کالم

قومی و صوبائی اسمبلی کے پر امن انتخاب کا آنکھوں دیکھا حال

کوئی ساڑھے پانچ سال کے بعد پاکستان کے چاروں صوبوں میں قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخاب 8 فروری 2024 کو پر امن انتخاب کرانے کا کریڈٹ یقینا الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں کو جاتا ہے۔ ساتھ ہی 8 فروری کے انتخاب کرانے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ جن کے تاریخی ریمارکس 8 فروری کے الیکشن ”پتھر پر لکیر” اور یہ فیصلہ کہ اگر کوئی بھی پراپیگنڈہ کرے گا تو اسے سزا ملے گی اس کے باوجود سینٹ میں ایک بے مقصد سی قرارداد سینٹ نے الیکشن ملتوی کرنے کی پاس کی۔ ساتھ ہی یہ سازشیں اور شرارتیں جاری رہیں۔ لیکن 8 فروری کو پر امن انتخاب الیکشن کمیشن کے سلطان سکندر راجہ اور حکومت پاکستان کے وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو ہم سلام پیش کرتے ہیں۔ اس دن راقم راجہ رشید خان صحافی اور شیخ جہانزیب کے ہمراہ کے پی کے کے الیکشن کا جائزہ لینے صبح نو بجے مظفرآباد سے روانہ ہوئے اور بقول چینی کہاوت ”سو بار سننے سے ایک بار دیکھ لینا بہتر ہے”۔ اس سفر کی شروعات اس طرح پہلے برار کوٹ KPK کے ایریا میں داخل ہوئے وہاں سے گڑھی حبیب اللہ، بالا کوٹ میں ہم سب سے پہلے سید احمد شہید کے مزار پر گئے جن کی شہادت 6 مئی 1831 بروز جمعة المبارک ہوئی جو بالا کوٹ میں سکھوں سے جہاد کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے ان کا تعلق رائے بریلی یو پی ہندوستان سے تھا۔ ہم نے فاتحہ خوانی کی پھر پولنگ سٹیشن گورنمنٹ بوائز ہائی سکول بالا کوٹ کا وزٹ کیا۔ بالا کوٹ سے براستہ بکریال مانسہرہ، پھر شنکیاری پھر درمیان والے راستہ سے واپس عطر شیشہ یوں درجنوں پولنگ سٹیشن ہاء کا جائزہ لینے کا موقع ملا۔ ان تمام تر سٹیشن ہاء پر پر امن غیر جانبدارانہ، منصفانہ، دوستانہ ماحول میں پولنگ جاری تھی۔ کسی بھی مقام پر ہم نے پولنگ سٹیشن کے باہر نہ کوئی پولیس کا سپاہی دیکھا اور نہ کہیں کسی قسم کا شور و غل تھا۔ لوگ کاروبار بھی کر رہے تھے کچھ بازار بند تھے۔ لیکن ضرورت کے اشیاء اور کھانے پینے کی چیزیں دستیاب تھیں۔ شنکیاری میں ہم بھی یہاں کے مشہور چپل کباب سے مستفید ہوئے۔ اس دن انٹرنیٹ اور موبائل فونز کے سگنل نہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کا کوئی قابل ذکر واقعہ نہیں ہوا۔ ورنہ 7 فروری کو خود کش دھماکوں میں 26 سے زیادہ لوگ جان بحق ہو گئے تھے اور پچاس سے زیادہ زخمی۔ یہ کارروائی زبردست تھی۔ لہذا لوگوں کی کثیر تعداد اپنا حق رائے دہی کے لئے باہر آئی۔ ہم اس اقدام پر متعلقین کو سلام پیش کرتے ہیں۔ جنہوں نے لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس اقدام سے اکثر لوگ خوش دکھائی نہ دیئے لیکن جن کی ذمہ داری تھی انہوں نے بطریق احسن نبھائی۔ اس الیکشن میں پی ٹی آئی کے امیدوار آزاد الیکشن لڑ رہے تھے۔ لیکن انہیں یہ آزادی تھی کہ وہ اپنے انتخابی نشان کے ساتھ تحریک انصاف کے عمران خان کے فوٹو اور کتبے لگا سکیں۔ اس طرح یہ لوگ باہر آئے اور ووٹ کے ذریعے انتقام لیا۔ شنکیاری میں ہم نے بشارت نامی سبزی فروش سے پوچھا جو کہ (ن) کو ووٹ دینا چاہتا تھا۔ کہ ادھر ہر جگہ PTI کے جھنڈے ہیں۔ اس نے کہا یہ افغانی جن کا اپنا ووٹ نہیں ہے۔ وہ یہ کام کرتے ہیں۔ KPK مانسہرہ NA15 سے میاں نواز شریف بھی میدان میں تھے۔ لیکن شاہزادہ گستاسب کے مقابلے میں ہار گئے۔ انہوں نے بھی اپنی شکست تسلیم کرنے کے بجائے درخواست دے دی۔ ہم نے 22 جنوری 2024 کے ٹھاکر سٹیڈیم میں مسلم لیگ (ن) کے نواز شریف کے جلسہ کو بھی پورا دیکھا جو لبالب بھرا بھی ہوا تھا اور چارج بھی تھا۔ اور کالم بھی لکھا۔ اور میاں نواز شریف نے مانسہرہ والوں کے لئے جو اعلان کئے تھے وہ بھی قابل ذکر ہیں۔ اچھا ائیر پورٹ، ٹرین مانسہرہ تک اور وہاں سے مظفرآباد تک پھر موٹر وے براستہ بٹراسی مظفرآباد تک اور براستہ کاغان گلگت تک شوگراں سے مانسہرہ کے لئے پانی لانے کا بڑا منصوبہ تھی تھا۔ محترمہ مریم نواز نے بڑی آس اور امید سے ہندکو زبان میں مانسہرہ والوں سے ووٹ مانگے۔ کہا ”مانسہرہ والیو لوگو ووٹ دیسو” جلسہ فرحت جذبات سے لبریز ہو گیا۔ لیکن ووٹوں کے وقت پیچھے مڑ کر دیکھا ساتھ نہ تھے۔ یہ کیپٹن صفدر اعوان کا حلقہ تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ 100% نواز شریف کی جیت ہے ہمیں ٹرین اور موٹر وے مفت میں مظفرآباد جانے کے خواب آ رہے تھے۔ جو ادھورے رہے۔ نہ تو کیپٹن صفدر کا جادو چلا نہ مریم نواز کو پذیرائی ملی۔ مانسہرہ والو آپ نے یہ کیا کیا؟ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ جذبات کے آڑ میں آپ نے نہ تو کیپٹن صفدر کے مان کا نہ ہی مریم نواز کے مان کا اور نہ ہی میاںنواز شریف کے مان کا خیال رکھا۔ ساتھ چلتے چلتے آپ کدھر غائب ہو جاتے ہیں۔ جب مڑ کر دیکھا تو آپ کہیں نظر نہ آئے۔ اگرچہ مرکز میں کئی چہرے ہار گئے ہیں۔ خرم دستگیر، رانا ثناء اللہ، خواجہ سعد رفیق، عابد شیر علی، جاوید لطیف، برجیس طاہر، میاں نواز شریف مانسہرہ کی سیٹ سے اس طرح کئی اور لوگ بھی ہیں۔ اگر دھاندلی ہوتی جو اتنی بڑی تعداد میں کسی صورت آزاد امیدوار عمران کے حمایت یافتہ جیت نہ سکتے تھے۔ خاص طور پر کے پی کے میں 36 گھنٹے تک رزلٹ مکمل تھے۔ انٹرنیٹ اور موبائل کی بندش درست اقدام تھا۔ اسی لئے دیر ہوئی۔ مسلم لیگ نے جو گزشتہ عرصہ میں مہنگائی میں حکومت کی۔ نقصان ہوا۔ عمران خان کے خلاف جو اقدامات ہوئے اس کا بھی ردعمل تھا۔ مسلم لیگ نے نہ تو بروقت انتخابی مہم چلائی غرور اور تکبر میں یہ سمجھ بیٹھے تھے ہمارے سمیت کے وہ دو تہائی اکثریت سے آئیں گے۔ یہ ایک بڑا دھچکا لگا۔ مسلم لیگ (ن) کو پی پی کے بلاول نے اگرچہ بھرپور انتخابی مہم چلائی وہ کہتے تھے کہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی کا مقابلہ ہے۔ وہ بھول گئے کہ عمران خان کی پارٹی بھی ہے اور ووٹر نکلا اور وہ دعوے اور وہ وعدے ایک طرف رہ گئے۔ اللہ کا شکر ادا کریں کہ الیکشن کا دن پر امن رہا۔ ورنہ خون میں لت پت لوگ بھی باہر نہ نکلتے۔ ہمیں اس بات پر تحفظات ہیںکہ 18 سال ووٹر کی عمر مناسب نہیں سوچنے اور سمجھنے کی یہ (ٹین ایج) مناسب نہیں کم از کم 23 سال کی عمر کے بعد ووٹ کا حقدار ہونا چاہیے تھا۔ لیکن یہ کچی عمر کچی سمجھ جذباتی رجحان کے حامل ووٹر جو انتخاب کریں گے وہ کیسے درست ہو گی؟ 65% یوتھ ہے۔ مسلم لیگ نے امیدواروں کے چنائو میں بھی درست فیصلے نہ کئے۔ جس سے ایسی صورت پیدا ہوئی۔ کمزور لوگوں کو ٹکٹ ملے۔ لیکن باایں ہمہ جس جس پارٹی کو جو ووٹ ملے ہیں وہ غنیمت جانیں۔ تقریباً تمام پارٹیز نے اپنے ووٹوں کا مناسب قائم رکھا۔ اس وقت پاکستان جس معاشی بحران سے گزر رہا ہے اس کا تقاضا ہے کہ میاں محمد نواز شریف جن پر دنیا کے اہم ممالک اعتماد اور اعتبار کرتے ہیں انہیں سامنے لایا جائے۔ جیسا کہ انہوں نے خود کہا کہ سب کو ساتھ لے کر چلیں۔ اگر یہ ملک ہو گا تو سیاست ہو گی۔
یہ ایٹمی پاکستان اس وقت ہر لحاظ سے دشمنوں کے گھیرے میں ہے۔ 2018 کے بعد یہ ملک کساد بازاری کا شکار ہوا۔ مہنگائی نے لوگوں کی کمر توڑ دی۔ نصف آبادی سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ہم سے آگے ہیں۔ اس سال ہم نے ایک بہت بڑی رقم قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کرنی ہے۔ افواج پاکستان ملک میں دہشت گردوں سے مقابلے میں قربانیاں دے رہے ہیں۔ ہندوستان دہشت گردی کروا رہا ہے۔ لیکن ہمیں فخر ہے کہ ہمارا ایٹمی پروگرام محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کچھ اکا دکا دھاندلی کے واقعات ہوئے ہوں گے۔ لیکن کسی منصوبے کے تحت کوئی دھاندلی نہیں تھی۔ اس مرتبہ نگران وزیراعظم اور کابینہ لائق اور بہترین لوگوں پر مشتمل تھی۔ انوار الحق کاکڑ کا کردار ملک کے لئے زبردست رہا۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) سندھ میں پی پی، مظبوط حکومت بنائے گی۔ کے پی کے میں آزاد، بلوچستان میں مخلوط حکومت ہو گی۔ مرکز میں کمزور مخلوط حکومت ہو گی۔ لیکن مہنگائی میں گھرے لوگوں کی دہائی ہے سیاست سے ضروری ایٹمی پاکستان کو بچانا ہو گا۔ خاص طور پر دنیائے اسلام کے لئے لمحہ فکریہ ہے اگر پاکستان کمزور ہوا تو نقصان 57 اسلامی ممالک کو کہیں زیادہ ہو گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button