کالم

نواز شریف کا ” شکستہ کشتی ” پر سوار ہونے سے انکار

ملک میں عام انتخابات کا انعقاد 10 روز قبل ہو چکا ہے لیکن کامیاب ہونے والے انتخابی نتائج تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں جب کہ شکست دوچار کئے جانے واویلہ تو بنتا ہے پاکستان میں شاید ہی کوئی الیکشن ہو جسے” شفافیت ”کا تمغہ ملا ہو یہ ایسا انتخاب تھا جس میں کامیاب قرار دئیے جانے ”شرمندہ شرمندہ” دکھائی دیتے ہیں کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ 2024 ء کو ہونے والے انتخابات 2018ء کے انتخابات کا ایکشن ری پلے تھا کچھ جماعتوں نے عام انتخابات میں حقیقی مینڈیٹ کو چوری کرنے کا الزام عائد کیا پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار بھی گلا پھاڑ کر مینڈیٹ کی چوری کے گیت گا رہے ہیں بہر حال انتخابات میں کس قدر دھالی ہوئی ہے اس کا فیصلہ تو الیکشن ٹریبونل کریں گے شعوری طور موجودہ انتخابات کو متنازعہ بنا دیا گیا ہے پی ٹی آئی ایک سانس میں عام انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرنے کا دعوی کر رہی ہیں تو دوسرے سانس میں الزام عائد کر رہی ہے کہ اس کی اکثریتی حیثیت چھین لی گئی ہے پی ٹی آئی کے چئیرمین بیرسٹر گوہر علی 172 نشستوں پر کامیابی کا دعوی کر رہے ہیں جب کہ سردار لطیف کھوسہ نے الزام عائد کیا ہے کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 50 امیدواروں کا نتیجہ تبدیل کیا گیا ہے فی الحال پی ٹی آئی اپنا مینڈیٹ چھن جانے کا رونا رو رہی ہے دوسری طرف مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ ق اوراستحکام پاکستان پارٹی نے مل جل کر مخلوط حکومت بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے دو روزہ اجلاس کے بعد پیپلز پارٹی نے غیر مشروط طور پر مسلم لیگ ن کی حکومت کی حمایت کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور کہا ہے کہ پیپلزپارٹی مسلم لیگ ن کی حکومت کو ووٹ تو دے گی لیکن وزارتیں نہیں لے گی جب کہ اس کی نظریں صدر مملکت ، سپیکر اور چئیرمین کے مناصب پر نظریں لگی ہیں سندھ میں پیپلز پارٹی کو بھاری اکثریت دے دی گئی ہے وہاں اس کا وزیر اعلٰی بنے گا بلوچستان میں جے یو آئی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے یکساں ارکان منتخب ہوئے ہیں پیپلز پارٹی سرفراز بگٹی کو وزیر اعلٰی بلوچستان بنوانے کے لئے کوشاں ہے عہدوں کی بندر بانٹ میں جمعیت علما ء اسلام کے ہاتھ کچھ نہیں آیا لہذا جمعیت علما اسلام کے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے ناخوش ہے اور ان سے اپنے راستے تبدیل کر لئے ہیں پورا سندھ پیپلز پارٹی کے حوالے کرنے پر پیر صاحب پگارا بھی سخت نالاں ہیںر انہوں نے بطور احتجاج ان نشستوں واپس کرنے کا اعلان کر دیا ہے جو جی ڈی اے کو دی گئی ہیں مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی کی وفاق میں 3 اور دو سال کی حکومت بنانے کی تجویز سی اتفاق نہیں یہ کیسے ممکن ہے پیپلز پارٹی حکومت کا حصہ بنے بغیر حکومت کے تمام ثمرات سمیٹے جب حکومت پر مشکل وقت آئے تو حکومت سے الگ ہو کر حکومت گرا دے سر دست پیپلز پارٹی وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی غیر مشروط حمایت کرنے کا اعلان کر رہی ہے لیکن قرائن بتاتے ہیں آصف علی زرداری کی نظریں صدر مملکت کے منصب پر لگی ہیں وہ دوسری بار صدر بننے کے لئے مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں بھی شامل ہو جائیں گے 16 ماہ کی حکومت میں پیپلز پارٹی نے اپنا حصہ بقدر جثہ لیا تھا اب تو پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کو اقتدار میں بٹھانے کے عوض بہت کچھ مانگ رہے ہیں اس ڈیل کے نتیجے میں بلاول بھٹو جو وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھ رہے تھے کو شہباز شریف کی حکومت میں وزیر خارجہ بننے پر اکتفا کرنا پڑے گا لاہور میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، استحکام پاکستان پارٹی کے درمیان چند گھنٹوں میں حکومت سازی پر اس تیزی سے پیش رفت ہوئی کہ شہباز شریف، آصف علی زرداری، خالد مقبول صدیقی ، عبد العلیم خان سینیٹر محمد اسحق ڈار ہوائی جہاز پر سوار ہو کر اسلام آباد میں چوہدری شجاعت حسین کے” ڈیرہ” پر پہنچ گئے چوہدری شجاعت حسین نے نا سازی طبع کے باوجود رات گئے وفد سے ملاقات کر کے حمایت کی یقین دہانی کرا دی چوہدری پرویز الہی سے ان کے سیاسی راستے پہلے ہی جدا ہو چکے ہیں لہذا اب وہ تمام تر تحفظات و ناراضی کے باوجود نواز شریف کے ساتھ کھڑے نظرآرہے ہیں چوہدری شجاعت حسین کی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس میں جہاں ایک سوال کے جواب میں وزارت عظمیٰ کے امیدوار شہباز شریف نے مریم نواز کو پنجاب کا وزیر اعلٰی بنانے کا اعلان کیا وہاں انہوں نے مصلحتا” اپنے وزیر اعظم کا امیدوار بنائے جانے بارے میں خاموشی اختیار کئے رکھی اس موقع پر انہوں نے آصف علی زرداری کو صدر بنائے جانے بارے سوال پر سوال کندہ کہا کہ” ہم آپ کو مایوس نہیں کریں گے” ادھر شہباز شریف کی پریس کانفرنس ختم ہوئی ہی تھی ادھر لاہور سے مریم اور زیب نے نواز شریف کی طرف سے مریم نواز کے سر پر وزارت عظمٰی کا تا ج سجانے اور شہباز شریف کے گلے میں وزارت عظمٰی کا طوق ڈالنے کا اعلان کر دیا 8 فروری کے انتخابی نتائج پر نواز شریف دلبرداشتہ دکھائی دیتے تھے وہ منقسم مینڈیٹ کے نتیجہ میں بننے والی کمزور حکومت کا ”بے بس و بے اختیار” زیر اعظم بننے کے لئے تیار نہ تھے ان کے خیال میں وہ وفاق میں کچھ ڈیلور نہیں کرپائیں گے وہ ”برائے نام” وزیر اعظم بن کر اپنی رہی سہی عزت کو دائو پر نہیں لگانا چاہتے وہ پارٹی کی پشت پر کھڑے ہو کر گڈ گورنس کو ممکن بنانا چاہتے ہیں نواز شریف کا وزیر اعظم نہ بننے کا فیصلہ پوری قوم کے لئے سرپرائز سے کم نہیں
معین احسن جذبی کا درج ذیل شعر موجودہ صورت حال کی عکا سی کرتا ہے
جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
شنید ہے کی شہباز شریف نام کی سفارش راولپنڈی سے آئی ہے بہرحال مریم نواز کو وزیر اعلٰی پنجاب بنانے کا فیصلہ نواز شریف کا ہے مریم نواز کو صوبے کاحکمران بنانا نواز شرئف کا بڑا فیصلہ ہے مریم نواز صوبہ پنجاب کو رول ماڈل بنا کر مسلم کیگ ن کی سروائیول ممکن بنا سکتی ہیں جمعیت علما اسلام جو کے پی کے میں پی ٹی آئی کے ہاتھوں بڑی طرح پٹ گئی ہے جے یو آئی کے حصہ میں چار نشستیں آئی ہیں جمعیت علماء اسلام نے اپوزیشن بنچوں پر بطور احتجاج بیٹھنے کا بڑا فیصلہ کر کیااپنے آپ کو پی ڈی ایم کی سیاست سے الگ کر لیا اور نواز شریف کو اپنے ساتھ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کی دعوت دے دی ہے اگرچہ مسلم لیگ ن پارلیمان میں سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے لیکن وہ تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے اور نہ ہی وہ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا بڑا سیاسی فیصلہ کر نے کے لیے تیارایسا کرنے کی صورت میں ملک ایک نئے سیاسی بحران کا شکار ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں نومنتخب پارلیمنٹ وجود میں آنے کے بعد ہی تحلیل ہو سکتی ہے ایم کیو ایم پیپلز پارٹی سے ناراض ہے اس لئے اس نے اپنے 17 ارکان کا وزن مسلم لیگ ن کے پلیٹ میں ڈال کر پیپلز پارٹی کی وزارت عظمٰی کے لئے بارگینگ ختم کر دی ہے سیاست میں مستقل ”دوستی اور دشمنی” نہے ہوا کرتی پی ٹی آئی عمرایوب کے لئے ووٹ مانگنے مالانا فضل الرحمنٰ کے آستانہ پر پہنچ گئی ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button