
جب مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ آٹھ فروری کے عام انتخابات کاایساخاص پہلو کیا ہے جو قابلِ تعریف ہے؟ تو میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ عام انتخابات کا پُرامن ہونا ہی سب سے اہم اور خاص بات ہے کیونکہ سچ یہ ہے کہ امن و مان کے حوالہ سے ہر جگہ چہ مگوئیاں جاری تھیں اور خونی انتخابات کی باتیں کی جارہی تھیں یہ چہ مگوئیاں غلط بھی نہیں تھیں گزشتہ کئی ماہ سے ملک میں دہشت گردانہ حملوں میں تیزی دیکھنے میں آرہی تھی ایسے ماحول میںعام آدمی کا خوف و ہراس کا شکارہوتا ہے جس سے ووٹنگ کی شرح کا متاثر ہونا یقینی تھا اسی لیے میں عام انتخابات جیسے اہم مرحلے کا بخیر خوبی مکمل ہونے کوہی خاص پہلو تصورکرتاہوںحساس اِداروں نے اپنے فرائض کی دائیگی میں تمام توانائیاں صرف کردیں ملک بھر کے چھ ہزار حساس پولنگ اسٹیشنوں پر انتہائی سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے فعال انٹیلی جنس اور فوری کاروائیوں سے کئی ممکنہ خطرات کو بے اثر بنا کر ووٹروں کے لیے محفوظ ماحول بنایا گیا جس سے نہ صرف شرپسند عناصر کو کسی سرگرمی کی جرات نہ ہوئی بلکہ پولنگ اسٹیشنوں پر جانے کی ترغیب ملی لوگوں کے بڑی تعداد میں نکلنے سے ہر جگہ ووٹروں کی لمبی لمبی لائنیں دیکھنے میں آئیںسول آرمڈ فورسز کی تعیناتی اور کوئیک رسپانس فورس نے محفوظ ماحول یقینی بنایا جسے سراہتے ہوئے پاک افواج کو مبارکبادبنتی ہے بلاشبہ یہ ایسا مرحلہ تھا جس کے حوالے سے ملک کا ہر مکتبہ فکر خدشات وتشویش کا شکار تھا اور بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ شاید ووٹنگ کی شرح مایوس کُن رہے مگرخدشات وتشویش نقشِ بر آب ثابت ہوئیں پُرامن ترین انتخابات سے پُرامن ملک کا تاثر مستحکم ہو گا پولنگ اسٹیشنوں پرکسی جماعت کے کارکنوں کو روکنے کی شکایات نہ ہونے کے برابر رہیں بلکہ سبھی کو آزادانہ مرضی سے اظہارِ رائے کی آزادی دی گئی ۔عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے کارکنان نے جوش وجذبے کا مظاہرہ کیا اور وہ نہ صرف ووٹ کے لیے خود گھروں سے نکلے بلکہ ووٹروں کو نکالنے میں بھی سرگرمی دکھائی جس سے ووٹنگ کی شرح بڑھانے میں بڑی مدد ملی سیکورٹی کے سخت انتظامات اور پی ٹی آئی کے جوش وجذبے سے انتخابی عمل کی روفقوں میں اچھا خاصا اضافہ ہوا پاکستان میں جہاں لوگ ووٹ کاسٹ کرنے میں کم ہی دلچسپی لیتے ہیں اور عام طور پر انتخاب کے روز چھٹی منانے کو ترجیح دی جاتی ہے اِس بار ایسا کچھ نہیں ہوا عوامی دلچسپی بڑھنے سے امید کی جا سکتی ہے کہ امن وعامہ کی بہتر صورتحال اورسیاسی کارکنوں کے تحرک سے مستقبل میں انتخابی طریقہ کار پر لوگوں کااعتماد بڑھے گاپی ٹی آئی کے تحرک کا نتیجہ ہے کہ ملک میں اُس کے حمایت یافتہ امیدواروں کی بڑی تعداد منتخب ہوئی اورکے پی کے میں نہ صرف ایسی واحد اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے جو جے یو آئی ،عوامی نیشنل پارٹی سمیت تمام جماعتوں کے علاوہ بھی حکومت بناسکتی ہے اور دیگر جماعتیں مل کر بھی اُسے روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکتیں یہاں سے عمران خان سے ناطہ توڑ کر الگ جماعت تشکیل دینے والے پرویز خٹک اور محمود خان جیسے سابق وزرائے اعلیٰ بھی بُری طرح شکست سے دوچار ہوئے جس سے نہ صرف پی ٹی آئی کا حوصلہ دوچند ہوگا بلکہ کارکنوں کا ووٹ کی اہمیت پر اعتمادبھی مستخکم ہو گا ۔