خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں، تاہم اصل خواب انسان کی زندگی میں وہ ھوتے ہیں جو کھلی آنکھوں سے دیکھے جائیں اور ان کی تعبیر ڈھونڈنے کے لیے پیر فقیر کا سہارا نہیں لیا جاتا بلکہ ”اپنی مدد آپ ” ھی نقظہ آغاز بنتا ہے، جس سے نکلنے والے راستے انسان کو مختلف سمتوں پر چلنے کی خود دعوت دیتے رہتے ہیں، کسی بھی بڑی یا چھوٹی جدوجہد میں، نیت، جہد مسلسل، یقین اور منزل پھر سامنے ھوتی ھے، سرسید احمد خان نے برصغیر کے مسلمانوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کیا اور وہی کاوش پاکستان کی بنیاد بنی تعلیم ھی وہ ھتھیار ھے جس سے آپ معاشرے کو تبدیل کر سکتے ہیں، مجھے یاد ہے ایسا ہی جذبہ محترمہ زاہدہ کا تھا جن کی اس خواہش اور جذبے کو میرے ماموں سردار عبدالعزیز خان تک پہنچانے میں سردار رمضان خان کلپور چھچھری والے نے خصوصی معاونت دی، ماموں سردار عبدالعزیز خان مرحوم تعلیم دوست اور انسانی خدمت کے بڑے داعی تھے،محترمہ زاہدہ حال انگلینڈ جن کا تعلق بنگو آزاد کشمیر سے ھے، نے مسعود ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی بنیاد ڈالنے کی خواہش کا اظہار کیا اور اس کے تحت جدید تعلیمی ادارے کے قیام کا ارادہ کیا، راقم الحروف(محمد خورشید اختر)، سردار رمضان خان صاحب، اور سردار عبدالغفار خان نے مل کر اس پر تحریری اور عملی کام شروع کیا جس کے لیے فاؤنڈیشن اور سکول کے قیام کی مکمل رپورٹ تیار کی، منشور اور روڈ میپ بنایا جس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سردار بشیر صاحب مرحوم المعروف راجہ بشیر صاحب نے بھی بھرپور تعاون فراہم کیا، اور آخر کار زاہدہ باجی کا خواب ان کی عطیہ کی گئی زمین واقع کلپور چھچھری میں سکول کی بنیاد ڈالی دی گئی، تعمیری کام کو بنیاد ضرورت تک رکھ کر تعلیمی سیشن کا آغاز 23 مارچ 2009ء کو کیا گیا، جس کے پہلے دو سیشن بچوں کے انتخاب، سکول کے انتظامی اور تعلیمی نظام کو چلانے کے لیے راقم الحروف اور عبدالغفار خان صاحب، ھمراہ سردار رمضان صاحب وہاں موجود ھوتے تھے، خوشی اس بات کی ہے کہ آج یہ سکول ترقی کرتے ہوئے ایک تناور درخت بن چکا ہے جہاں بہترین تعلیمی سرگرمیاں جاری ہیں، جہاں درجنوں اساتذہ، سینکڑوں طلبہ وطالبات، اور ایک وسیع عمارت موجود ہے، جہاں ذھین اور باصلاحیت بچے مفت تعلیم بھی حاصل کر ریے ہیں اساتذہ اور کمیونٹی اور خصوصاً رمضان خان صاحب کی بھرپور نگرانی میں آج یہ سکول چودہ کمروں، دفاتر، اور بڑے حال پر مشتمل ھے، مسعود ایجوکیشن فاؤنڈیشن اب ایک عملی تحریک تعلیم و تربیت بن چکا ہے جو دنیا اور آخرت کا بہترین سرمایہ ھے، خصوصاً محترمہ زاہدہ اور وہاں کے لوگوں کے لیے یہ ایک بڑا اثاثہ ہے،مسعود ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی اساتذہ باقاعدہ تربیت یافتہ اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ھوتی ھیں، بچوں کی نفسیات، اخلاقی اور تہذیبی تربیت اس میں شامل ھوتی ھے، میری ذاتی تجویز ھے کہ اس سکول و کالج کے ساتھ شام کی کلاسیں ورگنگ ویمن کے لیے شروع کی جائیں تو ھنر مندی اور اخلاقی تربیت اس کا سورس ھونا چاھئے تاکہ ایک اصلاحی معاشرہ تشکیل پا سکے، اس میں ہر مہینے دانشور افراد کے خصوصی لیکچر رکھے