کالم

الیکشن 2024۔۔۔۔سیاست ملک سے زیادہ اہم ؟

لیکشن 2024منعقد ہوگئے ۔ لیکن پاکستان میں ایک طوفان برپا ہے۔ یہ طوفان کسی پارٹی کو بھی اکثریت نہ ملنے اور آزاد امیدواروں کی اکثریت آنے کی وجہ سے ہے ۔ پیپلزپارٹی نے ن لیگ کو ووٹ دینے کا اعلان کرکے نئے انتخابات اور ملک کو بحران سے نکالنے کا اعلان تو کردیا ہے لیکن وفاق میں وزارتیں نہ لینے اور صدر ، اسپیکر و سینیٹ کا الیکشن لڑ کر یہ عہدے لینے کا عندیہ دیا ہے جبکہ بلوچستان میں بھی پی پی پی حکومت بنا رہی ہے۔ نواز شریف نے شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کا اعلان کیا ہے۔ جی ڈی اے ، پی ٹی آئی ، جماعت اسلامی اور جے یو آئی نے شدت پسندی کے ساتھ مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ دھاندلی کا شور چل ہی رہا تھا کہ اگلے ماہ ریٹائرڈ ہونے والے کمشنر راولپنڈی نے دھاندلی اور انکشافات کی چکی چلا کر بین الاقوامی اداروں اور ملک میں مذید ہیجانی کیفیت پیدا کرنے کے لئے الیکشن راولپنڈی کو متنازعہ بنا دیا۔ الزام چیف جسٹس سپریم کورٹ اور چیف الیکشن کمشنر پر لگا کر مذید صورتحال کو دگرگوں کردیا۔ چیف جسٹس کو ملوث کرنے سے انکے سیاسی عزائم واضع ہوگئے۔ انکوائری میں صحیح بات سامنے آنے تک فی الحال قیاس آرائیاں ہی کی جا سکتی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان اور پیر پگارا نے Establishmentپر الزامات لگائے۔ لیکن کوئی بھی ملک کا نہیں سوچ رہا۔ سیاست ملک سے زیادہ اہم بنائی جا رہی ہے۔ پی ٹی آئی تو ہمیشہ سے انتہا پسندانہ رویہ پر رہی ہے۔ سردار لطیف کھوسہ نے تو 1971اور بنگلہ دیش جیسی بات کرکے بھارت کو خوش کردیا۔ بلاول بھٹو جو نواز شریف کو تمام الیکشن مہم میں للکارتے رہے۔ آصف علی زرداری کی مفاہمت اور دور اندیشی کی بنیاد پر ملک کو کرائسس سے بچانے کے لئے ن لیگ کے وزیر اعظم کی حمایت کے اعلان نے ایک اچھا عمل تو کیا لیکن وفاقی کابینہ کا حصہ نہ بننے کا اعلان کرائسس کو اور گہرا کرگیا۔ پی پی پی نے صدارات اور اسپیکر و سینیٹ کے چیئرمین ، بلوچستان کی حکومت بنانے کے فیصلے کرکے ن لیگ کو مذید الجھن میں ڈال دیا۔ ن لیگ نے اپوزیشن میں بیٹھنے پر بھی غور شروع کردیا۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ن لیگ حکومت بنانے کی صورت میں پی پی پی ق لیگ ، ایم کیو ایم کو ناراض نہیں کرسکتی۔ ان جماعتوں کی موجودگی میں ن لیگ اکثریتی جماعت بن جائے گی۔ با آسانی حکومت بنا لے گی۔ پی ٹی آئی حکومت بنانے کی پوزیشن پر نہیں ۔ پی پی پی ، ن لیگ ، ایم کیو ایم سے کسی قسم کی بات نہ کرنے کے بانی ایم کیو ایم کے اعلان نے انکی پرانی اور ہٹ دھرمی کی سیاست کو زندہ کردیا ہے۔ شکست کو حربہ بنا کر ملکی عدم استحکام پیدا کرنا بے حسی ہے۔ اسکی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کا احتجاج جمہوری ہوسکتا ہے لیکن اس میں کی جانے والی گفتگو ملک کے لئے نیک شگون نہیں ۔ پی ٹی آئی تو ہمیشہ سے ملک کے حساس اداروں کو نشانہ بناتی رہی ہے لیکن مولانا فضل الرحمان کی گفتگو کے بعد افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ مزہبی جماعتیں قول و فعل کا تضاد کریں تو پھر انکے مدرسوں اور تعلیم حاصل کرنے والے بچوں پر کیا اثر پڑے گا؟ کمشنر راولپنڈی کو کس نے استعمال کیا؟ ملٹری Establishmentکو مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے نشانہ بنانا ، ملک سے محبت نہیں اقتدار اور سیاست سے محبت ہے۔ یہ بھارت کو خوش کرنے اور ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے والی بات ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں عوام کی نظر میں بھوکی ننگی اور اقتدار کی بھوکی نظر آرہی ہیں ۔ پی ٹی آئی نے اپنے بیانیہ کو شکست خوردہ جماعتوں کا بیانیہ بنا دیا ہے۔ چند دنوں میں وفاق کی کمزور حکومت بننے جا رہی ہے۔ پی پی پی مضبوط اور سب سے مستحکم پوزیشن پر ہے ۔ سندھ اور بلوچستان کے علاوہ پنجاب میں بھی وہ حکومت کا حصہ ہوسکتی ہے۔ لیکن وفاق میں ن لیگ کمزور ، پنجاب میں مضبوط ہوگی۔ مبصرین بھی بھانت بھانت کی بولی بول رہے ہیں ۔ اس وقت ملک کو مقدم ااور افواج پاکستان کے لئے احترام اور محبت کے رویئے اور غیر یقینی کی کیفیت کو ختم کرنے کے لئے مثبت سوچ کی ضرورت ہے ۔ پاکستان کھپے کے آصف علی زرداری کے نعرے کو سب کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ ن لیگ کو حکومت بنانے کا رسک لینا ہوگا ۔ معاشی اعشاریئے درست کرنے ہوں گے۔ سعودی عرب سے نواز شریف کے بہترین تعلقات اور بہترین خارجہ پالیسی ، بین الاقوامی تعلقات اور آئی ایم ایف سے بہہتر تعلقات کے بعد پی پی پی کے ساتھ اچھی ورکنگ ریلیشن شپ اور مشوروں کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ تاکہ کمزورحکومت مضبوط حکومت بن جائے اور اچھی پالیسیوں کے بعد پی پی پی بھی مجبور ہوجائے کہ وفاقی حکومت کا حصہ بن جائے ۔یہ بھی کوشش کی جا رہی ہے کہ پی پی پی کے ساتھ تحریری معاہدہ کیا جائے۔ نواز شریف اسلام آباد پہنچ چکے ہیں ۔ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ وہ ن لیگ کو اپنی شرائط کے ساتھ ووٹ دیں گے۔ جبکہ آصف علی زرداری معتدل مزاجی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اس لئے یہ امکان ہے کہ ن لیگ کی حکومت قائم ہوجائے گی لیکن بلاول کا رویہ جارحانہ ہے انکا کہنا ہے کہ مجھے امید ہے کہ صدر زرداری مجھے ناراض کرنے والا کوئی فیصلہ نہیں کریں گے۔ اس صورتحال میں ن لیگ کو سوچ سمجھ کر حکومت سازی کرنی ہوگی اور اسکے لئے عسکری اداروں اور حکومت کو ایک پیج پر ہونا چاہئے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button