امریکہ ،برطانیہ سمیت الجزیرہ ٹی وی نے انتخابی شفافیت کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے جس سے ملک میں افواہوں کا بازار گرم ہو سکتا ہے مگر زہن میں رکھنے والی بات یہ ہے کہ جس ملک کے بھی چین سے تعلقات بہتر ہوتے ہیں اُس کے انتخابی عمل بارے مذکورہ بالا دونوں ممالک ایسی باتیں کرنا وطیرہ بن چکاہے لیکن چین سے مخاصمت رکھنے والے ممالک میں جتنی بھی مزہبی و سیاسی انتہاپسندی ہو یہ خلاف لب کُشائی نہیں کرتے البتہ الجزیرہ جیسے غیر جانبدار ٹی وی کی طرف سے عدم شفافیت کی بات قابلِ غور ہے جس کا بہتر جواب تو الیکشن کمیشن ہی دے سکتا ہے مگرجب دھاندلی کی بات کی جاتی ہے تو رانا ثنا اللہ ،امیر مقام ،جہانگیر ترین ،عابد شیر علی ،میاں جاوید لطیف کا شکست سے دوچار ہونا بہت ہی حیران کُن ہے کیونکہ یہ مسلم لیگ ن کے انتہائی اہم اور سرگرم رہنما سمجھے جاتے ہیں اگر دھاندلی ہوئی ہوتی اور اِداروں نے مسلم لیگ ن کا ساتھ دیا ہوتا توایسا کسی صورت ممکن نہیں ہو سکتاتھا سوال یہ بنتا ہے کہ یہ صفِ اول کے لوگ کیسے چاروں شانے چت ہوئے؟ظاہر ہے عوامی رابطہ بہتر نہ ہونا اور ہر وقت حریفوں کی کردار کُشی اِنھیں لے ڈوبی ہے مجھے الیکشن کمیشن کی بے جا حمایت کا کوئی شوق نہیں ممکن ہے اِکا دُکا غلطیاں ہوئی ہوں مگرزہن میں یہ رکھ کر مجموعی طور پر انتخابی نتائج پر ہی اُنگلی اُٹھا دینا مستحسن عمل نہیں ویسے بھی اگر مسلم لیگ ن کا کسی طرف سے ساتھ دیا گیا ہوتا تو پی ٹی آئی کیونکر واحد بڑی جماعت کے طور پر سامنے آتی؟نُکتہ دانوں کے لیے قابلِ غور ہے اور ایک اور قابلِ زکر بات یہ ہے کہ اہم حلقوں کا چہیتا ہونے کا دعویدار استحکام پارٹی کا مرکزی رہنما جہانگیر ترین دونوں نشستوں پر شکست کھا چکا ہے اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا پھر بھی الزام تراشی میں صداقت ہو سکتی ہے ۔نئی پارلیمان معرضِ وجود میں آنے والی ہے اب تک کے نتائج کے مطابق پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار پہلے ، مسلم لیگ ن دوسرے جبکہ پی پی کی تیسری پوزیشن ہے کسی ایک جماعت کو بھی مرکز میں سادہ اکثریت حاصل نہیں ہوئی جس سے ایک ایسی اتحادی حکومت تشکیل پانے کا امکان بڑھ گیا ہے جس میں پی ڈی ایم کی طرح مختلف جماعتیں شامل ہوں اِس لیے دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ عوامی اُمنگیں پوری کرنے کی راہ ہموار ہواور ملک میں سیاسی استحکام آئے ایسے ماحول میں چھوٹی جماعتوں کی اہمیت میں اضافہ ہوتا ہے بحرحل پنجاب میں مسلم لیگ ن اور سندھ میں پی پی کو اتنی نشستیں مل گئی ہیں کہ وہ بڑے آرام سے حکومت بنا سکتی ہیں مگر مرکز میں معلق پارلیمنٹ سے یہ مرحلہ مشکل ثابت ہو سکتا ہے اب بھی مسلم لیگ ن اور پی پی کادوبارہ ایک ہونا بھی ممکن ہے کیونکہ ماضی میں دونوں جماعتیں مشترکہ حکومت بنانے کا تجربہ کر چکیں اب بھی اکٹھے ہونے کا امکان مکمل طور پر رَد نہیں کیا جا سکتا اوربلاول بھٹو کی انتخابی مُہم کے دوران سخت جملے بازی نظر انداز کی جا سکتی ہے آصف زرداری ویسے بھی مفاہمت کے بادشاہ کہلواتے ہیں جس کے تناظر میں صدرِ مملکت کاعہدہ دیکر مسلم لیگ ن بڑے آرام سے پی پی کو ساتھ ملاسکتی ہے اگر انھوں نے بلاول بھٹو کو وزیراعظم بنانے کی ضد کی تو مسلم لیگ ن کے لیے مشکلات پیداہو سکتی ہیں آصف زرداری کے متحرک ہونے سے آزاد امیدوار پی پی کی طرف جاسکتے ہیں ۔