
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان شراکت اقتدار کا فارمولہ طے پا گیا۔ منقسم مینڈیٹ نے بڑی دونوں جماعتوں کو آزمائش میں ڈال دیا۔ اگر اتحاد نہ کریں تو حکومت نہیں بن پاتی دوبارہ الیکشن کی طرف جانے کی مجبوری ہے۔ فوری دوبارہ الیکشن مزید بحران کی طرف جاتا ہے اس لئے کہ پوری قوم تقسیم در تقسیم ہے اور یہ قوم و ملک کے لئے انتہائی خطرناک صورت حال ہے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں اتحاد خوشی سے نہیں مجبوری ہے۔ جس ریاست معاشرے یا وہاں کی مقتدر قوتوں میں نا اتفاقی ہو اس میں انتشار کو روکنا ممکن نہیں ہوتا۔ بحیثیت مجموعی یہ ہماری بد قسمتی ہے قوم کے لئے حالیہ الیکشن کے نتائج کوئی نیک شگون نہیں اور نہ ہی امن و استحکام آئے گا۔ سیاسی قوتوں میں اقتدار کی کشمکش اور مفادات کا ٹکراؤ خطرناک عمل ہے۔ اتفاق و اتحاد کے ساتھ انتشار اور افراتفری نہیں رہتی۔ اسی سیاسی ٹکراؤ، مفاداتی سیاست کے باعث 16دسمبر 1971ء کو وطن عزیز دو لخت ہوا۔ سقوطِ ڈھاکہ سے ہم نے سبق نہیں سیکھا۔ قوم ایسی کیفیت سے دوچار ہے۔ عام شہری مہنگائی، بیروزگاری اور دیگر مسائل سے اس قدر پریشان ہیں کہ 90فیصد قوم نفسیاتی مریض بن چکی ہے۔اللہ تعالیٰ اس ملک اور یہاں پر بسنے والے عوام پر رحم فرمائے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے مابین اقتدار کی کھچڑی پک چکی ہے۔ طے پانے والے فارمولے کے تحت ن لیگ کے شہباز شریف وزیر اعظم، قومی اسمبلی کے سپیکر، وزارت اعلیٰ پنجاب صوبہ سندھ کے گورنر، صوبہ بلوچستان کے گورنر اور مکمل وفاقی کابینہ ن لیگ کی ہوگی جب کہ پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری صدر، سینٹ کی چیئرمین شپ، صوبہ سندھ اور بلوچستان کی وزارت اعلیٰ اور پنجاب کی گورنری پیپلز پارٹی کو ملے گی۔ پیپلز پارٹی وفاق اور پنجاب اسمبلی کی کابینہ میں شامل نہیں ہوگی۔ صوبہ کے پی کے میں مکمل اقتدار پی ٹی آئی کے پاس ہوگا۔ با خبر ذرائع کے مطابق پاکستان میں حکومت کی تشکیل کے بعد آزادکشمیر میں بھی عدم اعتماد کے ساتھ پیپلز پارٹی کو وزارت عظمیٰ ملے گی۔ مولانا فضل الرحمٰن نے پی ٹی آئی سے ہاتھ ملا لیا ہے۔ کل کے سخت مخالف آج کے دوست بن رہے ہیں۔ یہی پاکستان کی انوکھی سیاست ہے کہ سیاسی دشمنی میں آتے ہیں تو ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہیں۔ یہودی ایجنٹ قرار دینے کے ساتھ ڈیزل جیسے ناموں سے پکارنے والے ایک ٹیبل پر بیٹھے نظر آتے ہیں تو پتہ نہیں کیوں مجھے شرم محسوس ہوتی ہے۔ جب یو ٹرن لیتے ہیں تو قوم کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ مقتدر قوتوں کی خواہش بھی یہی ہے کہ سیاستدان ہمیشہ آپس میں لڑتے رہیں۔ اگر مضبوط اور مستحکم حکومت بن جائے تو مراعات یافتہ طبقے کے مفادات متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہوجاتا ہے اس لئے ان کی خواہش رہتی ہے کہ کمزور حکومت بنے۔ ایم کیو ایم کو بھی مرکز اور سندھ میں حصہ بقدر جثہ وزارتیں ملیں گی۔ پیپلز پارٹی، ن لیگ اور ایم کیو ایم کے علاوہ تمام ملک گیر اور علاقائی جماعتیں اپوزیشن میں اکٹھی ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ پی ٹی آئی جمعیت العلمائے اسلام اور جماعت اسلامی منظم جماعتیں ہیں۔ ان کے پاس سٹریٹ پاور اور ووٹ بینک موجود ہے۔ مستقبل قریب میں دھاندلی کے خلاف ایک پلیٹ فورم پر جمع ہوکر حکومتی پالیسیوں کے خلاف جب یہ جدوجہد کریں گی تو پورے ملک کا نظام زندگی جام ہو کر رہ جائے گا۔ حکومت کو ایک نہایت ہی مضبوط اپوزیشن کا سامنا کرنا ہوگا۔ بننے والی مخلوط حکومت عملی طور پر آئی ایم ایف سے جلد چھٹکارا نہیں پا سکتی۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی، مہنگائی اور بیروزگاری کم نہ ہونے کی صورت میں عام لوگ پہلے ہی پریشان حال ہیں۔ انہیں احتجاج کے لئے متحرک کرنا سڑکوں پر لانا، دھرنے دینا زیادہ آسان ہوگا۔گزشتہ 16ماہ کی پی ڈی ایم کی حکومت عوامی مسائل حل کرنے میں بڑی طرح سے ناکام رہی۔ وہی تسلسل پھر نئے سیٹ اپ کے ساتھ سامنے آرہا ہے۔ میاں محمد نواز شریف صاحب کو پوری امید تھی کہ ن لیگ کو دو تہائی اکثریت ملے گی اور وہ با اختیار وزیر اعظم بن کر قومی مسائل حل کریں گے مگر نتائج اس کے برعکس آئے اور میاں صاحب مایوس ہو کر وزارت عظمیٰ سے کنارہ کش ہو گئے۔ چھوٹے میاں صاحب کو آگے کر لیااور بیٹی مریم نواز کو مستقبل میں کامیاب سیاست کے لئے رول پلے کرنے کے لئے پنجاب کی وزارتِ عظمیٰ اور ان کی مکمل سرپرستی کا فیصلہ کر لیا۔پیپلز پارٹی کی جس سینئر سیاسی قیادت نے ن لیگ سے شراکت اقتدار کے خلاف رائے دی اس کی بڑی اہمیت ہے۔ بڑے بڑے عہدے لینے کے بعد یہ کہنا کہ ہم اقتدار میں شریک نہیں ہوں گے عجیب منطق اور مضحکہ خیز مؤقف ہے۔ اس بیانیے کوعام شہری ناپسند بھی کرتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست گھٹن زدہ ہونے کے ساتھ مفادات کے گرد گھومتی ہے جس کی وجہ سے نہ ملکی مسائل حل ہو سکے اور نہ ہی جمہوریت مضبوط ہو سکی۔موجودہ مایوس کن صورتحال سے نکلنے کا آخر راستہ کیا ہے تو عرض ہے کہ ایک تو پاکستان میں موجودہ پارلیمانی نظام عملی طور پر مکمل ناکام ہے۔ بحیثیت مجموعی قوم کا مزاج پارلیمانی نظام کے حق میں نہیں۔ جلد یا بدیر صدارتی نظام کی طرف جانا ہوگا۔ چاروں صوبوں میں پنجاب کی آبادی زیادہ ہے۔ مناسب آئینی فارمولے کے ساتھ جس میں متناسب نمائندگی ہو اور ہمیشہ کسی ایک ہی صوبے سے صدر منتخب نہ ہو طے ہو جائے تو یہ نظام کامیابی سے چل سکتا ہے
اگر ایسا نہیں تو موجودہ مرکزی سیاستدان ھوس اقتدار، مفادات، بد دیانتی اور گالم گلوچ کے سیاسی کلچر سے نکل کر صبر و تحمل، اعلیٰ جمہوری اقدار و روایات کے ساتھ آگے بڑھیں۔ قومی اور ملکی مفاد کو ترجیح دیں۔ تمام تر توانائیاں اور صلاحیتیں عوامی مسائل حل کرنے میں صرف کریں۔ سیاسی حریفوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش نہ کریں اس سے شدید رد عمل اور سیاسی انتشار پیدا ہوتا ہے جس سے ملک متاثر ہوتا ہے عوامی مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