کالم

غزہ میں اسرائیلی جنگ سے یورپ ، عرب میں مالی بحران کا آغاز

غزہ میں اسرائیلی جنگ طول پکڑتی گئی اور اسرائیلی معیشت تاریخ میں پہلی بار تیزی سے سکڑتی گئی۔ اسرائیل کی معیشت کی یہ گراوٹ کسی اور وجہ سے نہیں صرف اسرائیلی جنگ کی وجہ سے ہے جو اس نے سات اکتوبر سے غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف شروع کر رکھی ہے۔ماضی اس قدر طویل جنگ اسرائیل کو کبھی عرب ملکوں کے خلاف بھی نہیں لڑنا پڑی تھی جتنی لمبی جنگ حماس کو تباہ کرنے کے نام پر فلسطینیوں کے غزہ سے صفائے کے لیے جاری ہے۔ اب تک 29 ہزار فلسطینی غزہ میں شہید کیے جا چکے ہیں۔
رہاست ہائے متحدہ امریکہ نے منگل کے روز ایک بار پھر غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کیا ہے۔ جنگ بندی کے لیے پیش کی جانے والی قرارداد میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان انسانی بنیادوں پر فوریسیز فائرکروایا جائے۔الجزائر کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کے حق میں تیرہ ووٹ آئے جبکہ برطانیہ نے ووٹ کا استعمال نہیں کیا اور امریکہ نے اس کو ویٹو کر دیا۔ سات اکتوبر کے بعد سے اب تک جنگ بندی کے لیے پیش کردہ یہ تیسری قرارداد تھی جسے امریکہ نے ویٹو کیا ہے۔امریکہ کی طرف سے قرارداد کو تیسری بار ویٹو کرنے کے اختیار کا استعمال اس وقت سامنے آیا ہے جب اسرائیل غزہ کے انتہائی جنوب میں واقع شہر رفح پر ایک بڑی جنگی یلغار کی تیاری کر رہا ہے۔ رفح شہر میں اس وقت چودہ لاکھ فلسطینی غزہ کے مختلف علاقوں سے بے گھر ہو کر پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حماس کی مکمل تباہی کے مشن کے لیے اس مشن کو ضروری سمجھتا ہے تاہم اسرائیل کو اس نئی جنگی یلغار کے حوالے سے بیرونی دنیا کی جانب سے سخت دباو کا سامنا ہے۔ البتہ امریکی صدر جو بائیڈن نے رفح پر اسرائیلی یلغار کو قابل بھروسہ منصوبہ بندی کے ساتھ کرنے کی تاکید کی ہے۔
سلامتی کونسل میں منگل کے روز ویٹو کی گئی قرارداد کے متن میں فلسطینیوں کی غزہ سے جبری بے دخلی کی بھی مخالفت کی گئی نیز یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ حماس کی قید میں موجود اسرائیلی یرغمالیوں کو فوری رہا کیا جائے۔امریکہ نے پچھلے ہفتہ کے اختتام پر خبردار کیا تھا کہ الجیریا کی طرف سے پیش کردہ قرارداد قابل قبول نہیں ہے اس لیے اسے ویٹو کیا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکی نائب سفیر رابرٹ ووڈ نے کہا کہ ہم نہیں سمجھتے کہ سلامتی کونسل میں پیش کردہ یہ قرارداد زمین پر موجود حالات کو بہتر کرنے کے لیے مددگار ثابت ہو گی۔ رابرٹ ووڈ کے مطابق سیز فائر کے لیے راستہ جاری سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچائے گا جو اس وقت یرغمالیوں کے لیے کی جا رہی ہیں۔ امریکہ اس قرارداد کے برعکس ایک متبادل قراداد پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس کا متن اے ایف پی کے نمائندہ کی نظر سے گزرا ہے۔ امریکی قرارداد میں سیز فائر کا لفظ شامل نہیں کیا گیا جیسے کہ امریکہ نے گزشتہ قراردادوں میں بھی سیز فائر کی حمایت نہیں کی تھی۔مگر اس کی بھاری قیمت اسرائیل اور اس کے کی عوام کو معیشت کی شدید گراوٹ کی صورت برداشت کرنا پڑ رہی ہے۔ اسرائیل ،میں کاروبار اور سروسز کے شعبے کو مندی کا سامنا ہے۔اسرائیلی جی ڈی پی میں دو برسوں کے دوران پہلی بار سہ ماہی بنیادوں پر گراوٹ ہے۔ گزشتہ روز جاری کردہ اعداود شمار کے مطابق سالانہ جی ڈی پی کے حوالے سے آخری سہ ماہی میں 19 اعشاریہ 4 فیصد مندی دیکھی گئی ہے۔ بلوم برگ کے سروے کے مطابق ماہرین کے تجزیے سے زیادہ بری صورت حال ہے۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں اوسطا کمی کا اندازہ 10اعشاریہ 5 فیصد کا تھا۔اسی طرح جاری کردہ رپورٹ میں دکھایا گیا ہے کہ اسرائیلی کرنسی بھی ڈالر کے مقابلے میں کمزور ہوئی ہے۔ البتہ تل ابیب سٹاک ایکسچینج 35 انڈکس میں اضافہ ہوا ہے مگر یہ اضافہ صرف 0،4 فیصد ہی رہا ہے۔ غزہ میں جاری جنگ کے دوران پہلے تین ماہ کے اندر ہی جنگ نے اسرائیلی معاشی رفتار کو توڑ دیا تھا مگر پھر مجموعی طور پر پچھلے سال کے جی ڈی پی میں دو فیصد اضافہ تھا۔اب 2024 میں اسرائیل کے مرکزی بنک ا تخمینہ ہے کہ ترقی کا تخمینہ دو فیص کے برابر ہو گا لیکن اسرائیلی وزارت خزانہ صرف 1،6 فیصد ترقی کا تخمینہ لگا رہی ہے۔ یہ تخمینہ اسرائیلی معیشت پر جاری جنگ کے اثرات کے حوالے سے پہلی بارلگایا گیا ہے۔ جو کہ سات اکتوبر سے شروع جنگ باعث 520 ارب ڈالر تک معیشت کو کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ جنگ کی وجہ سے فلسطینی علاقوں میں معاشی جھٹکے کہیں زیادہ تباہ کن رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں غزہ میں انسانی بحران کا سامنا ہے۔آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ اس نے بحیرہ روم کے جڑے اس ملک میں پچھلے سال کے چوتھی سہ ماہی کے دوران معاشی سرگرمیوں کوتقریبا مکمل طور پر ختم دیکھا ہے
۔اس وجہ سے گزہ اور مغربی کنارے میں جی ڈی پی 6 فیصد تک نیچے چلا گیا ہے۔تاہم اسرائیل نے مارکیٹ کو جنگی اثرات سے بچائے رکھنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کیے ہیں۔ اسرائیل کے مرکزی بنک نے 30 ارب ڈالر کی رقم اپنے زرمبادلہ کے ذخائر میں سے دی ہے تاکہ اسرائیلی کرنسی کو گرنے سے روکا جا سکے۔ تاہم اسرائیل کی طرف سے رفح میں زمینی حملے کو پھیلانے اور لبنان کے ساتھ سرحد پر جنگی اضافے سے اسرائیلی معیشت کے لیے مزید خطرات موجود ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button