شام الم ڈھلی تو چلی درد کی ہوا
راتوں کا پچھلا پہر ہے اور ہم ہیں دوستو
درد کی ہوا کا سامنا کیے آج نوسال بیت چلے۔ ہر سال فروری آتا ہے باوجود اس کے کہ سردی عروج پر ہوتی ہے مگر دل و دماغ حرارت کی نئی جہت لئے آگے لے جاتا ہے۔ فروری کی 11تاریخ کو ہی محمد مقبول بٹ تختہ دار پر چڑھ کر بابائے قوم بن چلے۔ ہم دیوانے ان کی یاد میں گیارہ فروری منا کر قومی تہوار مناتے ہیں تو ساتھ یہی ہماری عید ہوتی ہے پانچ سال قبل جب 11 فروری منایا تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ خوشیوں والا آخری گیارہ فروری ہے۔ ایک ہفتہ بعد ایک اطلاع ملی۔۔۔جو24 فروری کو سانحہ بن گئی۔ 24 فروری سوگ کا دن بن گیا۔ یادوں کی داستان بن گیا۔ اس دن کو اگر یوم سیاہ کہا جائے تو شاید بے جا نہ ہوگا۔ اس دن دانش ریاض۔۔۔ ہم سے بچھڑ گیا۔ دانش صرف دانش تھا یا کچھ اور۔۔۔ نو سال گزرنے کے باوجود اس کا اندازہ نہ ہو سکا۔ وہ کیا تھا؟؟ اور کیوں تھا؟؟ وہ میرا محسن تھا۔۔۔وہ ہمارا بھائی تھا۔۔۔وہ رونق محفل تھا۔۔۔وہ جان محفل تھا۔۔۔اس نے جانے میں اتنی جلدی کیوں کی؟؟ یہ نکتہ مجھے علامہ سعید یوسف نے باور کروایا تھا۔ کچھ سال قبل جب ہمارا بڑا سرفراز کریم ایک جان لیوا حادثے میں اس دن دنیا سے منہ موڑ چلا جس دن راولاکوٹ میں بنائی جانے والی پہلی ماربل فیکٹری کا اس نے سعید یوسف صاحب سے ہی افتتاح کروانا تھا لیکن آج اس افتتاح کے بجائے علامہ صاحب ہی سرفراز کریم کی نماز جنازہ پڑھا رہے تھے۔ اپنے پر تاثیر بیان میں انہوں نے کہا خدا صبر کرنے والوں کیساتھ ہے۔ اس کی تشریح دل کو لگی کہ جن کو چوٹ لگتی ہے وہ بھی خدا کے محبوب ہوتے ہیں اور جب وہ اس چوٹ پر صبر کرتے ہیں تو پھر وہ خدا کے قریب ہو جاتے ہیں۔ خدا ان کے ساتھ ہو جاتا ہے۔24فروری کو جب دانش ریاض اس جہاں سے رخصت ہوا تو دکھ اور جدائی میں ایک تحفہ۔۔۔ بڑا تحفہ۔۔۔بلکہ ہدیہ۔۔اپنوں سمیت مجھے بھی دے گیا وہ خدا کی قربت ہے جو اس کی جدائی پر صبر ایوب کی تقلید میں مجھے میسر آئی۔وہ کون تھا؟؟ اس کامیری زندگی میں کیا دخل تھا، اس کی جدائی ہر دم مجھے کیوں بے چین کیے ہے۔ یہ کسی کو میں کیسے سمجھاں۔ وہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا لاڈلا تھا تو چند بہنوں کا اکلوتا ویر۔ ہر گھر کی طرح اس سے بھی بڑی امیدیں تھیں اور اس کے بھی کہیں ارمان ایک روشن مستقبل کی جستجو میں وہ آگے بڑھتا گیا۔ اور بڑھتے بڑھتے اتنا آگے بڑھ گیا کہ سب کو پیچھے چھوڑ گیا۔ شاید وہ بہت سیانا تھا جو جلد دنیا کی حقیقت سمجھ گیا اور اس جھوٹی دنیا کو چھوڑ چلا۔ 24فروری کو داغ مفارقت دینے والے نے ابھی زندگی کے 24برس بھی پورے نہ کیے تھے۔ اس نے 24بہاریں ضرور دیکھیں لیکن کوئی خزاں نہ دیکھی۔ اس کو جس ناز و نعم سے پالا گیا وہ ایک شہزادے سے کم نہ تھا۔ صورت کا ہی نہیں سیرت کا بھی تو وہ شاہ زادہ ہی تھا۔ راولاکوٹ کے اپنے وقت کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے سے سکولنگ کے بعد راولپنڈی /اسلام آباد کے بڑے تعلیمی ادارے اس کا مکتب بنے۔ آخر میں وہ اسلام آباد کی سب سے بڑی جامعہ قائد اعظم یونیورسٹی میں علم کی پاس بجھانے علم کی طلب کا مسافر بن چلا ابھی اس نے ڈگری کا حصول ممکن بنانا تھا ابھی ہم نے اس بڑے ادارے کے کانووکیشن میں اس نے سر پہ ڈگری کا تاج سجانا تھا اور ہم نے بھی اس کے اعزاز میں کچھ کرناتھا لیکن وقت کی بے رحم موجوں نے اسے کہیں اور بہا لیا۔ سارے ارمان دھرے کے دھرے رہ گئے۔ سب خواہشیں ادھوری رہیں۔ ہم اس انتظار میں ہی رہے کہ اچانک فون کی گھنٹی بجے اور آواز آئے۔۔۔ صحافی صاو۔۔۔ کھان دیا۔۔۔اپر اچھا۔۔۔راولاکوٹ کا سب سے بڑاہوٹل تاریخ کے بڑے میزبان کے ساتھ ہم مسکینوں کی خدمت کے لئے حاضر ہوتا۔ دانش کے شڑاکے سنتے اور اپنی پھڑیاں سناتے۔۔باوجود اس کے کہ اس کی اور ہماری عمر میں ایک بڑا فرق تھا لیکن اس کے رویے نے اپنا اور برتا ہمیشہ ایسے کیا کہ مجھے وہ اپنا محسن لگا۔ وہ ہمیشہ بڑا لگا اور یہ بھی سچ ہے کہ اس کا بڑا پن ہی اسے بڑا بنائے رکھتا اور میں بڑا ہوتے ہوئے بھی نِکا ہی رہا۔ لوگ ڈرتے ہیں کہ قیامت نزدیک آرہی ہے مجھے نہیں اندازہ کہ وہ نزدیک آرہی ہے یا دور جارہی ہے لیکن میری خواہش اور میری دعا ہے کہ قیامت جلد آئے اور بہت جلد آئے و ہاں دانش ریاض ہمارا منتظر ہے وہ محفل جس کی وہ رونق ہوا کرتا تھا اس محفل کے کئی اور رنگین چہرے قائد تحریک امان صاحب، پیرو مرشد آفتاب بھائی، غازی ممتازاور عارف شاہد بھی جلدی میں ہمیں تنہا چھوڑ کر وہیں جا پہنچے ہیں۔ وہاں اپنے گھر کہ کئی اور پیارے بھی ہمارے انتظار میں ہیں ہمیں آخر وہاں جانا ہے اور سچ بات یہ ہے کہ سب نہ ہی وہاں جانا ہے۔ ہر کسی کا کوئی نا کوئی پیارا وہاں اس کا انتظار کر رہا ہے۔ دانش ریاض کی طرح ہر ایک کے لئے ہر ایک کو "قہٹ” جو لگا ہوا ہے۔ جانے وہ کون سا شاعر تھا جو ہماری کیفیت سے دو چار ہوا اور اپنے جذبات کو یوں قارئین کی نذر کیا تھا۔۔۔۔۔ اسے شہر کیسے سمجھا جائے، وہ شہر یار چلا گیا۔۔۔ جس طرح تھامتا تھا چار سو، وہ چار یار چلا گیا۔۔۔ہاں وہ دنیا سے چلا گیا لیکن ہمارے دل و دماغ پر وہ آج بھی حاوی ہے اور رہتی زندگی تک حاوی رہے گا۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ پیر و مرشد آفتاب بھائی نے حالات کی ستم ظریفیوں سے اخلاقیات کا سبق سیکھااور پھر دور جدید میں کشمیر کے صف اول کے با اخلاق ولیوں میں ایک ٹھہرا تو دانش ریاض بھی بالکل ویسا ہی تھا۔ کم عمر۔۔اور صاحب ثروت ہونے کے باوجود ملن ساری اور شیریں گفتگو اس کے اخلاق کو آفتاب بھائی جیسا با اخلاق بناگئی اور یہی وصف ان دونوں کا یقینا قائد تحریک امان صاحب اور ان کی بخشش کا بھی باعث بنے گا۔آج دانش کی یاد میں بس اتنا ہی کہنا ہے۔۔۔لحد کی مٹی کی تقدیر کی امان میں دوں۔۔۔سفید لٹھے میں کفنا کے سرخ شاخ گلاب۔۔۔
ہوا بہشت کے باغوں کی زلف زلف پھرے۔۔۔ تری لحد ترے بالیں کہ گرد جوئے شراب۔۔۔
یہ تنگ و تاریک گھڑا نور سے بھرے عامر۔۔۔سدارہے ترے ہجر میں ہالہ مہتاب
0 243 4 minutes read