کالم

تدبر و تفکر

پوری قوم ابھی انتخابات کے مابعد گھمبیر تنازعات کے سمندر میں غرقاب تھی کہ ایک اور انتہائی حساس مذہبی معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلہ مصدرہ 04-02-2024مقدمہ مبارک احمد ثانی بنام ریاست نے خطرناک صورت حال پیدا کر دی ہے۔ سونے پہ سہاگہ من چاہی تعبیر و تشریح و مبالغہ آرائی سے عام شہری کے دل و دماغ کومنفی رجحانات سے متاثر کرنے کاعمل جاری ہے۔ فیصلہ کا دفاع کرنے والے بھی اصل سہو وغلطی کو دانستہ یا نادانستہ واضح کرنے اور درست کرنے کی طرف متوجہ نہیں ہو رہے جبکہ ناقدین فیصلہ بھی اصل نوعیت سے ہٹ کر اپنی من پسند تعبیر کر کے ایک ہیجانی کیفیت پیدا کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں یہ درست طرز عمل نہ ہے۔ ناقدین کا یہ کہنا کہ سپریم کورٹ نے تعزیرات پاکستان کی دفعات 295-Cاور 298-Cکو حذف کرنے کا حکم دیا ہے ۔ فیصلہ کے مندرجات کی روشنی میں درست نہ ہے ۔قانونی دفعات کو بحثیت قانون حذف کرنے کا حکم ایک قطعاً مختلف معاملہ ہے اور کسی خاص معاملہ میں واقعات کی روشنی میں قانونی دفعات کا ناقابل اطلاق قرار دینا بالکل مختلف معاملہ ہے۔ کسی خاص مقدمہ میں خاص حالات کے پیش نظر قانونی دفعات کو ناقابل اطلاق قرار دینے سے یہ قانونی دفعات قانون سے حذف نہیں ہوتیںبلکہ قانون کا حصہ اور قابل نفاذ ہوتی ہیں۔ اسی طرح فیصلہ میں آئینی دفعات، مذہبی آزادی، شخصی آزادی اور اسی حوالہ سے قرآنی اور دینی حوالہ جات کا اطلاق مختلف ادیان ومذاہب کے پیروکاروں کے حوالہ سے تو درست ہے مگران کا اطلاق فتنہ ”قادیانیت” یا (احمدی و لاہوری)پر قطعی نہ ہوتا ہے بلکہ ایسا اطلاق آئین اور تمام مذاہب کی سنگین خلاف ورزی اور پوری انسانیت کو خطرناک صورتحال سے دوچار کرنے کے مترادف ہے۔ میری ذاتی رائے میں فاضل سپریم کورٹ پاکستان کے فیصلہ میں معاملہ زیر تصفیہ کی روشنی میں آئینی و دینی اصولوں کی تشریح و تعبیر کی قطعاًضرورت نہ تھی۔ معاملہ ضمانت کا تھاعدالت کو ضمانت کے مسلمہ وضع شدہ اصولوں کے مدنظرضمانت منظور کرنے یا رد کرنے کا حکم صادر کرنا چاہیے تھا۔ بظاہر جو مخصوص واقعات و حالات صفحہ مثل پر لائے گئے ہیں اگر وہ درست ہیں تو ضمانت کی منظوری درست ہے۔ سارے قضیے میں بڑی بنیادی بات جو نظر انداز ہو رہی ہے وہ فتنہ” قادیانیت” اور مذہب کا فرق ہے بلاشبہ ہمارے دین، قرآن اور آئین و قوانین کے تحت مذہبی معاملات میں کوئی جبر نہ ہے۔ ہر ایک کو اپنے پسند سے مذہب اختیار کرنے اس کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہے (ماسوائے ارتداد کے)۔ اس وقت دنیا میں مسلمہ بڑے مذاہب اسلام ، عیسائیت ، یہودیت، ہندو مذہب، سکھ،بدھا وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ ہر ایک مذہب کی اپنی اپنی خصوصیات و تعلیمات ہیں۔ کسی ایک نے دوسرے مذہب میں اس کے نام سے منسوب ہو کر اس مذہب کے صریحاً خلاف و متضاد تشریح و تعبیر کر کے نقب زنی نہ کی ہے۔ اس طرح ان مذاہب یا دیگر مذاہب کے پیروکاروںکو آئینی تحفظ و حقوق حاصل ہیں ۔ اس کے برعکس ”قادیانیت” صریحاً فتنہ ،فساد، مجرمانہ عمل ایک مسلمہ سب سے بڑے دین/مذہب اسلام میںنقب زنی، تحریف، مداخلت، تلبیس و تخریب کا عمل ہے جسے دنیا کے کسی قانونی ، اخلاقی یا دینی و انسانی اقدارکے تحت ایک جائز عمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔کیا دنیا یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہے کہ ایک گروہ اپنے آپ کوئی مذہبی نام دیکر عیسائیت کی بنیادی تعلیمات ونظریات کو بگاڑ دے، تخریب کرے، تحریف کرے، بائبل کی من چاہی تشریح کرے۔ عیسائیت عقائد کے خلاف ، عیسائیت کے نام اور بائبل کے نام پر متضاد عقائد کا پرچار کرے۔ اسی طرح کوئی ایک گروہ یہودیت ، ہندوازم، سکھ یا دوسرے مذاہب کا نام استعمال کر کے ان مذاہب میں فتنہ اندوزی، تخریب ، تحریف و نقب زنی کرے تو اسے دنیا کے ان مذاہب کے پیروکار آئینی تحفظ سمجھ کر قبول کر لیں گے۔ میرے خیال میں کوئی بھی ذی شعور اس عمل کو کبھی بھی جائز قرار نہیں دے سکتا اور نہ ہی ایسے عمل کو کسی مذہب کا نام دیاجا سکتا ہے۔ مذاہب کے نظریاتی اختلافات اپنی جگہ مگر تمام مذاہب کی اچھا ئیاں، انسانی و اخلاقی اقدار کے تحفظ ایسے مشترکات ہیںجن میں کسی نہ کسی پہلو سے کوئی بہتری ہے، فلاح ہے۔ جبکہ” قادیانیت ”کا فتنہ کسی بھی لحاظ سے مذہب یا دین کی تعریف میں نہ آتا ہے بلکہ یہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ایک مخصوص گروہی مجرمانہ طرز عمل کا نام ہے جسے بنیاد بنا کر دین اسلام میں نقب زنی کر کے اسکی تعلیمات ، نظریات، عقائد و اساسی بنیادوں کو تحریف و تخریب کر کے بگاڑا جائے۔ اس لئے یہ طرز عمل نہ قانونی ہے ، نہ اخلاقی اور نہ انسانی۔ ایسے مجرمانہ عمل کو کوئی انسانی معاشرہ و قانون جائز تسلم نہیں کر سکتابلکہ تمام قوانین ایسے مجرمانہ عمل کے تدارک کا اختیار دیتے ہیںتا کہ انسانیت کا تحفظ، مذاہب کا تحفظ اورمذہبی آزادی کو فروغ ملے۔ اگر ایسے فتنوں کا تدارک نہ کیا گیا تو نہ صرف اسلام بلکہ دیگر مذاہب میں نقب زنی ، تخریب و تحریف کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے جو یقینا انسانیت اور امن عالم کے لئے خطرناک نتائج کا سبب بن سکتی ہے ۔اس بات کو ذرا عام فہم زندگی کے معاملات کی مثال سے واضح کرتا چلوں ” ہر ایک کو حق حاصل ہے کہ اپنی جگہ پر اپنی پسند سے مکان بنائے ، اس کا نقشہ و دیگر تفصیلات طے کرے۔ مگر کسی دوسرے کو یہ حق نہ ہے کہ اس مکان پر اپنی ملکیت کا دعویدار ہو کر اس کی ہیت و نقشہ کو تبدیل کرنے کے حقوق حاصل ہونے کا دعویدار کہ اسے آئین میں مندرج حاصل بنیادی حقوق کے تحت ایسا حق حاصل ہے اور اسے اس کا تحفظ حاصل ہے۔ اس طرز عمل کو مجرمانہ مداخلت بے جا قرار دے کرایسے دعویدار کو سزاتو دی جا سکتی ہے تحفظ نہیں۔فتنہ” قادیانیت” کی نوعیت ہی یہی ہے کہ اسلام کی عمارت پر ان کے ناجائز قبضہ و مداخلت کو تسلیم کر کے ان کو تخریب و تحریف کی نہ صرف کھلی چھٹی ہو بلکہ آئینی و قانونی تحفظ بھی حاصل ہو ۔ ہر طرح کے تعصب و نظریات و مذاہب سے بالاتر ہو کرسوچیئے ایسا کسی قانون اخلاق یا عقل انسانی کے تحت ممکن ہے، ہر گز نہیں۔ بلا شبہ بہت سے بنیادی حقوق کو آئین تحفظ حاصل ہے مگر ان کے لئے قانونی ، اخلاقی اقدار کی حدودوقیودکو ملحوظ رکھنا بھی لازم ہے نہ کہ ان مادر پدر آزادی کے ساتھ معاشرتی، اخلاقی و انسانی اقدار کو پامال کرتے ہوئے ان حقوق پر عمل پیراہوا جائے ۔ قادیانی (احمدی یا لاہوری) فتنہ کو آئین یا قرآنی احکامات کے تحت مذہبی آزادی کے نام پر تحفظ دیناایسے ہی ہے کہ چور ، ڈاکو ناجائز قابض کو چوری شدہ ، ڈاکہ شدہ مال کا جائز مالک قرار دیا جائے کیونکہ ہر ایک کو جائیداد رکھنے کا آئینی حق ہے جبکہ یہ حق اسے اپنی جائز جائیداد کے لئے ہے نہ کہ چوری ، ڈاکہ اور غضب شدہ مال پر حق۔ جس طرح دوسرے کا مال و جائیداد پر ناجائز طریقہ سے حق ملکیت کو بنیادی حقوْق کی آڑ میں تحفظ نہیں دیا جاسکتااسی طرح ”قادیانیت” کو بھی اسلام میں نقب ، تحریف، تخریب و تلبیس کے ذریعے مذہبی آزادی کی آڑ میںتحفظ دیناآئین اور دین کی خلاف ورزی ہے۔ بہت ہی عام فہم اور سادہ سی بات ہے کہ ”قادیانیت” ایک فتنہ، فساد فی الارض، مجرمانہ مداخلت ، تخریب، تحریف اور دینی اور اخلاقی اقدار کو منہدم کرنے کا نام ہے جس کو کسی طور پر کسی بھی طرح کسی مذہب تو درکنارایک جائز قانونی گروہ، جماعت بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا ہے ۔اس لئے مذہب اور فتنہ و فساد میں تمیز لازم ہے۔اس پس منظر میں سپریم کورٹ پاکستان کے فیصلہ قادیانیت کی نسبت سے قرآنی و آئینی دفعات کا حوالہ و اطلاق قطعی درست نہ ہے
۔ اس کی سپریم کورٹ کو وضاحت اور درستی کرنی چاہیے۔ قرآنی اور آئینی حوالہ جات کا اطلاق ان تمام مذاہب کے پیروکاروں کے حوالہ سے درست ہے جو مذاہب کے پیروکار ہیں۔ سپریم کورٹ کو بلکہ یہ وضاحت بھی کرنی چاہیے کہ قرآنی اورآئینی حوالہ جات کی روشنی میں ”قادیانیت” طرز کے فتنہ کی بناء پر نہ صرف اسلام بلکہ کسی بھی دیگر مذہب میں مجرمانہ مداخلت ، تخریب و تحریف کی اجازت نہیں دی جاسکتی بلکہ تمام دنیا کے مذاہب عالم کو اس طرز کے فتنہ سے بچانے کے لئے مشترکہ حکمت عملی و قانون سازی کرنی چاہیے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button