جائیں، یہ ایک مکمل تعلیمی اور تربیتی تحریک بن جائے گا، آزاد کشمیر میں چھوٹی صنعتوں کے قیام کے لیے صنعتی سکولوں کا آغاز کیا گیا تھا مگر حکومت کی غیر ضروری مداخلت اور اقربا پروری کی وجہ سے زیادہ کامیابی نہیں مل رہی خود روزگار سکیم کے تحت انہی سکولوں کو جدت دی جائے اور پرائیوٹ سیکٹر کو اس طرف راغب کیا تو روزگار کا ایک بڑا مسئلہ حل ھوسکتا ھے، اس میں زراعت سے متعلقہ تمام شعبوں کی تربیت، کمپیوٹر کی بنیادی ضروریات، مائیں،بہنیں بچوں کو موبائل کی غیر ضروری استعمال سے نکال کر کام کی طرف لانے کی ٹریننگ ھو، ھیلتھ کا شعور اور بیماریوں سے لڑنے کا شعور بھی دیا جا سکتا ہے، سب بڑھ کر کوئی ھنر سیکھا کر خود روزگار کے قابل بنایا جا سکتا ہے، آزاد کشمیر کی خواتین میں تعلیم کا شعور بہت ھے، کام کرنے کا جذبہ بھی موجود ہے اگر اس طرف توجہ دی جائے تو وہ قومی سطح پر ترقی کا بڑا ذریعہ بن سکتیں ہیں، یوں بھی خواتین سیاسی اور سماجی شعور میں ملک کے دیگر حصوں سے بہترین ہیں انہیں اگر مواقع دئیے جائیں تو اس چھوٹے سے خطے کو شاندار بنا سکتی ہیں، بنیادی طور پر مسز زاہدہ بیگم جیسا جذبہ اور قربانی پیدا کرنے کی ضرورت ہے، انہوں نے جس جانفشانی سے اس فاؤنڈیشن کے قیام میں محنت کی، تکلیفیں اٹھائیں، یہ جان جوکھوں کا کام تھا جو انہوں نے ممکن کر کے دکھایا، آپ چین اور یورپ کی ترقی کے پیچھے راز دیکھیں گے تو وہ یہی بنیادی نقظہ ھے کہ سماجی سطح پر صنعت، تعلیم اور شعور کا آغاز تھا چین 1949ء میں آزاد ملک بنا قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں میں 1952ء میں وہاں کے درجنوں دیہاتوں میں گیا خواتین چاندنی آور تانبے کو پگھلانے کے بعد مختلف چیزیں بنا رہی تھیں قومی ترقی میں پورے معاشرے کو اس کا حصہ بننا پڑتا ہے، حکومت کو عوام کی ضرورت ھوتی ھے یہاں ھم حکومت کی طرف دیکھ رہے ھوتے ہیں کمیونٹی ویلفئیر میں بنیادی کردار ہی تعلیم و تربیت آور خصوصا خواتین کی تعلیم ھے، ایک جرمن اسکالر نے کہا تھا ”تم مجھے اچھی مائیں دے دو،میں تمہیں اچھی قوم دونگا” پہلی تربیت گاہ ماں سے شروع ھوتی ھے اگر وہ پرھی لکھی اور باشعور نہیں ھو گی تو کیسے آگے بڑھیں گے، آپ گزشتہ تیس سال سے دیکھیں خواتین تعلیم میں مردوں سے کہیں آگے ہیں، اعلی کارکردگی اور خواتین کے بہترین نتائج نے ایک جنینڈر گیپ پیدا کر دیا، میل افراد کا تعلیم کی طرف، تربیت کی جانب اور کام کے لیے رحجان انتہائی کم ہے کیوں نا لڑکوں کو ٹیکنیکل ایجوکیشن دے کر فعال شہری بنایا جائے، تعلیم اور تربیت کی کم سہولتوں کی وجہ سے بڑی ابادی شہروں کی طرف منتقل ہو رہی جو کہ اچھا قدم نہیں آئے اس سے شہروں پر دباؤ پڑھ رہا ہے اسے روکنا ھوگا اور گاؤں کی سطح پر سہولتیں فراہم کرنی ھوں گی، جیسے مسعود ایجوکیشن فاؤنڈیشن نے نمایاں تعلیمی ادارہ بنایا باقی لوگوں کو بھی اس سے سیکھنا چاہیے اور سب سے پہلے خود عمل کرنا چائیے، آج کلپور سکول کامیابی کے زینے چڑھ رہا ہے، باقی افراد بھی یہ کر سکتے ہیں، زراعت اور سیاحت میں بڑا مارجن موجود ہے ھم اوورسیز کشمیریوں اور صاحب ثروت افراد سے درخواست کرتے ہیں کہ اس کی طرف آئیں اور سکولز،تربییتی اداروں کو فروغ دیں اسی سے یہ قومی خواب پورا ہو گا
0 34 4 minutes read