پنجاب اور سندھ حکومتوں نے اپنا پنا کام شروع کردیا ہے دیکھنا یہ ہے کہ مضبوط اپوزیشن اور خراب معاشی صورتحال میں ان وعدوں کا کیا ہوگا جو الیکشن سے پہلے ہر سیاستدان نے عوام سے کیے تھے ہمارے ہاں تو ویسے بھی حکومتیں عہدوں اور مفادات کی تقسیم کا کھیل بن چکی ہیں اگر دیکھا جائے تو چاروں صوبوں میں اب بھی وہی بندر بانٹ جاری ہے، سیاستدانوں نے ابھی تک کوئی سبق نہیں سیکھا اور نہ ماضی سے کچھ سیکھنے کی کوشش کی ایوانوں میں پہنچ کر عوام کو نکال دیا جاتا ہے اور مفادات اپنے خاندانوں میں بانٹ دئیے جاتے ہیں اسے جمہوریت نہیں بلکہ بادشاہت کہتے ہیں جس کی بدترین مثال اقربا پروری اور موروثی سیاست ہے اس وقت پنجاب میںمریم نواز کو سب سے زیادہ مخالفت کا سامنا ہے ایک تو ان پر الزام ہے کہ انکی پارٹی کو الیکشن میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن ملی بھگت سے انہیں مختلف سیٹوں سے جتوادیا گیا مگر اتنی سیٹیں پھر بھی نہیں دی گئی کہ وہ اپنے طور پر حکومت بنا لیں اسی لیے ن لیگ نے پیپلز پارٹی ،ق لیگ اور آزادامیدواروں کو اپنے ساتھ ملا کر مریم نواز کو پہلی خاتون وزیر اعلی کا کریڈٹ بھی حاصل کرلیا پنجاب اسمبلی میں اگر آزاد امیدوار ن لیگ کا ساتھ نہ دیتے تو ن لیگ کبھی بھی اپنی حکومت بنانے میں کامیاب نہ ہوتی اس لیے مریم نواز کو چاہیے کہ جب اپنی کابینہ بنائے تو سب سے پہلے آزاد امیدواروں کو اس میں شامل کریں کیونکہ یہ آزاد امیدوار پیپلز پارٹی کی بہت سی آفرز کو ٹھکرا کر مسلم لیگ ن کے ساتھ شامل ہوئے ہیں اور یہی لوگ اپنے آپ کو عوام میں سرخرو کرنے کے لیے دن رات محنت بھی کرینگے کیونکہ الیکشن سے پہلے جتنے وعدے مسلم لیگ ن نے عوام سے کیے ان سب پر عملدرآمد ناممکن ہے اور اگر ان میں سے چند ایک پر بھی عمل ہوگیا تو مسلم لیگ ن پنجاب میں اپنی ساکھ بچانے میں کامیاب ہوسکتی ہے مگر اسکے لیے ضروری ہے کہ پنجاب کابینہ میں ایسے چہروں کو سامنے لایا جائے جو عوام کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں اور اس میں سب سے زیادہ آزاد امیدوار اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں کیونکہ ایک طرف تو انکی اپنی ساکھ کا معاملہ ہوگا اور دوسری طرف پارٹی کا دبائو بھی ہوگا اس لیے سب سے بہترین چوائس آزاد امیدوار ہیں اگر مسلم لیگ ن نے انہیں وزارتوں سے محروم رکھا تو سب سے زیادہ پریشانی کا سامنا مریم نواز کو کرنا پڑسکتا ہے مریم نواز نے الیکشن سے پہلے جس طرح جارحانہ سیاست کی ہے بلاشبہ اسی کے نتیجہ ن لیگ کو ووٹ بھی پڑے لیکن اتنی سیٹیں نہیں مل سکیں کہ وہ پنجاب سمیت مرکز میں اپنی حکومت بنالیں کہنے کو تو مسلم لیگ ن کی یہ حکومت بیساکھیوں پر کھڑی ہے اور جن لوگوں نے اس حکومت کا سہارا دے رکھا ہے وہ بلاشبہ آزاد امیدوار ہی ہیں اگر انہوں نے ساتھ چھوڑ دیا تو پنجاب میں ن لیگ کی حکومت دھڑام سے نیچے آگرے گی اس لیے مریم نواز کو اپنے خواب پورے کرنے کے لیے آزاد امیدواروں پر زیادہ بھروسہ کرنا پڑے گا اور اس وقت پنجاب اور سندھ کے عوام سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہیں