کالم

عقیدہ ختم ِ نبوت ۖ کی آئینی حیثیت

بدقسمتی سے جب سے پاکستان کے آئین میں عقیدہ ختم نبوتۖ کو آئینی شکل حاصل ہوئی ہے اُسی وقت سے کفار و مشرکین نے مختلف حیلوں بہانوں سے اس قانون کے خاتمے و ترمیم کیلئے مختلف طریقوں سے دباؤ کا آغاز کر رکھا ہے۔ کفار نے تو یہی کرنا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور کسی بھی صورت ایسی شخصیات سے کسی قسم کے کوئی مراسم نہ رکھے جائیں جو ختم نبوت ۖ کے قانون پر قدغن لگانے کی کوششوں میں مصروف ہیںاور نہ ہی مختلف لبادے اوڑھ کر ایسی کسی تقریب میں شرکت کی جائے جس سے یہ تاثر ہی پیدا ہو کہ خدانخواستہ حکمران ایسے لوگوں سے میل جول رکھ رہے ہیں جو پاکستان میں عقیدہ ختم نبوت ۖ پر قدغن لگانے کے مشن پر کاربند ہیں۔ختم نبوتۖ کے قانون کا تحفظ بطور مسلمان ہر ایک شخص پر فرض ہے اور اس کیلئے کسی عہدے’ لالچ’ سمجھوتے یا ہیر پھیر کی کسی بھی طرح اجازت نہیں دی جاسکتی۔ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا جس کی بنیاد ہی یہی ہے کہ ”پاکستان کا مطلب کیا’ لاالہ الا اللہ’ محمد الرسول ۖ اللہ”۔ دنیا بھر میں میں عقید ہ ختم نبوت ۖ پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور بہت کچھ سنایا جا چکا ہے جبکہ بندہ ناچیزاپنے سابقہ پبلش شدہ مضمون کو جاری رکھتے ہوئے اپنی اس تحریر میں آئین و قانون کی روشنی میں ختم نبوت ۖ پر چند معروضات پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔پاکستان کے تمام مسلمانوں کے لئے آئین و قانون میں درج ان معلومات کے بارے آگاہی بہت ضروری ہے۔آئین پاکستان کے آرٹیکل1 (1) کے مطابق: مملکت پاکستان اک جمہوریہ ہوگی جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا۔آئین پاکستان کے آرٹیکل 2 کے مطابق:اسلام پاکستان کا ریاستی مذہب ہوگا۔آئین پاکستان کے آرٹیکل 2 (a) کے مطابق: قراد داد مقاصد 1949 کو آئین پاکستان کا preamble یعنی تمہیدبنا دیا گیا۔آئین پاکستان کے آرٹیکل 260 (3) (a) کے مطابق: مسلمان کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے: ”مسلما ن” سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی وحدت و توحیدقادر مطلق اللہ تبارک تعالیٰ اور خاتم النبیین حضرت محمد ۖ کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط طور پر ایمان رکھتا ہواور ایک نبی یا مذہبی مصلح کے طور پر کسی ایسے شخص پر نہ ایمان رکھتا ہواور نہ اسے مانتا ہوجس نے حضرت محمد ۖ کے بعد اس لفظ کے کسی بھی مفہوم یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبرہونے کا دعویٰ کیا ہو یا جو دعویٰ کرے۔آئین پاکستان کے آرٹیکل 260 (3) (b) کے مطابق:غیر مسلم کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:”غیر مسلم” سے ایسا شخص مراد ہے جو مسلمان نہ ہو اور اس میں عیسائی، ہندو، سکھ،بدھ یا پارسی فرقے سے تعلق رکھنے والا شخص، قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا (جو خود کو ‘احمدی’ یا کسی اور نام سے موسوم کرتے ہیں) کوئی شخصی یا کوئی بہائی، اور کسی درج فہرست ذاتوں سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص شامل ہے۔ آئین پاکستان میں ختم نبوت ۖ اور مسلمان کی واضح تعریف کے بعد کس بھی قسم کے غیر آئینی اقدام کی روک تھام کے لئے 1984 میں مجموعہ تعریزات پاکستان یعنی پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 298 میں ایک آرڈیننس کے تحت ترمیم کی گئی۔ پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 298 (B) (1) کے مطابق: قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا کوئی بھی فرد (جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں یا کسی دوسرے نام سے جو الفاظ کے ذریعے، یا تو بولے یا لکھے، یا ظاہری نمائندگی کے ذریعے درج ذیل افعال کرے:(الف) حضرت محمد ۖ کے خلیفہ یا صحابی کے علاوہ کسی بھی شخص کو امیر المومنین،خلیفة المومنین، خلیفة المسلمین،صحابی یا رضی اللہ عنہ کے طور پر منسوب یا مخاطب کرے۔(ب) حضرت محمد ۖ کی کسی زوجہ محترمہ کے علاوہ کسی ذات کو ام المومنین کے طور پر منسوب یا یا مخاطب کرے۔