صوبہ پنجاب میں پتنگ بازی کے جان لیوا کھیل پر دفعہ 144 کا نفاذ کر کے پابندی لگی ہوئی ہے۔نوٹیفکیشن کے مطابق کیمیکل، دھاتی اور مانجھے والی ڈور کے استعمال پر مکمل پابندی ہے۔یعنی انسانی جان کے لیے نقصان دہ پتنگ اڑانے والی ہر چیز پر پابندی ہو گی۔ پتنگیں بنانے، بیچنے اور رکھنے پر پابندی عائد ہو گی۔ پتنگ بازی ایک سستی اور ہر دلعزیز تفریح سے خونیں کھیل تک کیسے پہنچا؟ آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔پتنگ کی ایجاد کا سہرا دو قومیں چینی اور مصری لیتی ہیں۔ چینیوں کا دعویٰ ہے کہ پہلی پتنگ 400 سال قبل مسیح میں چین میں بنائی اور اڑائی گئی۔ شاہی خاندان نے باقاعدہ اس فن کی حوصلہ افزائی کی اور پتنگ سازوں کو شاہی دربار میں عہدوں سے نوازا گیا۔ مصریوں کا دعویٰ ہے کہ پتنگ سازی فراعین کے دور میں موجود تھی۔ ثبوت کے طور پر وہ اہراموں سے ملنے والی تصاویر پیش کرتے ہیں جن میں فرعون کو پتنگ اڑاتے دکھایا گیا ہے۔ مصر میں چونکہ پتنگ بازی صرف شاہی خاندان تک محدود تھی اس لیے اسے شاہی کھیل ہی سمجھا جاتا تھا۔ عام آدمی کو یہ کھیل کھیلنے کی اجازت نہ تھی۔ وہاں یہ کھیل کھل کر سامنے نہ آ سکا جبکہ چین میں بادشاہوں نے اسے عام کر دیا اور اس طرح یہ کھیل چینیوں کی ایجاد سمجھا جانے لگا۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ پتنگ بازی کا کھیل چین ہی سے برصغیر اور پھر یورپ میں پہنچا۔ پہلی مرتبہ بدھ بھکشو ہندوستان میں پتنگ لے کر آئے، یہاں کے باشندوں کے لیے یہ ایک بالکل نئی اور حیران کن چیز تھی۔ یہ ہندوستان میں بہت تیزی سے رائج اور مقبول ہوئی۔ مقامی راجوں اور مہاراجوں نے بھی اس کی بھرپور سرپرستی کی۔ اپنی نگرانی میں پتنگیں تیار کروا کر پتنگ بازی کے مقابلے کروائے اور عام لوگوں کو یہ مقابلے دیکھنے کی دعوت دی۔آغاز میں پتنگیں ہر موسم میں اڑائی جاتی تھیں۔ پھر تجربے سے ثابت ہوا کہ یہ ایک موسمی کھیل ہے۔ موسمِ سرما میں ہوا کی کمی، برسات کے موسم میں ہوا میں نمی اور موسمِ گرما میں شدید دھوپ، آندھی اور طوفان کے باعث یہ کھیل ممکن نہیں۔ اس کے لیے مناسب ترین موسم بہار ہی ہے جب ہر لحاظ سے پتنگ بازی کے لیے فضا اور حالات سازگار ہوتے ہیں۔ یہ کھیل کھیلنے والے موسم کی شدت سے خود بھی محفوظ رہتے ہیں چنانچہ پتنگ بازی بھی موسمِ بہار میں شروع ہو گئی۔ ادھر بسنت بھی موسمِ بہار میں ہی منائی جاتی تھی جب چاروں طرف سرسوں پھولی ہوتی تھی ہر طرف ہری بھری فصلیں اور پیلی سرسوں ماحول کو مسحور کن بنا دیتی تھیں۔ بسنت کا تہوار موسمِ سرما کے اختتام اور موسمِ بہار کی آمد کا اعلان ہوتا ہے جب گرم لحافوں کو اتار کر ہلکی پھلکی رضائی کا استعمال شروع ہو جاتا ہے۔ مویشی رات کے وقت باہر بندھنے شروع ہو جاتے ہیں۔ موسم معتدل ہوتا ہے، نہ زیادہ سرد اور نہ ہی گرم۔ اس کے لیے پنجابی کی ایک ضرب المثل بھی بولی جاتی ہے
”بسنت، پالا اڑنت”
یعنی بسنت آئی اور سردی غائب ہو گئی۔
