
زبیدہ خوش شکل، ذہین، نرم گو، رحم دل، مخیر اور انتہائی خوش پوش تھیں۔ چچا زاد ہارون الرشید سے شادی ہوئی۔ جو چار سال بعد پانچویں عباسی خلیفہ بنے اور سنہ 786 سے 809 تک حکمران رہے۔زبیدہ اپنی انسان دوستی، غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کے لیے بھی مشہور تھیں۔ وہ اکثر اپنی دولت غریبوں میں تقسیم کرتیں اور انھیں خوراک، لباس اور رہائش فراہم کرتیں۔ملکہ زبیدہ کی خدمت کے لئے ایک سو نوکرانیاں تھیں۔ جن کو قرآن کریم یاد تھا اور وہ ہر وقت قرآن پاک کی تلاوت کرتی رہتی تھیں۔ ان کے محل میں سے قرات کی آواز شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح آتی رہتی تھی۔ملکہ زبیدہ بڑی ذاہدہ، عابدہ اور نیک خاتون تھی۔ اس نے ایک خواب دیکھا کہ میں ایک چوراہے پر ہوں اور جو شخص آ رہا ہے، مجھ سے گناہ کا ارتکاب کر کے جا رہا ہے۔ ایسی نیک خاتون کے لیے ظاہر ہے ایسا خواب بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ وہ اس خواب کے بعد سخت پریشان اور رنجیدہ ہوئیں۔ علامہ ابنِ سیرین حیات تھے۔ اس نے اپنی ایک معتبر خادمہ کو کہا کہ تم اس خواب کو اپنی طرف منسوب کر کے علامہ ابنِ سیرین کو سنا اور اس کی تعبیر پوچھ کر آ۔اپنا نام اس لیے ظاہر کرنے کو منع کیا کہ پتہ نہیں اس قسم کے خواب کی تعبیر کیا ہو۔ جو رسوائی کا سبب بنے۔ خادمہ حکم کے مطابق علامہ ابنِ سیرین کے پاس پہنچی اور کہا: میں نے یہ خواب دیکھا ہے۔ اس کی تعبیر کیا ہے؟ علامہ ابنِ سیرین جن کو حق تعالی نے تعبیر کا حیرت انگیز علم عطا فرمایا تھا۔ انہوں نے خواب سن کر فرمایا: یہ تمہارا خواب نہیں ہو سکتا۔ یہ تو کسی خوش نصیب شخص کا خواب ہے۔ سچ سچ بتا، کس کا خواب ہے، پھر تعبیر بتاں گا۔ خادمہ نے کہا مجھے نام بتانے سے منع کیا گیا ہے۔ فرمایا: پہلے اس سے اجازت لے کر آ، پھر تعبیر بتاں گا۔ زبیدہ کو اندازہ ہو گیا کہ اس کی تعبیر سے کسی قسم کی رسوائی کا اندیشہ نہیں ہے، کیونکہ خادمہ نے واپس آ کر علامہ ابنِ سیرین کے الفاظ نقل کر دیئے تھے۔ اس لئے زبیدہ نے خادمہ سے کہا: اچھا! جا کر میرا نام بتا دو۔ خادمہ دوبارہ ابنِ سیرین کے پاس آئی اور کہا کہ یہ خواب ملکہ زبیدہ نے دیکھا ہے۔ علامہ ابن سیرین نے خوش ہو کر یہ تعبیر دی کہ حق تعالی ملکہ کے ہاتھ سے ایسا صدقہ جاریہ قائم فرما دیں گے، جس رہتی دنیا تک لوگوں کو فائدہ پہنچے گا۔ یہ سن کر زبیدہ نے فورا حق تعالی کا شکر ادا کیا۔ کہ بظاہر خواب تو بڑا عجیب تھا ،لیکن تعبیر بہت اچھی پائی۔ پھر چند برسوں کے بعد ہارون رشید نے حج پر جانے کا ارادہ کیا تو ملکہ زبیدہ بھی ساتھ تھی۔ تقریبا تیرہ سوسال پہلے مکہ میں پانی کی بیحد تنگی تھی اور حاجیوں کو سخت مشقت کا سامنا تھا۔ ملکہ زبیدہ کی نیکی اور نرم مزاجی مشہور تھی، اس لئے حاجیوں نے ملکہ سے اس پریشانی کا ذکر کر کے درخواست کی کہ آپ یہاں بہ آسانی پانی ملنے کا کوئی انتظام کر دیں۔ ملکہ زبیدہ کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ یہاں دوردراز کے ملکوں سے بھی لوگ آتے ہیں۔ یہاں پانی کا کوئی بندوبست ہونا چاہئے۔کیونکہ ملکہ زبیدہ نے پانی کی قلت کے سبب حجاج کرام اور اہل مکہ کو درپیش مشکلات اور دشواریوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تو انہوں نے مکہ میں ایک نہر نکلوانے کا ارادہ کیا۔ملکہ زبیدہ نے بادشاہ وقت اور اپنے شوہر سے اس کی اجازت لی۔ جو اس نے خوشی سے دے دی۔ یہ وہ وقت تھا جب اسلام اپنے شباب پر تھا۔ ایک عالمی طاقت کی حیثیت تھی۔ غیر مسلم طاقتیں مسلمانوں کے زیرِ نگیں تھیں۔ اس وقت ہر فن کے بڑے بڑے ماہرین مسلمانوں کے اندر موجود تھے۔ ملکہ نے پوری سلطنت کے اندر یہ اعلان کرا دیا کہ جہاں جہاں کوئی ماہر انجینئر موجود ہیں، وہ سب مکہ مکرمہ آ کر جمع ہو جائیں۔ مختلف شہروں سے بڑے بڑے ماہرین کی ایک جماعت وہاں جمع ہو گئی۔ ملکہ زبیدہ نے اس کانفرنس میں مختصر خطاب کیا اور کہا کہ_ "مجھے مکہ مکرمہ کے کونے کونے اور گلی گلی میں پانی چاہئے۔ یہ کام کیسے ہوگا ؟ اور پانی کہاں سے آئے گا ؟ یہ سوچنا اور اس پر عمل کرنا تمہارا کام ہے۔”جب نہر زبیدہ کی منصوبہ بندی شروع ہوئی تو اس منصوبہ کا منتظم انجینئر آیا اور کہنے لگا : آپ نے جس ام کا حکم دیا ہے اس کے لئے خاصے اخراجات درکار ہیں، کیونکہ اس کی تکمیل کے لئے بڑے بڑے پہاڑوں کو کاٹنا پڑے گا، چٹانوں کو توڑنا پڑے گا، نشیب و فراز کی مشکلات سے نمٹنا پڑے گا، سینکڑوں مزدوروں کو دن رات محنت کرنی پڑے گی۔ تب کہیں جا کر اس منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ یہ سن کر ملکہ زبیدہ نے چیف انجینئر سے کہا : اس کام کو شروع کر دو، خواہ کلہاڑے کی ایک ضرب پر ایک دینار خرچ آتا ہو۔سارے انجینئر سر جوڑ کر بیٹھے۔ سب نے باہم مشورہ کر کے شہر کا جائزہ لیا۔ مکہ مکرمہ سے 35 کلومیٹر شمال مشرق میں وادی حنین کے جبال طاد سے نہر نکالنے کا پروگرام بنایا گیا۔مزید ایک نہر جس کا پانی جبال قرا سے وادی نعمان کی طرف جاتا تھا، اسے بھی نہر زبیدہ میں شامل کر لیا گیا۔ یہ مقام عرفات سے 12 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع تھا۔علاوہ ازیں منی کے جنوب میں صحرا کے مقام پر بئر زبیدہ کے نام موسوم ایک تالاب تھا، جس میں بارش کا پانی جمع کیا جاتا تھا، اس سے بھی سات مختلف کاریزوں کے ذریعہ پانی نہر میں لے جایا گیا، پھر وہاں سے ایک چھوٹی نہر مکہ مکرمہ کی طرف اور ایک میدان عرفات میں مسجد نمرہ تک لے جائی گئی۔ مزدلفہ میں نہر زبیدہ مسجد مشعر الحرام کے قریب کنویں کی شکل میں تھی اور وہاں سے لوگ پانی نکالتے تھے۔ منی کو بھی پانی یہاں سے فراہم کیا جاتا تھا بعد میں نہر پر پمپ لگا کر پانی منی تک پہنچانے کا بندوبست کیاگیا۔ منی میں بھی حوض بنائے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق نہر زبیدہ سے 600 سے 800 کیوبک میٹر پانی روزانہ مکہ مکرمہ آتا تھا۔ اور جہاں جہاں پانی کے چشمے تھے اور پانی کی موجودگی کے امکانات تھے، پہاڑیوں میں نالیوں کی شکلوں میں کہیں پانی جاری تھا ہا پتھروں کی کھدائی کر کے جہاں پانی کے نکلنے کے امکانات تھے۔ ان سب کو جمع کرنے کا نظام بنایا۔ نہر کی کھدائی کر کے پانی کے اس زخیرے کو نہر میں ڈالا گیا۔ شہر کے چاروں طرف تقریبا چودہ میل لمبی نہر تیار کر دی گئی۔ جگہ جگہ ایسے ٹینک بنا دئیے گئے جہاں پانی آ کر جمع ہوتا رہے۔ جگہ جگہ ڈھکن والے پانی کے ایسے ذخائر بنائے گئے تاکہ اگر کوئی شہر کے باہر ہو تو ڈھکن اٹھا کر ان سے پانی حاصل کر سکے۔جب نہر زبیدہ تیار ہو گئی۔ تو وہ انجینئر جو اس عظیم منصوبے کا ذمہ دار تھا اس نے منصوبے کے اخراجات کی فائل تیار کر کے دارلخلافہ بغداد حاضری دی اور ملکہ زبیدہ کے محل میں پہنچا۔ ملکہ زبیدہ اس وقت دریائے دجلہ کے کنارے تفریح کر رہی تھیں۔ اطلاع دی گئی کہ مکہ مکرمہ سے نہر زبیدہ کا حساب لے کر انجینئر حاضر ہوا ہے۔ اسی وقت انجینئر کو طلب کیا گیا۔ اس نے ملکہ کی خدمت میں نہر زبیدہ کے حساب کی فائل پیش کر کے کہا کہ آپ کے حکم کے مطابق مکہ مکرمہ کے گلی گلی کوچے کوچے میں پانی کا انتظام کر دیا گیا ہے۔ اب شہریوں کو اور حج و عمرہ کرنے والوں کو پانی کی کوئی تکلیف نہیں ہو گی۔ یہ اس کا حساب ہے، آپ حساب لے لیجئے۔ ملکہ نے وہ فائل لی، اس پر دستخط کئے اور اس کو درمیان سے چاک کرکے دریائے دجلہ میں ڈال دیا۔ اور وہ تاریخی جملہ کہا جو تاریخ نے اپنی گود میں آج تک محفوظ کیا ہوا ہے۔ ملکہ زبیدہ نے کہا: ترکناالحساب لیوم الحساب یعنیہم نے آخرت کے حساب کے لئے اس کا حساب چھوڑ دیا۔اور کہا کہ: اگر ہماری طرف کوئی حساب نکلتا ہے تو ہم سے لے لو اور اگر ہمارا تمہاری طرف کچھ نکلتا ہے تو ہم نے معاف کر دیا۔نہر زبیدہ 1200 برس تک مشاعر مقدسہ اور مکہ مکرمہ میں پانی کی فراہمی کا بڑا ذریعہ رہی۔ آج کے دور میں ماہر آرکیٹکٹ اور انجینیئر حیران ہیں کہ صدیوں پہلے فراہمی آب کے اس عظیم الشان منصوبے کو کیسے تکمیل تک پہنچایا گیا۔ نہر زبیدہ کا منصوبہ اس وقت کے ماہرین نے 10 سال کے عرصے میں مکمل کیا۔ اس کی کل لمبائی 38 کلومیٹر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس اس عظیم منصوبے پر سترہ لاکھ دینار خرچ ہوئے۔آج اس کاحساب لگایا جائے تو ایک دینار 10 گرام سونے کے برابر ہوگا جو بہت بڑی رقم بنتی ہے۔نہر زبیدہ صدیوں تک مکہ مکرمہ اور مشاعر مقدسہ میں حاجیوں کی پانی کی ضروریات کو پورا کرتی رہی۔ 1950 تک نہر چلتی رہی۔ ایک ملکہ زبیدہ تھیں اور ایک ماضی میں یزید تھا جس نے حضرت امام حسین اور انکے ساتھیوں کا پانی بند کیا تھا۔ آج بھی یزید جیسے لوگ موجود ہیں۔ جنہوں نے غریبوں جانوروں چرند پرند کا پانی بند کیا ہوا ہے۔ یقینا اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