اردو ادب کی کسی صنف کا مطالعہ کریں تو اس میں کسی نہ کسی طرح قرآن پاک کے اثرات موجود ہیں۔ قصہ باغ داستان الف لیلہ، فسانہ عجائب میں بے شمار ایسے قصے ملیں گے جن میں سورة یوسف، سورة سبائ، سورة نحل ، سورة قصس کے ساتھ حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت کی شان و شوکت، ان کی قوت و جبروت ان کے تخت، ان کی جناب پر حکمرانی اور ان کے الریاح کے معجزے کی بازگشت سنائی دی گی۔ انہیں قصوں سے متاثر ہو کر اردو ادب میں بے شمار تلمیحات اور استعارات مستعمل ہوئے مثلاََ اڑن کھٹولا، اڑن طشتری، تخت سلیمانی، انگشت سیلمانی ، اسم اعظم ، سلیمان ٹوپی ، قصر سلیمانی ، شوکت سلیمانی، حضرت یعقوب السلام اور یوسف علیہ السلام کے واقعات کی وجہ سے ماہ کنعان، چاہ کنعان، چاہ یوسف، حسن یوسف، زندان یوسف، برادران یوسف ، عزیز مصر، پیرکنعان جیسی تلمیحات شعرائے کرام اور افسانہ نگاروں کا موضوع بن گئیں۔یہ ایک اہم موضوع ہے کہ قرآن پاک نے دنیا کے ادبیات کو بالخصوص مسلم معاشرے کے ادب کو کس حد تک متاثر کیا۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ مسلم معاشرے میں اسلامی نکتہ نظر سے زوال آنے کے بعد ادبی تجربات بھی طرح طرح کے رجحانات کے مرکب گئے تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اردو ادب کی کسی بھی صنف میں کام کیا گیا ہو، قرآن حکیم کے اثرات بالواسطہ یا بالوواسطہ شکل میں موجود ہیں۔ زیر نظر مضمون میں اردو کی داستانوں پر قرآن حکیم کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ضمنادیگر اضاف سخن کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔کہانی اور داستان سے دل چسپی انسانی فطرت ہے جب تک انسان سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں داخل نہیں ہوا تھا۔ داستانیں اور قصے کہانیاں اس کے ذوق کی تسکین کا سبب بنی ہوئی تھی۔ اسی تسکین نے اسے آپ بیتی ، جگ بیتی یا قصے دوہرانے پر مجبور کیا یہی قصے کہانیاں اور داستانیں اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان کہ انسان کوئی ایسا خیال سوچ ہی نہیں سکتا ۔جب تک اس کے بارے میں اس نے کہیں سن پڑھ یا دیکھ نہ لیا ہو۔ اب جو ہمارے داستان نویسوں نے یہ ضخیم دفتر داستانوں کا لکھ مارا تو یہ خیالات تصورات انہیں کہاں سے ملے۔ اس کے محرک کیا تھے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ داستانوں کی دنیا ہماری دنیا سے مختلف ہے۔ بل کی عجیب الخلقست ہے ۔ ان کی ہر بات غیر فطری معلوم ہوتی ہے لیکن اس غیر فطری انداز کا ایک ہی محرک ہے اور وہ یہ کہ ان کی مذہبی کتب ، مذہبی عقائد و مذہبی رسومات۔ میری اس بات کو کلیم الدین احمد کی کتاب ، اردو زبان اور فن داستان گوئی، سے تقویت ملتی ہے وہ کہتے ہیں کوئی قصہ یا کہانی خلا میں سانس لے سکتی ہے نہ ہی خلاف میں پیدا ہوتی ہے ان کی اس قوم کی شعوروتخیل سے آب یاری ہوتی ہے اسی آئینہ میں وہ مافوق الطفرت ہسپتال اور وہ مذہبی عقائد بھی اپنی جھلک دکھاتے ہیں جنہیں وہ صحیح سمجھتی تھیں۔ اردو کی اکثر و بیش تر داستانوں میں ہمیں قرآنی قصس کے اثرات کسی نہ کسی طور پر نظر آتے ہیں۔جن لوگوں نے داستانیں پڑھی ہیں وہ اس وصف سے بہ خوبی واقف ہوں گے کہ ہماری نثری داستانوں میں یہ عناصر قدرے مشترک ہیں۔ بل کہ داستانوں کے بعد اب بھی ڈائجسٹوں میں اکثر یہ بازگشت سنائی دیت ہے کہ اور یہ کردار عام ملتے ہیں۔ مثلاََ دیو، بھوت، فن ، پری، جادو گر، سحر ، اسم اعظم ، لشکر سلیمانی ، لوح نقش، قلب ماہیت اور ان کے علاوہ ایسے مرد جو طاقت فہم و فراست ، جرات و ہمت جو محبت و ایثار میں عدیم المثال اور ایسی عورتیں جن کا حسن لازوال ، چندے آفتاب چندے مہتاب ، جان وروں اور پرندوں میں الو ہنس کا جوڑا مچھلیاں ، چنڈال ، بھیڑے ، گیدڑوغیرہ۔ ان کرداروں سے متعلق جب بھی کوئی قصہ پڑھا جاتا ہے تو ہمارا ذہن فوراََ ان ناموں کی طرف جاتا ہے جو ہمیں قرآن مجید میں بکھرے نظر آتے ہیں۔ اور یہ قصے کسی نہ کسی قسم کو سدھارنے اور نصیحت و عبرت کا درس دینے کے لیے قرآن نے بیان کئے ہیں۔ مثلاََ جب کوئی طوطا مینا ، ہنس کا جورایا کوئی اور پرندہ کسی جگہ کا حال بتاتا ہے تو ہمارے ذہن میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے صدیا پیغام پر ہد ہد کا تصور آتا ہے جو حضرت سلیمان علیہ السلام کو دیگر سلطنتوں کا حال آکر بتاتا تھا ملکہ سباء کا مشہور قصہ سورة سباء میں موجود ہے جو قرآن کی ٣٤ویں سورة اور ٢٢ ویں پارے میں ہے رجب علی بیگ سرور کی مشہور داستان فسانہ عجائب میں شہزادہ جان کو شہر رنگار کی ملکہ انجمن آراء زہرہ جبین لندو چین کا حال بتانے والا طوطاہی ہے جس کی وجہ سے شہزادہ اس ملکہ کی تلاش میں تخت و تاج چھوڑ کر دشت اور صحرانووردی کرتا ہے۔اسی بات میں قصہ یوں آگے بڑھتا ہے کہ جب شہزادہ اس جادو گرنی کے ساتھ رہتے رہتے گھبرا جاتا ہے تو نکلنے کی راہ سوچتا ہے ۔ ایک دن موقع پاکر جادو گرنی سے کہتا ہے کہ تہمارے چلے جانے کے بعد مجھے ڈر لگتا ہے کہ کوئی دوسری جادو گرنی مجھے مار نہ ڈالے جادو گرنی نے بہت ہمت دلائی کہ یہ مکان طلسم ہے یہاں پرندہ بھی پر نہیںمار سکتا۔ مگر معا اس کے دل یہ وسوسہ پیدا ہو گیا کہ مباداکوئی اور جادو گرنی شہزادے پر عاشق ہو کر اسے لے اڑے تو وہ اسے کہاں پائے گی۔ ساری محنت ضائع ہو جائے گی۔ انتہائی الفت اور شدت جذبات میں صندوق سے وہ نش سلیمانی نکال کر شہزادے کے بازو پرباندھ دیتی ہے جس کی تلاش اور کوشش میں شہزادہ کافی عرصہ سے سرگرداں اس نقش سیلمانی کی برکت سے شہزادہ جادوگرنی سے نجات حاصل کر لیتا ہے قصے کو اختصار سے بیان کیا ہے۔ فسانہ عجائب میں پڑھ کر قصہ ذہن میں آتا ہے ۔ جس میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی وہ انگوٹھی جس پر اسم اعظم کندہ تھا سی اسم اعظم کی برکت سے حضرت سلیمان علیہ السلام انسان جن حیوانات اور چرند پرند سب پر حکومت کرتے تھے اسی کی برکت سے آپ علیہ السلام کی حکومت مضبوط اور سلطنت وسیع ہو گئی اسی لیے آپ کے دل میں اپنی طاقت و قدرت پر غرور پیدا ہو گی یہ بات خدا کو ناپسند ہوئی نتیجہ یہ ہوا کہ بادشاہ اصمودیس چالا کی سے آپ کی انگوٹھی چرا کر لے گی اور فوراََ آپ کا ہم شکل بن کر تخت نشین ہو گیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام جان بچا کر بھا گے اور فقیری کا بھیس بلد کر اپنا نام قہلت رکھ کر بھیک مانگنے لگے اور آخر کار بادشاہ امون کے باورچی خانے میں نوکری کرلی اتفاقاََ بادشاہ کی لڑکی آپ پر عاشق ہو گئی بادشاہ کو جب معلوم ہوا تو دونوں کو شہر بدر کر دیا۔
یہ دونوں جنگل میں رہنے لگے ۔ اتفاقاََ روز ایک ماہی گیر وہاں سے گزرا شہزادی نے اس سے مچھلی خریدی جب اس کا پیٹ چیرا تو اندرسے وہی انگوٹھی نکلی ۔ سلیمان علیہ السلام پہنچا کر پہن لی اور طرفتہ العین میں بیت المقدس پہنچ کر جنات کے بادشاہ کو قتل کر کے بہ دستور حکومت کرنے لگے۔ قرآن مجید کا مطالعہ کرتے وقت حضرت سلیمان علیہ السلام اور ان کی حکومت سے متعلق واقعات ہمیں سورة بقرة ، سورة انعام سورة انبیاء ، سورة نحل ، سورة سباء اور سورة ص میں ملتے ہیں۔
انگشتری اور شیطان اور سلیمان علیہ السلام کے گھر میں بت پوجے جانے کی روایت یہود کے باطل قصے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصے یہ تلمیحات لی گئیں خلیل اللہ، آتش نمرود ، گلزار ابراہیم گلزار خلیل، ذبح عظیم، حضرت موسیٰ علیہ السلام واقعے سے کلیم اللہ، یدبیضا، عصائے موسیٰ یا عصائے کلیم، موسیٰ علیہ السلام کا بے ہوش کر گر پڑنا، کوہ طور، تجلی طور، شعلہ طوروغیرہ وغیرہ ۔ اس کے علاوہ بے شمار قرآنی محاورات ہیں۔ جو آج اردو اورفارسی میں مستعمل ہیں۔ ڈاکٹر غلام مصطفی خان کی کتاب اردو میں قرآنی محاورات میں بڑی وضاحت سے اس کی تفصیل موجود ہے۔ اردو میں صمم بکمم محاورہ بن گیا ہے اور دلوں پر پردہ پڑجانا، عقل پر پردہ پڑ جانا، آنکھوں پر پردہ پڑ جانا بھی محاورہ بولا جاتا ہے زیادہ دورانہ جائیے بسم اللہ ہی کو لیجئے کس قدر اردو میں مستعمل ہے کہ ہر کام کا آغاز بسم اللہ سے کیا جائے ۔
0 37 6 minutes read