کالم

حضرتِ اقبال اور دور حاضر

مفکراسلام،شاعرانقلاب،حکیم الامت ،پروفیسر ،ڈاکٹر محمد اقبال نو نومبر اٹھارہ صد ستہتر کو سیالکوٹ میں تولد پذیر ہوئے۔والد کا نام شیخ نور محمد تھا۔ان کا خاندان ہندوئوں کے ظلم کی وجہ سے جنگ آزادی کے بعد سیالکوٹ منتقل ہو گیا تھا۔ان کے والد اقبال کو دینی تعلیم تک محدود رکھنا چاہتے تھے مگر مولوی سید میر حسن نے اس بچے کی غیر معمولی ذہانت کو بھانپتے ہوئے انہیں اپنے مدرسے میں لے گئے جہاںعربی و فارسی کی اعلیٰ تعلیم دی جاتی تھی۔یہاں سے ہی اقبال سکاٹ مشن ہائی سکول میں داخل ہوئے اور اسی کالج سے ١٨٩٥ء میں ایف ۔اے کا امتحان پاس کیا۔انٹر کرنے کے بعد اقبال لاہور آئے اور گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا۔یہاں سے اقبال کے مقدر کا اقبال بلند سے بلند ہونا شروع ہو گیا۔ انہوں نے یہیں سے ابتدائی شاعری میں نام کمایا۔اسی کالج میں انہوں نے دو میڈلز جیتے۔اور رسالہ مخزن اور پیسہ کے ساتھ منسلک رہے۔اٹھارہ صد ننانوے میں آپ نے ایم ۔اے فلسفہ میں اول پوزیشن حاصل کی۔اور اسی کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر برا جمان ہوئے۔اقبال نے سالانہ جلسہ انجمن حمایت اسلام میں نظم،، نالہ یتیم،، پڑھ کر بڑے بڑے شعراء کو انگشت بدنداں کر دیا۔اس وقت بازار حکیماں میں مجلس شعراء منعقد ہوا کرتی تھی جس میں اقبال شرکت کیا کرتے تھے۔چوہدری شہاب الدین اور شیخ عبدالقادر جیسے عظیم شعراء کی تلمذی کا سہرا اقبال کے سر جاتا ہے۔اقبال شیخ عبدالقادر سے بہت متأثر تھے۔انیس صد پانچ سے انیس صد آٹھ تک اقبال یورپ میں اعلیٰ تعلیم کی غرض سے رہے۔وہاں انہوں نے کیمبرج میں داخلہ لیا۔اپنے استاد محترم مسٹر آرنلڈ کا عقیدت کی حد تک احترام کرتے تھے۔جب اقبال نے مغرب کو قریب سے دیکھا تو اقبال جان گئے کہ یہ اونچی دکان اور پھیکا پکوان ہے۔ وہ مغرب کی تہذیب سے شدید متنفر تھے۔ حالانکہ انہوں نے علم کو مومن کی گم شدہ میراث سمجھ کر مغرب سے بہت فائدہ اٹھایا لیکن وہ آدھے تیتر اور آدھے بٹیر نہیں بنے۔انہوں نے ہمیشہ مغربی تہذیب کو کھوکھلا اور تعفن زدہ کہا۔اقبال قدامت پسند نہ تھے لیکن وہ مغرب سے بھی مرعوب نہ تھے ،وہ ملت اسلامیہ کی اصل بنیادوں کو استوار کرنے کے خواہاں تھے اور اسی جذبے کے تحت وہ اس ملت کی نشاط ثانیہ کا جذبہ لے کر ٢٤ جولائی ١٩٠٨ء کو لاہور آ پہنچے۔اقبال کے ہاں خودی کے جذبے کی فراوانی ہے۔ وہ خودی کو انسانیت کی تکمیل سے تعبیر کرتے ہیں۔ایک فلسفی کی حیثیت سے ان کا مرکزی خیال خودی ہے جس کے ارد گرد باقی زندگی کے تانے بانے ہیں۔ان کے نزدیک خودی کا مطلب غرور نہیں بلکہ معرفت انسانیت ہے۔ اقبال نے شیطانی ان اور خودی کو الگ الگ پیرائوں میں بیان کیا ہے۔وہ انسان کی ساری سر گرمیوں کا محور و مرکز خودی کو گردانتے ہیں۔ان کے نزدیک اگر انسان کو اپنی حقیقت کا ادراک ہو جائے تو وہ زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے بصورت دیگر انسان کی حیثیت ایک بھکاری سے بڑھ کر کچھ نہیں۔اقبال فلسفی بھی تھے،سیاستدان بھی تھے،شاعر بھی تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ سچے مسلمان اور کامل صوفی تھے۔ان کے خیال میں جو نئی تہذیب کا جوار بھاٹا پھیل رہا ہے وہ مسلمانوں کے عظیم ماضی کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ اس لئے ان کے نزدیک اس کا واحد حل یہ تھا کہ وہ اسوہ حسنہ پر عمل کریں اور اللہ کے بتائے ہوئے قانون کو اپنی ذندگیوں کا محور و مرکز بنائیں۔یہی درد اقبال کو ملت کے لئے شعر کہنے پر بھی مجبور کرتا رہا۔اقبال کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ ساکت و جامد زندگی کو پسند نہیں کرت تھے۔ وہ انقلاب کی صداء لگاتے نظر آتے ہیں۔ ایسا انقلاب جو محمد عربیۖ کے بنائے گئے قوانین اور امر ربی کے تابع ہو۔ وہ کسی بھی ازم کو ماننے کے لئے تیار نہیں تھے بلکہ ان کے نزدیک اسلام کی ہمہ گیریت میں زندگی گزارنے کا ہر گوشہ اور ہر پہلو بتفصیل بیان کیا جا چکا ہے۔ وہ اسلامی انقلاب کے داعی تھے۔اقبال صرف گفتار کے غازی نہ تھے بلکہ وہ کردار کے بھی اعلیٰ ترین منصب پر فائز تھے۔ انہون نے مسلمانان ہند کی بہتری کے لئے عملی سیاست میں بھرپور کردار ادا کیا۔ وہ قائد اعظم کو بھ اس سلسلے میں پاکستان کا خوب دیکھ کر مات دے گئے۔ بلا شبہ اقبال قائد کے مقابلے کے سیاستدان تھے۔جب انجمن حمایت اسلام میں اختلافات پیدا ہونا شروع ہوئے تو اقبال ہی وہ شخص تھے جنہوں نے مسلمانوں کی غلط فہمیوں کو دور کر کہ انہیں یکجا رہنے پر مجبور کیا۔اقبال میثاق لکھنئو کے شدید مخالف تھے۔ان کے خیال میں ہندو اکثریت میں ہونے کی وجہ سے اس معاہدے کے تحت مسلمانوں کے حقوق غصب کریں گے۔کانگریس اور مہا سبھا کو وہ اس حد تک غلط سمجھتے تھے کہ جب کوئی ہندو مسلم اتحاد کی بات کرتا تو اقبال کی پیشانی پر تیوریاں ابھر آتی۔ وہ ہندو مسلم اتحاد کے سرے سے مخالف تھے۔قائد اعظم بھی ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے۔ دیگر مسلمان بھی گاندھی جی کی چکنی چپڑی باتوں میں آچکے تھے،لیکن مفکر اسلام کی دور اندیشی نے اس اتحاد کو محض خیالی پلائو سے تشبیہ دی کیونکہ وہ ہندوئوں کی نفسیات سے اچھی طرح واقف تھے۔وہ اس اتحاد کو دیوانے کا خواب کا مجذوب کی بھڑک سے تشبیہ دیتے تھے۔اور وقت نے ثابت کر دکھایا کہ علامہ کی سوچ کے زاویے درست تھے۔انیس صد چھبیس میں وہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔سائمن کمیشن کی آمد پر جب قائد اعظم نے کانگریس کی اقتداء میں کمیشن کا بائیکاٹ کیا تو علامہ نے اس کی مخالفت کی اور وہ پنجاب مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل بن گئے۔آل پارٹیز مسلم کانفرنس میں اقبال کے ساتھ ہندوستان کے سارے منجھے ہوئے لیڈر شامل تھے۔حکیم الامت کا سب سے عظیم کارنامہ ١٩٣٠ء کے مسلم لیگ کے اجلاس میں تصور پاکستان کا تھا۔ جو ان کی سیاسی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔خطبہ الہ آباد میں اقبال نے دو ٹوک موئقف اختیار کرتے ہوئے مسلمانوں کے لئے الگ ملک کا مطالبہ کیا۔ اور یہ بات مسلمانان ہند پر واضح کی کی اگر اب کی بار الگ ریاست نہ حاصل کی گئی تو مسلمان ساری عمر کے لئے غلامی کا طوق گلے میں ڈال کہ پھرتے رہیں گے۔ اقبال کی اس تجویز کو سارے مسلمانوں نے بلا چوں و چراں تسلیم کیا جس کے نتیجے میں ہم آج اللہ کے فضل و کرم سے آزادملک کے شہری ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ بات انگریز اور ہندو کے لئے پریشانی کا باعث نہیں بننی چاہئیے کیونکہ مسلمانوں کا ایک الگ تشخص ہے اور اس تشخص کو قائم رکھنے کے لئے ایک الگ مملکت کا وجود نا گزیر ہے۔اقبال مسلمانوں کی ریاست کو اسلام جمہوریہ بنانا چاہتے تھے۔ وہ شہنشہائیت کے خلاف تھے۔اس تاریخی خطبے میں اقبال نے نہرو رپورٹ کو ہندو رپورٹ کہا۔اقبال کے خطبے کا لب لباب یوں ہے۔،،برصغیر کے مسلمانوں کی قوت کا سرچشمہ اللہ کی ذات ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ مذہب کوئی ذاتی مسئلہ نہیں بلکہ اسلام ایک نظام حیات ہے۔اس لحاظ سے اسلامی ہندوستان کی تشکیل کا مطالبہ مبنی بر حقائق ہے۔بلکہ اصل صورت یہ ہے کہ شمال مغربی مسلمان صوبوں کو ملا کر ایک خود مختار ریاست کی تشکیل دی جائے۔ ہندوستان کے پائیدار مسائل کا صرف یہی واحد حل ہے۔،،

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button