
2024کے عام انتخابات کے بعد ملکی سیاسی میں عجیب کشمکش کی صورتحال ہے ، ان انتخابات سے کوئی سیاسی جماعت خوش نہیں ہے کیونکہ ہر جماعت کو اتنی نشستیں دی گئی ہیں کہ وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ہر جماعت کو حکومت بنانے کے لیے ایک بڑی تعداد میں آزاد اراکین اور کسی دوسری جماعت کے ساتھ اتحاد کی ضرورت ہے ۔ اوپر سے ملکی حالات بھی کچھ ایسے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے لیے دو تہائی اکثریت کے بغیر انہیں درست کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ اگر اپنی سادہ اکثریت نہ ہو تو دوسری جماعتوں کو ساتھ ملانا پڑتا ہے جو حکومت کو باآسانی فیصلے نہیں کرنے دیتیں ان کے فیصلوں میں رکاوٹیں کھڑی کرتی ہیں اور حکومت کو بلیک میل کرتی رہتی ہیں۔ اگر حکومت ان کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ کرنے لگے تو وہ علیحدگی کی دھمکی دیتی ہیں جس کی وجہ سے حکومت کے ختم ہو جانے کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ اس خوف سے حکومت کو مجبوراً اتحادی جماعتوں کی بات ماننی پڑتی ہے، جو آزاد فیصلہ سازی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ ملکی حالات پہلے ہی سے اتنے خراب ہیں ، ملکی معیشت تباہ حالی کا شکار ہے ، ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے ، حکومت اپنی مرضی سے معاشی اصلاحات اور فیصلے نہیں کر سکتی۔ ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری عروج پر ہے ، کوئی محکمہ یا ادارہ درست سمت میں کام نہیں کر رہا ۔ ملک میں امن و امان کی صورتحال بھی بہت خراب ہے ، دہشتگردی کے سائے ملک پر منڈلا رہے ہیں۔ اس صورت میں نئی حکومت اگر پوری طاقت کے ساتھ نہیں آئے گی تو اس کے لیے ان تمام مسائل سے نمٹنا ممکن نہیں ہو گا اور حکمران جماعت بدنام اور غیر مقبول ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی جماعت حکومت لینے کے لیے راضی نہیں ہو رہی۔ دوسری طرف اگر ان انتخابات کو کالعدم قرار دے کر دوبارہ انتخابات کرائے جائیں تو ملک کا بہت زیادہ نقصان ہو گا ۔ ہمارا کمزور معیشت والا ملک اتنا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا ، ایک الیکشن میں اربوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں تو دوبارہ الیکشن کرانے کی صورت میں کتنے اربوں روپے ضائع ہوں گے ۔ جو پہلے سے تباہ شدہ ملکی معیشت کو مزید تباہی کی طرف لے جانے کا باعث بنے گا۔ اس لیے دوبارہ انتخابات کرانا تو نہایت مضر ثابت ہو گا اس لیے اب ایک ہی صورت باقی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیںمل بیٹھ کر ایک لائحہ عمل تیار کریں اور مضبوط سا معاہدہ کر کے مشترکہ حکومت بنائیں۔تمام سیاسی جماعتوں کو قومی حکومت میں برابر حصہ دیا جائے یا ہر جماعت کو اس کی نمائندگی کے حساب سے وزارتیں دی جائیں ، وزیراعظم کے لیے بہتر یہ ہو گا کہ وہ کسی جماعت سے تعلق نہ رکھتا ہو بلکہ کسی آزاد ممبر قومی اسمبلی کو وزیراعظم کا عہدہ سونپ کر تمام جماعتیں اس کی حمایت کریں اور مل جل کر ملکی ترقی و استحکام کے لیے کام کریںاور ثابت کریں کہ وہ حقیقتاً ملکی مفاد کے لیے سیاست کر رہی ہیں نہ کہ ذاتی مفادات کے لیے ملک کو اپنی سیاست کی بھینٹ چڑھا رہی ہیں جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ پھر یہ قومی حکومت ایسی ہونی چاہیے جس میں کوئی سیاسی جماعت باہر نہ ہر تمام جماعتیں بشمول تحریک انصاف مل بیٹھیں ۔ تحریک انصاف کا نام اس لیے الگ سے لینا پڑتا ہے کہ وہ اکثر سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنے کو پسند نہیں کرتے اور کسی سے بات کرنا انہیں گوارا نہیں ہوتا ۔ لہٰذا انہیں بھی اس رویے کو ترک کر کے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھ کر ملکی مفاد کے لیے سوچنا چاہیے اور دیگر جماعتوں کو بھی چاہیے کہ انہیں قبول کریں اور ان کے ساتھ مل کر کام کریں۔اس قومی حکومت میں تمام جماعتوں کو بقدر جثہ ان کا حصہ ملے ۔ پھر آئندہ ملک کے تمام مسائل باہمی مشاورت سے حل کیے جائیں۔ جب تمام جماعتوں کو ایسا محسوس ہو گا کہ وہ حکومت کا حصہ ہیں تو پھر کوئی حکومت کو کام کرنے سے نہیں روکے گا۔ ہر ایک اس کے استحکام میں اپنا حصہ ڈالے گا، جوملک میں سیاسی استحکام لائے گا اور سیاسی استحکام سے معاشی استحکام بھی آتا ہے ۔ اس سے قبل بھی کئی بار ملک میں قومی حکومتوں کی بات ہوئی لیکن یہ کبھی پوری نہ ہو سکی ، اس بار اسے آزما لینا چاہیے۔ یقینا اس کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے، ملک میں بے جا سیاسی اختلافات اور تنقید در تنقید کا دروازہ بند ہو جائے گا
کیونکہ تمام سیاسی جماعتیں باہمی مشاورت سے فیصلے کریں گیں۔