اسی فیصد سے زائد افراد سندھ اور پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں پینے کے صاف پانی، صحت کی بنیادی سہولتوں اور تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں جہاں زراعت اور صنعت پر کوئی توجہ نہیں ہے جبکہ با توں سے صوبے معاشی حب نہیں بنتے شارٹ ٹرم اور لونگ ٹرم ترقی، روزگار اور خوشحالی کا روڈ میپ جو دیا گیا ہے ضروری ہے کہ اب اس پر دل وجان سے عمل بھی کیا جائے ایوان عوامی مفاد کی قانونی سازی کرے اور مقامی حکومتوں کے ذریعے لوگوں کو بنیادی سہولتیں دی جائیں حکمران ایک بات کو ذہن نشین کرلیں کہ مسلط شدہ ایجنڈے زیادہ دیر نہیں چلتے اس لیے اب سب مل بیٹھیں اور مسائل کا حل نکالیں جو کہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے پاکستان کو برآمدات کے قابل بنانا،روزگار، تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا بہت وقت کی اہم ضرورت ہے پنجاب سمیت تمام صوبوں میں تعلیمی اور زرعی ایمرجنسی نافذ کی جائے تاکہ اس پہ فوکس کیا جا سکے مریم نواز نے اپنی پہلی تقریر میںایجوکیشن کے حوالہ سے بڑا تفصیلی بیان دیا تھا اس لیے پنجاب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پہلے نمبر پر اساتذہ کی عرصہ دراز سے رکی ہوئی ترقیاں فورا کرے انکی تنخواہیں بڑھائی جائیں سرکاری سکولوں کا ماحول خوشگوار بنایا جائے اور اس کے لیے مرکز میں بیٹھے ہوئے ایکانتہائی شاندار اور وسیع سوچ کے حامل شخص محی الدین وانی سے بھی رہنمائی لی جائے جن کی کوششوں سے گلگت بلتستان میں تعلیمی انقلاب آیا اور اب وہ اسلام آباد کے سکولوں کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑے ہوئے جہاں کا ماحول یکسر تبدیل ہوچکا ہے انکی کوششوں سے لگتا ہی نہیں ہے کہ یہ وہی سکول ہیں یا ہم باہر کی دنیا میں آگئے ہیں اس وقت پنجاب بھر کے سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی بھی شدید کمی ہے جس سے تدریسی امور بری طرح متاثر ہورہے ہیں لاہور کے اکثر سکولوں میں ہیڈ ماسٹرز اور ہیڈ مسٹریس نہیں ہیں جونیئر ٹیچروں کو عارضی چارج دیکر عرصہ دراز سے بٹھا رکھا ہے اس لیے مریم نواز کو سب سے پہلے پنجاب بھر کے سرکاری سکولوں میں میرٹ پر خالی آسامیاں پر کرنی چاہیے اس وقت پنجاب بھر کے تعلیمی اداروں میں پرنسپل ، ہیڈ ماسٹرز کی 4224،سینئر سیبجکٹ سپیشلسٹ،سیبجکٹ سپیشلسٹ کی 7092، ایس ایس ٹی، ایس ایس ای، ڈی پی ای کی 7846، ای ایس ٹی، ایس ای ایس ای کی 23448، ای ایس ای،پی ایس ٹی کی 72370 اور قاری ٹیچر کی 641 نشستیں خالی ہیں جسکی وجہ سے طلبہ وطالبات کے تدریسی امور بری طرح متاثر ہو رہے ہیں فروری کے آخرمیں بھی صوبہ بھر کے سینکڑوں اساتذہ ریٹائرڈ ہورہے ہیں ان ریٹائر ہونے والے اساتذہ سے پہلے اس وقت سرکاری سکولوں میں ایک لاکھ پندرہ ہزار 671اساتذہ کی سیٹیں خالی ہیں سرکاری سکولوں میں ایک سو سے زائد کی کلاس پر ایک ٹیچر تعینات ہے جو طلبہ وطالبات پر پوری توجہ نہیں دے پاتے اور سرکاری سکولوں میں تعلیم کا گراف روزبروز تنزلی کا شکار ہو رہا ہے۔
0 29 4 minutes read