(ج) حضرت محمد ۖ کے خاندان اہل بیت کے کسی فرد کے علاوہ کسی بھی فرد کو اہل بیت کے طور پر منسوب یا مخاطب کرے۔ (د) اپنی عبادت گاہ کو مسجدکے طور پر منسوب کرے یا موسوم کرے یا پکارے۔درج بالا جرائم کی صورت میں اس شخص کو قید کی سزا دی جائے گی جو کہ تین سال تک ہو سکتی ہے، اور جرمانے کے قابل بھی ہو گا۔ پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 298 (B) (2) کے مطابق: قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا کوئی بھی فرد (جو اپنے آپ کو احمدی یا کسی اور نام سے پکارتا ہے) جو الفاظ کے ذریعے، یا تو بولے یا لکھے، یا ظاہری نمائندگی کے ذریعے، اپنے مذہب میں عبادت کے لئے بلانے کے طریقے یا صورت کو اذان کے طور پر منسوب کرے یا اس طرح اذان دے جس طرح مسلمان دیتے ہیں۔ اسے دونوں میں سے کسی ایک صورت میں قید کی سزا دی جائے گی جو کہ تین سال تک ہو سکتی ہے، اور جرمانے کے قابل بھی ہو گا۔پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 298 (C) کے مطابق: قادیانی گروہ یا لاہوری گروہ کا کوئی فرد (جو اپنے آپ کو احمدی یا کسی اور نام سے پکارتا ہے)، جو بالواسطہ یا بلاواسطہ خود کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے، یا اپنے مذہب کو اسلام کہتا ہے، یا اپنے عقیدے کی تبلیغ کرتا ہے یا اس کی تبلیغ کرتا ہے، یا دوسروں کو اپنے مذہب کو قبول کرنے کی دعوت دیتا ہے، الفاظ کے ذریعے، یا تو بولے یا تحریری، یا ظاہری نمائندگی کے ذریعے، یا کسی بھی طریقے سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی صورت میں کی قید کی سزا دی جائے گی جس کی مدت تین سال تک ہو سکتی ہے اور جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ عقیدہ ختم نبوت ۖ کا حلف نامہ ہر سرکاری ادارے میں ملازمت سے قبل لینا چاہئے تاکہ ہماری قوم کے دفاع’ حکمرانی’ تعلیم و تربیت سمیت اہم ترین شعبوں میں ایسے لوگ قطعی اہم عہدوں پر نہ پہنچ سکیں جو ہمارے دفاع’ خارجہ’ داخلہ پالیسی سمیت تعلیم و تربیت کے شعبوں میں ہماری آنے والی نسلوں کو خدانخواستہ عقیدہ ختم نبوت ۖ کے متعلق غلط تعلیم دیکر اسلام کے دائرے سے خارج کرنے کی سازش کرسکیں۔ اس معاملے پر حکمران فوری طور پر تمام سرکاری ملازموں سے حکم نامے کے ذریعے عقیدہ ختم نبوت ۖ کا حلف نامہ لیں اور جو بھی انکار کرے اسے ایسی ذمہ داری پر ٹرانسفر کردیا جائے جس سے ملک کے اہم معاملات اور آنیوالی نسل کی تعلیم و تربیت پر کوئی فرق نہ پڑتا ہو۔حکمران اس بات کو ہر صورت یقینی بنائیں کہ اقلیت کے تحفظ کے نام پر عقیدہ ختم نبوت ۖ سے کسی قسم کی غداری یا کھلواڑ کی کسی صورت اجازت نہیں دی جانی چاہئے کیونکہ اس معاملے میں عالمی دباؤ پر ہماری ملکی تاریخ میں بارہا سمجھوتے کئے گئے ہیںلہذٰا’ اب باز رہا جائے۔امت مسلمہ یہ بات اچھے سے سمجھ لے کہ عقیدہ ختم نبوت اور پاکستان کی نظریاتی سرحدات کا تحفظ ہماری دینی اور قومی ذمہ داری ہے۔ آئین پاکستان میں موجود اسلامی دفعات اور تعزیرات پاکستان کو تبدیل کرنے کے لیے بیرونی طاقتیں مسلسل اپنا دباؤ بڑھا رہی ہیں۔ہم کسی صورت آئین اور قانون میں ختم نبوت اور قانون توہین رسالت سمیت اسلامی دفعات کو تبدیل نہیں ہونے دیں گے۔ عقیدہ ختم نبوت پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا۔ ناموس رسالت کا قانون ہمیشہ قائم رہے گا اس کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ بیرونی دباؤ کا واحد حل آزاد اور خود مختار پاکستان ہے اوریہ حل عقیدہ ختم نبوت کے قوانین و دیگر قوانین کے تحفظ کا ضامن بھی ہے۔عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ کرنے کے لیے تمام جماعتیں ایک پیج پر کھڑی ہیں۔ملکی تاریخ میں قانون سازی میں سب سے اہم اور تاریخی کارنامہ ہوا۔
مسلمان ہونے کیلئے اللہ کو ایک ماننا اور حضرت محمد ۖکو آخری نبی ماننا ضروری ہے اسکے علاوہ کوئی بھی دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوسکتا اور یہی ہمارے وطن عزیز کے قانون میں بھی درج ہے جس قانون کی منظوری سے قادیانی غیر مسلم قرار پائے۔
اللہ رب العزت کی بلند بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button