کالم

ڈیجیٹل نوجوان مستقبل کے معمار

البرٹ آئن اسٹائین نے کہا تھا، پاگل وہ ہوتا ہے جو روز روز ایک ہی جیسا کام کرتا ہے، مگر چاہتا ہے کہ نتیجہ الگ ہو۔
معروف موٹی ویشنل اسپیکر ٹونی رابنز نے تو اس بات کو بڑے عمدہ انداز میں بیان کیا ہے، اگر تم وہی کرو گے جو تم ہمیشہ کرتے آئے ہو ، تو تمہیں وہی ملے گا جو تمہیں ہمیشہ ملتا رہا ہے۔
نوجوان معاشرے کا چہرہ اور سرمایہ ہیں، یہ کسی بھی معاشرے کی اساس ہوتے ہیں۔ پاکستان ان خوش قسمت ملکوں میں شامل ہے جہاں نوجوان آبادی کا فی صد سے بھی زیادہ ہیں۔یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان کی کل آبادی کا فی صد نوجوانوں پر مشتمل ہے، جن کی عمر سال سے کم ہے جب کہ کل آبادی کا فی صد وہ ہیں جن کی عمر سے سال ہے۔یہ نوجوان ہمارے مستقبل کی ضمانت ہیں۔ یہ ہمارے مستقبل کے معمار ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ ہمارے مستقبل کے معمار بننے کے لیے تیار ہیں؟ کیوں کہ اگر انسان کا حال درست نہیں تو اس کے بہتر مستقبل کی امید کیسے کی جا سکتی ہے۔
البرٹ آئن اسٹائین نے کہا تھا، پاگل وہ ہوتا ہے جو روز روز ایک ہی جیسا کام کرتا ہے، مگر چاہتا ہے کہ نتیجہ الگ ہو۔
معروف موٹی ویشنل اسپیکر ٹونی رابنز نے تو اس بات کو بڑے عمدہ انداز میں بیان کیا ہے، اگر تم وہی کرو گے جو تم ہمیشہ کرتے آئے ہو ، تو تمہیں وہی ملے گا جو تمہیں ہمیشہ ملتا رہا ہے۔
اب آجائیں حاصلِ مضمون کی طرف جہاں ان ہی ڈیجیٹل نوجوانوں نے ایک تاریخ رقم کردی ، یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ الیکشنکس کے بیانیہ کی شکست یا کس کے بیانیہ کی جیت ہے مگر وہ جملہ جو ایک نوجوان نے اپنی ماں کی شہادت پر بولا تھا جی ہاں بلاول کا وہ بولا ہوا جملہ کہ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہیآج ثابت ہوا ہے ، آپ مانیں یا نہ مانیں مینڈیٹ تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن یہ تو مانیں گے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان انتخاب میں نہیں تھے وہ اڈیالہ جیل میں تھے مگر نواز شریف، بلاول بھٹو، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان، ایمل ولی اور خالد مقبول سب میدان میں موجود تھے۔ دفعہ کا نفاذ ہوتا رہا جلسہ جلوس پر پابندیاں رہیں، انتخابی نشان واپس لے لیا گیا ، الیکشن مہم صفر رہی اس کے باوجود یہ ڈیجیٹل نوجوان ہر مسئلہ کا حل اپنی صلاحیتوں سے نکالتے رہے ، یہ جانتے تھے کہ ذوم ، ایکس، ٹک ٹاک پر دفعہ نہیں ہے انہوں نے اس ٹیکنالوجی کا استعمال بڑی مہارت سے کیا اور یوں بڑے بڑے جلسے کرڈالے اور سچ پوچھیں تو ہم نے اپنی زندگی میں سیاست کو اس ڈھب میں پہلی بار دیکھا ۔حالاں کہ آج سے چند برس ماضی میں سیاست پر نظر ڈالیں تو ایم کیوایم پاکستان واحد سیاسی جماعت تھی جس نے سوشل میڈیا کو بہترین انداز میں استعمال کیا تھا مگر موجودہ حالات میں ان نوجوانوں نے سب کوپچھاڑ کر رکھ دیا۔
امجد اسلام امجد نے کیا خوب کہا ہے
اندھیرے سے لڑائی کا یہی احسن طریقہ ہے
تمہاری دسترس میں جو دیا ہو وہ جلا دینا
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ تو ممکن ہے کہ ان نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کی وابستگی کسی ایک سیاسی جماعت سے ہو لیکن یہ ممکن نہیں کہ کسی دوسری جماعت میں ان نوجوانوں کی تعداد بالکل نہ ہو، ہر پارٹی سے نوجوان ان انتخابات میں نکلے ہیں اور انہوں نے اپنے پسندیدہ امیدواروں کو ووٹ دیا ہے ۔اب ان نوجوانوں کو مایوسی سے بچانے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ان انتخابی نتائج کے خلاف جو درخواستیں آرہی ہیں تو ان کو ایمانداری سے دیکھا جائے اگر کسی سے بھی زیادتی ہوئی ہے تو اس کا ازالہ کیا جائے جو کچھ غلط ہوچکا ا سے درست ثابت کرنے سے کہیں بہتر ہے جو غلط ہوگیا اسے درست کرلیا جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button