ایک ہی موسم ہونے کے باعث بسنت اور پتنگ بازی اس طرح ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہوتے چلے گئے کہ بسنت کا نام آتے ہی پتنگ بازی ذہن میں آ جاتی۔ بسنت کے معاملے میں مشہور صوفی بزرگ شاہ حسین کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ شاہ حسین ایک ہندو لڑکے مادھو لعل کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ مادھو لعل کو پتنگیں اڑانے کا بہت شوق تھا۔ شاہ حسین اس کا شوق پورا کرنے کا اہتمام کرتے تھے۔ شاہ حسین کے انتقال کے بعد ان کے مزار پر دو تہوار منائے جانے لگے۔ ایک کو میلہ چراغاں کا نام دیا گیا اور دوسرے کو بسنت کہا گیا۔ میلہ چراغاں میں مزار اور اس کے اردگرد چراغ جلائے جاتے۔ بسنت کے دن ڈھول بجائے جاتے اور پتنگیں اڑائی جاتی تھیں۔ یہ تہوار پہلے پہل مادھو لعل حسین کے مزار اور میلے تک ہی محدود تھا۔ پھر اس کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا اور یہ لاہور سے نکل کر دیگر شہروں میں بھی پھیل گیا۔ قصور شہر میں بسنت کا تہوار بہت بڑا فیسٹیول بن گیا تھا جہاں ہر سال 19 فروری کو بسنت بڑے تزک و احتشام سے منائی جاتی۔ اس کے بعد پنجاب کے ہر بڑے چھوٹے شہر اور قصبے میں پھیل کر بسنت نے قومی تہوار کی شکل اختیار کر لی۔ البتہ ہر شہر میں بسنت الگ الگ تاریخوں میں منائی جاتی۔ دن کے علاوہ رات کے وقت بیم لائٹوں کی مدد سے فضا بقعہ نور بنی ہوتی۔ اونچی آواز سے موسیقی کے سُر بکھرے ہوتے۔ نوجوان، بوڑھے، بچے، مرد و خواتین سبھی بسنت کے موقع پر پتنگ بازی کے کھیل میں دلچسپی سے حصہ لیتے۔ جونہی کوئی پتنگ کٹتی فضا بو کاٹا کے فلک شگاف شور سے بھر جاتی، ڈھول کی تھاپ پر رقص کر کے خوشی کا اظہار کیا جاتا۔ بسنت کے موقع پر خصوصی پکوان پکائے جاتے۔ ایک طرح سے اس تہوار کے ذریعے زندگی کی تلخیوں اور مصائب کا کتھارسس ہو جاتا تھا۔ ہر طرف رنگ و نور اور خوشبوئیں بکھیر کر ان میں سے خوشیاں کشید کی جاتی تھیں۔
ہمارے عمومی رویّوں نے اس کھیل کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سپورٹسمین سپرٹ کی جگہ انا، ضد اور تکبر نے لے لی۔ اپنی پتنگ کٹوانا سبکی اور توہین سمجھا جانے لگا۔ پتنگ بازی میں مہارت کی جگہ ناجائز ذرائع کا استعمال کر کے جیت ہی کو سب کچھ سمجھا جانے لگا۔ پہلے پہل پتنگ اڑانے والی ڈور پر سریش اور کانچ کی تہہ چڑھا کر اسے تیز کیے جانے سے اس کا آغاز ہوا۔ اسے مانجھا لگانا کہتے تھے۔ یہ ڈور تلوار کی طرح تیز ہوتی تھی
۔ ہاتھوں اور گردن کو زخمی کر دیتی تھی مگر بہر حال پیچ لڑاتے وقت کٹ بھی جاتی تھی۔ انا کی مکمل طور پر تسکین نہ ہوتی تھی چنانچہ مانجھے والی ڈور کی جگہ دھاتی ڈور نے لے لی اور یوں ایک تفریحی کھیل خونیں کھیل میں تبدیل ہو گیا۔ دھاتی ڈور بجلی کی تاروں سے ٹکرا کر نہ صرف الیکٹرک شاک کا باعث بننے لگی بلکہ بجلی کے بریک ڈائون کا سبب بھی بننے لگی۔ ٹرانسفارمر جلنے لگے۔ دھاتی ڈور نے قاتل ڈور کا روپ اختیار کر لیا۔ راہ گیروں خصوصاً موٹر سائیکل سواروں کے گلے کٹنے لگے اور مجبوراً حکومت کو پتنگ بازی پر پابندی لگانی پڑی۔
اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ پنجاب کی حکومت نے صوبے بھر میں پتنگ بازی پر پابندی لگا دی ہے۔ تاہم ہمیشہ کی طرح اس پابندی پر سو فیصد عمل ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس پر موثر اور ٹھوس قانون سازی کی ضرورت ہے۔ پتنگ بازوں کے ساتھ ساتھ دھاتی ڈور بنانے والوں کے لیے بھی سخت ترین سزائوں کا نفاذ از حد ضروری ہے۔ یہ ظالم پتنگ باز چند گھنٹوں کے کھیل سے لطف اندوز ہونے کے لیے اور ڈور ساز اپنی کمائی کی خاطر قیمتی جانوں سے کھیل رہے ہیں۔ انہیں کڑی سے کڑی سزا دینا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شہروں کے پارکوں اور باغات میں ڈور اور پتنگ چیک کرنے کے بعد پتنگ بازی کی اجازت دے کر اس سستے تفریحی کھیل کو مرنے سے بچانے کے اقدامات کرنے بھی ضروری ہیں۔
0 40 5 minutes read