے معاشرے کو بتایا کہ چھڑی یا تھپڑ مارنا تو درکنار استاد کسی بچے کو گھور بھی نہیں سکتا۔ اگر ایسا کرے گا تو ملازمت سے جائے گا۔طالب علم سکول نہ آئے تو وہ سختی سے بازپرس نہیں کر سکتا جبکہ طلبہ کی 95 فیصد سے کم حاضری پر اسے محکمانہ بازپرس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بچہ چاہے سارا سال سکول نہ آئے، استاد اس کا نام خارج کر سکتا ہے نہ ہی اسے سال کے آخر میں فیل کر سکتا ہے خواہ اس نے خالی پیپر ہی کیوں نہ دیے ہوں۔ معاشرے کو احساس دلایا گیا کہ استاد محض ایک سرکاری ملازم ہے جس کی کوئی عزتِ نفس نہیں ہوتی۔ استاد کو ڈینگی ایکٹیوٹیز پر لگا دیا گیا۔ کوتاہی کی صورت میں فوری معطلی کا پروانہ اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ حکومتی رویّے سے لگتا ہے کہ سکول ہی ڈینگی مچھر کی پیداواری فیکٹریاں ہیں۔ استاد اب بیک وقت فوٹو گرافر، کلرک، مالی، مستری، نائب قاصد، کمپیوٹر آپریٹر، خاکروب، چوکیدار اور مزدور کے فرائض تو سرانجام دے رہا ہے مگر اسے استاد نہیں بننے دیاجا رہا۔
مردم شماری، الیکشن ڈیوٹی، پولیو ڈیوٹی، فوڈ اور پاسکو کی معاونت کرتے ہوئے باردانہ کی تقسیم پر ڈیوٹی، رمضان بازار میں ڈیوٹی، مفت آٹے کی ترسیل پر ڈیوٹی کا کام استاد سے لیا جاتا ہے۔ اس بات کی کسی حکومت نے کبھی پروا نہیں کی کہ قوم کا تعلیمی نقصان کتنا ہو رہا ہے۔ افسران بالا سکولوں کے معائنہ کے دوران صفائی، پانی اور بجلی کی فراہمی، طلبہ کی حاضری، بلڈنگ کی حالت اور مینٹینیس کا ہی جائزہ لیتے ہیں۔ بچوں کی تعلیمی حالت کا جائزہ ان کے انسپیکشن پروفارمہ میں وجود ہی نہیں رکھتا۔
یہ ہیں وہ حالات جن میں سرکاری ٹیچر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ایسے میں اگر کسی سکول کے طلبہ کا تھوڑا سا کمزور رزلٹ آ جائے تو وہ سکول ہٹ لسٹ میں آ جاتا ہے اور اسے کسی پرائیویٹ این جی او کے حوالے کر دیا جاتا ہے حالانکہ کمزور رزلٹ کا ذمہ دار استاد نہیں بلکہ حکومتی پالیسیاں ہیں جو اسے پڑھانے نہیں دیتیں۔
امید کی جا رہی تھی کہ محترمہ مریم نواز شریف وزیرِ اعلیٰ بننے کے بعد تعلیمی اصلاحات کے ذریعے سرکاری سکولوں میں بہتری لائیں گی۔ اساتذہ پر سے غیرتدریسی ذمہ داریوں کا بوجھ اتار کر انہیں استاد بننے کا موقع فراہم کریں گی مگر وزیرِ اعلیٰ بننے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں انہوں نے تعلیمی شعبے کو پبلک پرائیویٹ کوآرڈینیشن سے چلانے کا عندیہ دے کر بتا دیا ہے کہ وہ پہلے سے رکھی گئی ٹیڑھی بنیاد پر عمارت تعمیر کرنا چاہ رہی ہیں۔ اساتذہ تنظیموں کو چاہیے کہ وہ ان سے فوری ملاقات کر کے اپنے تحفظات سے آگاہ کریں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔
عوام کو تعلیم اور صحت مہیا کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے مگر ریاست اپنی اس ذمہ داری سے جان چھڑا کر تعلیم کو پرائیویٹ سیکٹر میں دینا چاہتی ہے۔ کیونکہ آقا و مربی آئی ایم ایف کی یہی شرط ہے۔ ہندوستان کے صوبہ دہلی میں وزیرِ اعلیٰ اروند کیجریوال نے اپنے وسائل سے سرکاری سکولوں کو اتنا اپ گریڈ کر دیا ہے کہ لوگ بہترین پرائیویٹ سکولوں کو چھوڑ کر اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخل کروا رہے ہیں۔ ہماری حکومتوں کی ترجیح قوم کے مستقبل کو سنوارنے کی بجائے اشرافیہ کو پالنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان چاند پر پہنچ گیا ہے اور ہم اپنے قومی جھنڈے پر چاند کی تصویر دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button