کالم

پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے لئے کڑی آزمائش

منقسم مینڈیٹ ملنے پر قوم اور ریاستی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کڑی آزمائش میں داخل ہو چکی ہیں۔ الیکشن نتائج کے تناظر میں اتحادی حکومت ہی بنے گی کوئی دوسرا حل نہیں۔ اتحاد کن کے درمیان ہو سکتا ہے اس میں تین جماعتیں ہی اتحادی حکومت بنانے میں نہ صرف بنیادی کردار ادا کریں گی بلکہ ناگزیر ہیں کہ کوئی دو اتحاد کریں۔ اگر کوئی دو اتحاد نہیں کریں گی تو نئی حکومت بن ہی نہیں سکتی۔ مسلم ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے پاس ہی کم یا زیادہ مینڈیٹ ہے۔ پی ڈی ایم کی گزشتہ 16ماہ کی حکومت میں ایک درجن سے زائد سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔ ان میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو حکومتی بڑا حصہ حاصل تھا۔ اس اتحادی حکومت کی کارکردگی انتہائی نا تسلی بخش رہی۔ عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام رہی۔ ساتھ ہی یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت اور ممبران اسمبلی اور وزراء میں کوئی تال میل ذہنی ہم آہنگی نہیں رہی۔ 8فروری کے الیکشن کے بعد حکومت کی تشکیل کے حوالے سے دونوں بڑی جماعتوں نے اپنے اپنے پلیٹ فورم سے مشاورتی عمل شروع کیا۔ پیپلز پارٹی سی ای سی کے اجلاس میں شرکاء نے ن لیگ کے ساتھ بطور اتحادی حکومتی شمولیت سے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ اکثریت کے رائے تھی کہ پی پی پی اپوزیشن میں بیٹھے بااثر جماعتی یہ بھی چاہتے تھے کہ اگر عمران خان کی جماعت سے اتحاد ہو سکے تو بہتر ہے۔ با اثر حلقوں نے جب عمران خان تک یہ رائے پہنچائی تو عمران خان نے اپنی روایتی ہٹ دھرمی اور ضد کی بنیاد پر دو ٹوک انکار کر دیا کہ ن لیگ اور پی پی پی دونوں ہمارے سیاسی دشمن ہیں ان کے ساتھ کسی بھی صورت اتحاد نہیں ہو سکتا۔ اب پیپلز پارٹی کے لئے دو ہی راستے تھے ایک ن لیگ کی حمایت کرکے اس کا وزیر اعظم اور نئی حکومت بنوائے دوسرا راستہ اپوزیشن میں بیٹھنے کا تھا اور یہ راستہ نئے الیکشن کی طرف جاتا تھا کیونکہ پیپلز پارٹی کی حمایت کے بغیر نئی حکومت بن ہی نہیں سکتی اور نئے الیکشن ناگزیر تھے لہذا ملکی مفاد میں یہ فیصلہ ہوا کہ پیپلز پارٹی ن لیگ کو حکومت بنانے میں ووٹ دے گی مگر کابینہ میں شامل نہیں ہوگی۔ میں سمجھتا ہوں کہ پیپلز پارٹی نے بروقت اور انتہائی دانشمندانہ فیصلہ کیا ہے۔ ملک کو ایک بڑے بحران سے بچا لیا ہے۔ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے علاوہ باقی تمام کے پاس اس قدر ووٹ ہی نہیں کہ کسی کے اتحادی بن کر حکومت بنا سکیں۔ ایم کیو ایم کے پاس 17جبکہ باقی کسی کے پاس ایک اور کسی کے پاس دو سیٹیں ہیں۔ حکومت کیسے بنے؟ پیپلز پارٹی نے ن لیگ اور قوم کو بڑی آزمائش سے بچا لیا۔ نئی حکومت بن جائے گی جس کا وزیر اعظم شہباز شریف ہوگا۔ پاکستان کی تاریخ کی کمزور ترین حکومت ثابت ہو گی۔ بجٹ پاس کرنے کوئی بھی بل پاس کرانے سے لے کر قدم قدم پر ن لیگ والوں کو پیپلز پارٹی کی ضرورت رہے گی۔ جب بھی پیپلز پارٹی نے سیاسی سیڑھی ہٹالی ن لیگ کا دھڑم تختہ ہو جائے گا۔ ملنے والے مینڈیٹ کے مطابق عمران خان کی جماعت کے آزاد امیدواران کی اکثریت ہے مگر انہیں کسی کے اتحاد کے بغیر مطلوبہ تعداد نہیں کہ حکومت بنا سکیں۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے اتحاد نہیں کرتے اکیلے حکومت بنا نہیں سکتے نہ ہی باقیوں کے پاس اس قدر تعداد ہے لہذا سب آزمائش میں ہیں۔ میرے نزدیک سب سے زیادہ آزمائش میں ن لیگ جا رہی ہے چونکہ وزارت عظمیٰ کا پھندا ن لیگ کے گلے میں فٹ ہو رہا ہے جبکہ حالات اس قدر گھمبیر ہیں مسائل ایسے خوفناک اژدھا کی مانند منہ کھولے ہوئے ہیں کہ جن کا حل کرنا بے حد مشکل ہے۔ 8فروری کے الیکشن قوم اور سیاسی جماعتوں کے لئے کڑی آزمائش بن گئے ہیں۔ اچھی امیدیں رکھتے ہوئے نئی آزمائش میں گھر گئے ہیں۔ اس صورت حال میں بچنے سنبھلنے اور پریشان حال قوم کو مایوسی کے بھنور سے نکالنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ سارے ہی سیاستدان خلوس دل سے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سیاسی عصبیت کی عینک اتار کر ملک اور قوم کی خاطر اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ ذاتی اور جماعتی مفاد کے بجائے قوم و ملک کے لئے سوچیں۔ یہ ملک ہے تو سیاست بھی ہوگی اور اقتدار بھی رہے گا۔ لوگ مہنگائی، بیروزگاری ، کرپشن، قرضوں اور توانائی کے بحران سے پریشان حال ہیں۔ سب سوچتے تھے کہ الیکشن کے بعد بہتری آئے گی مگر الیکشن کے بعد تو نیا سیاسی بحران سر اٹھا چکا ہے جس سے دانشمندی سے نکلا جا سکتا ہے۔ اگر ذمہ دار سیاستدانوں بالخصوس تین بڑی جماعتوں ن لیگ پیپلز پارٹ اور تحریک انصاف کی قیادت نے صبر و تحمل دور اندیشی کے ساتھ قومی مفاد میں کردار ادا نہ کیا تو ملک کا نا قابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ ملک ایک خونی انقلاب کی طرف محو سفر ہے البتہ یہ سفر سست روی سے جاری ہے اگر موجودہ بحران اور مستقبل میں سنجیدہ کوششیں نہ کی گئیں تو خونی انقلاب نا گزیر ہوگا۔ پھر نہ سیاستدان بچیں گے نہ سیاست۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button