کالم

راجہ آصف علی—–غربی باغ کا سیاسی خلائ

قارئین! راجہ آصف علی خان کی وفات سے جو خلاء غربی باغ کی سیاست میں پیدا ہوا اسے تما م احباب بخوبی واقف ہیں۔ وہ ایک مضبوط اعصاب کے اور نڈر ،باصلاحیت اور بہترین سیاستدان تھے۔انہوں نے نصف صدی تک غربی باغ میں ایک جاندار اپوذیشن کی اور مسلم کانفرنس کے لئے ہر جگہ ایک بھاری پتھر ثابت ہوئے۔ لیکن اس کے باوجود ان کا نماز جنازہ جو جہالہ کے مقام پر ادا کیا گیا اس کی امامت سردار عتیق احمد خان نے خود کروا کر روایتی سیاست کو فروغ دیا۔ اس کے علاوہ سردار عتیق احمد خان ان کے آبائی گائوں ہوڑوٹ میں کافی مرتبہ تعزیت کے لئے بھی گئے۔ اس سے اپر بلٹ کے بڑے قبیلے یعنی راجپوتوں کو حوصلہ دینا اور راجہ آصف کے قریبی لواحقین راجہ توصیف آصف اور فہیم فاروق کو بھی ہمت اور حوصلے کی تلقین کرتے رہے۔ ان کے جانشین راجہ توصیف آصف بلا شبہ نئے زمانے کی نئی سیاسی چالوں سے نہ صرف آشنا ہیں بلکہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ایک مدبر شخصیت کے مالک ہیں۔ اگر انہوں نے اپنے باپ کے نقش قدم پر چل کر سارے لوگوں کو Accomodateکرنے کی کوشش کی تو ان کے لئے ان کے والد نے پہلے سے ہی سیاسی اکھاڑہ تیار کر رکھا ہے،لیکن شرط اس بات کی ہے کہ توصیف آصف کس حد تک اپنے والد کی پیروی کرتے ہیں۔
قارئین محترم! گزشتہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جب چوہدری مجید وزیر اعظم تھے توکفر ٹوٹا خدا خداکر کہ اور بالآخر پیپلز پارٹی کے دیرینہ وفادا رکارکن کو نصف صدی کی اپوذیشن کا صلہ بطور مشیر حکومت تعینات کر کے دیا گیا۔گزشتہ اداریے میں تحریر کیا تھا کہ راجہ آصف علی پاکستان پیپلز پارٹی کے کمٹڈ کارکن تھے۔دختر مشرق محترمہ بینظیر سے ان کے ذاتی تعلقات تھے۔سیاسی نشیب و فراز کی وجہ سے ان پر برا وقت بھی آیا۔ لیکن اس شخص نے کمال بہادری سے پارٹی کے ساتھ وفاداری نبھائی۔میںنے جب گزشتہ دنوں ان کا حلف کینسل ہوا تو ان سے وجہ بھی پوچھی اور سچی بات ہے ایسے آدمی کے حلف کا کینسل ہونا جو کہ جماعت کی وفاداری میں شک و شبہ سے بالا ہو ہر انسان کو دکھ ہوتا ہے۔لیکن اس وقت بھی اس نوجوان کا جواب یہی تھا کہ پارٹی جو فیصلہ کرتی ہے وہ جماعت کے مفاد میں ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے نزدیک میرا مشیر بننا اہم نہیں بلکہ پارٹی کا فائدہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ راجہ صاحب کے اندر بے تحاشہ صلاحیتیں موجود ہیں۔ بلا کا مقرر۔ذہین۔معاملہ فہم۔ یہ سب خوبیاں راجہ صاحب کا خاصہ تھی۔صبر و استقامت کا دامن انہوں نے کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔پارٹی فیصلوں کی تائید میں ہمیشہ وہ صف اول میں پائے گئے۔ وزیر اعظم چاہے ممتاز حسین راٹھور ہوں،غازی ملت ہوں،صاحبزادہ اسحٰق ظفر ہوں،بیرسٹر ہوں یا چوہدری مجید ہوں آصف علیخان نے کبھی جماعت کے اندر گروپ بندی کو پنپنے نہیں دیا۔ نجی محفلوں میں بھی وہ جماعتی وفا داری کا درس دیتے نظر آتے ہیں اور کارکنوں کو ذوالفقار علی بھٹو شہید کے مشن کی تکمیل کا مشورہ دیتے رہتے ہیں۔غربی باغ کے عوام کے لئے یہ اعزاز کی بات تھی کہ ایک متحرک سیاسی کارکن نے اپنے سیاسی کردار اور استقامت سے فلیگ حاصل کیا ۔غربی کے عوام کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ ان کے پاس راجہّ آصف علی خان جیسے سیاستدان موجود رہے ہیں،راجہ آصف پیپلز پارٹی میں ہونے کہ باوجود مجاہد اول کے ساتھی اور سابق ایم ایل اے غربی باغ راجہ محمد آزاد خان کو اپنا سیاسی مرشد مانتے تھے۔ راجہ آصف علی کی وفات سے حلقہ فی الحال لا وارث ہو چکا تھا۔ لیکن گزشتہ الیکشنز میں راجہ محمد آزاد خان کے فرزند راجہ فیصل آزاد نے ن لیگ کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لے کر کسی حد تک راجہ آصف علی خان کی طرز پر اپوذیشن کی نئی بنیاد ڈالی ۔ان کے تدبر نے عوام اور ایل اے 14کی لاج رکھ لی۔ خدا انہیں عوام کے مزید نزدیک لائے۔ راجہ آصف علی صاحب کے کندھوں پر جماعت نے اعتماد کر کے آخری عمر میں بہت بھاری بوجھ رکھ دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ تھاکہ کیا وہ پہلے کی طرح عوام سے گھل مل کر ان کے مسائل حل کریں گے یا دوسروں کی طرح اقتدار کے نشے میں وہ بھی نصف صدی سے پسی ہوئی قوم کی چٹنی بنا ڈالیں گے۔ اس بات کا یقین کیا جا سکتا تھاکہ راجہ آصف علی چونکہ عوام کے اندر رہنے والے سیاسی لیڈر ہیں انہیں عوام کے مسائل سے بھی یقینی طور پر آگاہی تھی۔ ہم تو اس وقت اللہ پاک سے یہی دعا کر سکتے تھے کہ وہ انہیں سیاسی میدان کا شہسوار بنائے اور مزید کئی جھنڈیاں ان کے مقدر میں لکھ ڈالے۔ اور ساتھ ساتھ یہ بھی دعا ہے کہ اللہ ان کی گردن میں دوسرے ارباب اختیار کی طرح سریا نہ ڈالے بلکہ اللہ انہیں توفیق دے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر غربی باغ کے عوام کے مسائل کو بھر پور انداز میں اجاگر کریں۔لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا ،وہ یوں ہوا کہ راجہ آصف عارضہ ء دل میں مبتلا ہو گئے،اور ان کے کامیاب آپریشن کے باوجود وہ جانبر نہ ہو سکے اور اپنی جان اللہ کے حضور پیش کر دی۔ماضی میںذاتی ملاقاتوں میں ،میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ خدا نے اس شخص کے مقدر میں سیاسی بالا دستی لازمی رکھی ہے۔ کیوں کہ بچوں کے ساتھ یہ بچے اور سیاسی میدان میں دختر مشرق تک ان کی رسائی تھی۔راجہ صاحب کی دیگر خصوصیات کے علاوہ یہ بات ان میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے کہ وہ کسی قسم کے برادری ازم سے بالکل پاک و صا ف ہیں۔ دہیرکوٹ میں دو بڑے قبائل آباد ہیں ان دونوں قبائل یعنی راجپوت اور عباسی قبائل میں مبشر اعجاز یکساں مقبولیت رکھتے ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ کئی سو دفع کی محفل میں بھی اس شخص نے کبھی برادری ازم کی بات نہیں کی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آصف علی خان واقعی عوامی نما ئندگی کے ساتھ ساتھ وسیع القلب اور کھلے ذہن کے مالک ہیں۔اس وقت بھی راجہ آصف علی خان کو مبشراعجازکی حمایت کی شدید ضرورت تھی۔کیوں کہ راجہ مبشر اعجاز کی عوام میں مقبولیت کوئی مانے یا نہ مانے ہے۔راجہ مبشرکو چاہئے تھاکہ وہ بحیثیت سینئر سیاستدان اور چھوٹے بھائی ہونے کے ناطے راجہ آصف کے ہاتھ مضبوط کرتے۔ اللہ کے کرم سے نوجوانوں کی ایک بڑی ٹیم ان کے ساتھ تھی۔ دہیرکوٹ کی حد تک چاچا قیوم اور راجہ خاور کا فرض بنتا تھا کہ وہ اس شخص کے دست و بازو بنیں۔ کیوں کہ دہیرکوٹ کی سیاست میں سے راجہ آصف مبشر اعجاز اور چاچا قیوم کو کبھی بھی مائینس نہیں کیا جا سکتا۔رنگلہ سے خالد اشرف مرحوم کی فیملی کا ان کے ساتھ ہونا اشد ضروری تھا۔ خاص طور پر راجہ پرویز اشرف،راجہ افتخار افضل اور فیصل خالدکی حمایت راجہ آصف کو ہر قیمت پر حاصل کرنا تھی۔لیکن سامان سو برس کا اور خبر پل بھر کی نہ ہونے کی وجہ سے راجہ آصف علی کی نصف صدی کی محنت سے بچھائی گئی بساط فرشتہ ء اجل نے ایک لمحے میں الٹ دی ،اوراس وقت ارجہ و گرد و نواح سے نوجوان پہلے ہی ان کے ساتھ تھے۔ یونین کونسل ملوٹ اور یونین کونسل رنگلہ سے راجہ آصف صاحب کو انتہائی محنت کرنا پڑی ۔ کیونکہ ان یونین کونسلز کے ووٹرز کی تعداد کافی ہے۔ اس کے علاوہ انہیں حسب سابق برادری ازم کی لعنت سے بچنا ہو گا۔ اگر آپ کو راجہ آصف علی خان کی سابقہ سیاسی زندگی کے متعلق کوئی سوال کرنا ہے یا کالم کے بارے میں تحفظات ہیں تو آپ ایدیٹر صاحب سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ کالم کی وساطت سے میں پھر چھوٹاعزیزہونے کی حیثیت سے راجہ آصف علی خان کیااعلیٰ علیین میں پہنچنے کے لئے دعا گو ہوں۔ یقین جانئے جب راجہ آصف علی کو مشیر بنایا گیا تو غریبوں کے خون میں سیروں کے حساب سے اضافہ ہوا ہے
۔اب راجہ توصیف آصف سے امید واثق کی جاتی ہے کہ آپ بھی اپنے والد گرامی ، مجاہد اول اور سردار عتیق کے نقش قدم پر چل کر بیشک وہ آپ کی جماعت کے نہیں لیکن انہوں نے غربی کے عوام کو بھلایا نہیں آپ بھی ایک مثالی لیڈر ثابت ہوں گے۔ انشاء اللہ۔ خدا آپ کا حامی و ناصر ہو۔
قارئین! سیاست سے قطع نظر راجہ آصف ایک کردار تھا،ایک مثالی سیاستدان تھا،غریب تھا اور غریب پرور بھی تھا۔اللہ سے دعا ہے کہ ان کے لواحقین کو اللہ اتنی توفیق عطا کرے کے وہ راجہ آصف کے نعم البدل بن سکیں۔آمین۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button