
غازی ملت راجہ محمد حیدر خان کی 58ویں برسی حیدر میموریل ایسوسی ایشن کے تحت 20 اپریل 2024 کو عقیدت اور احترام کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔ جس میں حسب معمول پہلے دعائیہ تقریب مسجد شاہ عنایت ولی میں جہاں قرآن خوانی کی جاتی ہے یاد رہے کہ راجہ حیدر خان کے لئے پاکستان اور آزادکشمیر کی مساجد میں پہلے سے قرآن خوانی کی جاتی ہے۔ دعائیہ تقریب کے بعد میونسپل ہال میں جلسہ عام کی تقریب ہوتی ہے جس سے پاکستان اور آزادکشمیر کے مختلف طبقات کے رہنما خطاب کرتے ہیں۔ حالات زندگی : راجہ حیدر خان کی تاریخ پیدائش 04 جون 1916ء تحصیل چکار کے گائوں سلمیہ میں ہوئی آپ کے والد راجہ سکندر خان ریاست کے مشہور جاگیردار تھے۔ وفات 20 اپریل 1966ء ۔ آپ کے بھائی راجہ افضل خان (مرحوم) کا تعلق بھی ریاست کے معروف جاگیرداروں میں تھا۔ انہوں نے راجہ صاحب کو جنگلات میں آفیسر بھرتی کروایا۔ ان کا خیال تھا کہ مہاراجہ کے خلاف بات نہ ہو لیکن بات اس کے برعکس تھی۔ آپ کے دوسرے بھائی راجہ جان محمد خان (مرحوم) تھے۔ تیسرے بھائی راجہ محمد لطیف خان (مرحوم) رکن آزادکشمیر اسمبلی 1970 میں رہے۔ بیگم راجہ محمد حیدر خان بھی 1970 کی اسمبلی میں رکن قانون ساز اسمبلی رہیں۔ وہ ثابت قدم رہیں نہ وہ جھکیں نہ بکیں ہم انہیں سلام پیش کرتے ہیں۔ ان کی بہن نورین حیدر بھی 1991-96 میں رکن آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی رہی ہیں۔ ان کے اکلوتے بیٹے راجہ محمد فاروق حیدر خان سابق وزیراعظم آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر 2016 سے 2021 تک 5 سال کے لئے وزیراعظم رہے اور دس سال تک مسلم لیگ (ن) آزادکشمیر کے صدر رہے اور انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے تیرہویں ترمیم کے تحت مالی اختیارات جو کشمیر کونسل کے پاس تھے وہ آزادکشمیر کو منتقل ہونے سے آزادکشمیر میں مالی بحران ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوا۔ یقینا اس کا کریڈٹ مسلم لیگ (ن) کی وفاق میں حکومت کو بھی جاتا ہے۔ انہوں نے میرٹ کی بحالی کے لئے NTS کے ذریعے محکمہ تعلیم میں ایلیمنٹری ٹیچرز بھرتی کئے۔ قادیانیوں کو آزادکشمیر کے آئین میں غیر مسلم قرار دیا جس پر شیخ الحدیث حضرت حسنین شاہ صاحب نے راجہ فاروق حیدر خان کو مجاہد ختم نبوت کے اعزاز سے نوازا۔ اور اپنے ادارے میں ان کا فقید المثال استقبال کیا۔ غازی ملت راجہ محمد حیدر خان نے اعلیٰ تعلیم سرینگر سے حاصل کی اور دوران طالب علمی ہی میں وہ تحریک آزادی کشمیر کا حصہ بنے۔ انہیں محکمہ جنگلات کے پرکشش محکمہ میں فاریسٹ آفیسر بھرتی کر کے ڈیرہ دون سے گریجویشن کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ وہ جنگلات کے اعلیٰ آفیسر بھی ترقیاب ہوئے لیکن ان کی دیانت اور امانت کے تقاضے ایسے تھے کہ وہ معطل کر دیئے گئے اور کبھی بحالی کی درخواست نہ دی۔ انہوں نے محکمہ جنگلات آزادکشمیر کی بنیاد جدید خطوط پر رکھی۔ ورکنگ پلان سلویکلچر اور اور ڈیمارکیشن کی ترتیب مرتب کیں۔ اس وقت جنگ آزادی میں اداروں کی کارکردگی بڑھائی۔ وہ رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس کے دست راست تھے۔ انہوں نے ہمیشہ پاکستان کی سربلندی اور نظریہ الحاق پاکستان کے لئے کام کیا۔ 1965 کی جنگ میں وہ خود محاذ جنگ پر نیلم ویلی اشکوٹ سنجوئی پوسٹ پر جانے کے لئے کمربستہ ہوئے لیکن انہیں پیچھے رہ کر کام کرنے پر مشکل سے قائل کیا گیا۔ اس وقت ان کی صحت بھی درست نہ تھی۔ وہ افواج پاکستان کے ساتھ اگلے محاذ پر جانے کے لئے اصرار کرتے تھے۔ ان کی رگ رگ میں پاکستان کی مضبوطی اور استحکام کا خون دوڑتا تھا۔ راجہ حیدر خان دو مرتبہ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے صدر رہے وہ انتہائی نڈر، دلیر اور حق گوئی اور بے باکی کی عملی مثال تھے۔ انہوں نے معاشرے سے ہندوانہ رسومات کو ختم کیا اور پورے آزادکشمیر میں پیدل سفر کر کے معاشرے کی بہتری کے لئے انمٹ نقوش چھوڑے۔ جو آج تک بہادری کی مثال رہا اور دلوں کی دھڑکن اور رہنمائی پر مسلمہ رہی۔ عوامی تحریکوں کے دوران کئی مرتبہ راجہ حیدر خان جیل میں گئے لیکن نہ کبھی بکے نہ جھکے۔ وہ مضبوط پاکستان کے حامی تھے۔ مظلوم کی حمایت میں ہمیشہ پہلی صف میں ہوتے۔ ساری زندگی تحریک آزادی کشمیر کے لئے کام کیا اور نظریہ الحاق پاکستان ان کی منزل رہی۔ وہ امانت اور دیانت حق گوئی و بے باکی میں اپنی مثال آپ تھے۔ کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ وفات کے 58 سال بعد بھی ہزاروں لوگ عقیدت اور احترام سے ان کی برسی میں شرکت کرتے ہیں۔ عرب اسرائیل جنگ کے موقع پر سامراجی قوتوں نے مصر پر حملہ کیا تو برصغیر پاک و ہند کے پہلے رہنما تھے جنہوں نے مصر کی مدد کے لئے دس لاکھ کشمیری نوجوانوں کو بھیجنے کی پیشکش کی۔ یہ اعلان اخبارات میں نمایاں سرخیوں سے شائع ہوا۔ راجہ حیدر خان نے اس وقت عربوں کی کھل کر حمایت کی۔ اس وقت بڑے ابتلا کا دور تھا لیکن یہ جرات مند اقدام صرف راجہ حیدر خان کے حصہ میں ہیں۔ بخشی غلام محمد (مرحوم) وزیر اعلیٰ مقبوضہ کشمیر حفیظ جالندھری خالق قومی ترانہ پاکستان ان کے ہم عصر اور دوستوں میں شامل تھے۔
وہ MTTC فرم کے بھی مالک رہے لیکن سیاست کے خاردار راستے میں انہیں ہر قسم کی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن خندہ پیشانی سے انہوں نے مشکلات پر قابو پایا۔ وہ لوگوں کے دلوں میں بستے تھے۔ کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہو کر 20 اپریل 1966 کو خالق حقیقی سے جا ملے۔ ”جب جمہور کروٹ لیں گے تو یہاں میلے لگیں گے”۔
ڈھونڈو گے ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم