پاکستانتازہ ترین

جیت کے باوجود آزاد امیدواروں کو قانونی اور آئینی چیلنجز کا سامنا

اسلام آباد:قانونی و آئینی ماہرین نے کہا ہے کہ عام انتخابات میں نشستیں جیتنے کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو حکومت بنانے کے لیے قانونی اور آئینی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سینئر قانونی اور آئینی ماہر ایڈوکیٹ سید نعمان بخاری نے ہفتہ کو’’ اخبار حق ‘‘کو بتایا کہ قانون کے تحت انتخابات جیتنے کے بعد آزاد امیدواروں کو ایک مقررہ مدت کے اندر کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا اور حکومت بنانا ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ 2018 کے انتخابات میں کے پی اسمبلی کے متعدد آزاد امیدواروں نے بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور پی ٹی آئی کی مخلوط حکومت میں شمولیت اختیار کی۔ نعمان بخاری نے کہا کہ خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کے علاوہ دیگر مراعات و استحقاق کے حصول کے لیے آزاد امیدواروں کی سیاسی جماعت میں شمولیت قانونی تقاضا ہے۔ دریں اثنا پی ٹی آئی کے رہنما تیمور سلیم جھگڑا نے صحافیوں کو بتایا کہ قانونی اور آئینی رکاوٹوں سمیت تمام معاملات پر مشاورت شروع کردی گئی ہے اور تمام فیصلے سیاسی قیادت کی مشاورت سے کیے جائیں گے۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے پشاور، نوشہرہ، ایبٹ آباد، سوات، چارسدہ، صوابی، چترال، بنوں، مہمند، خیبر اور مردان سے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ پشاور میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے قومی اسمبلی کی پانچ میں سے چار اور صوبائی اسمبلی کی13 میں سے چھ نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ این اے ۔23 نوشہرہ 1 سے پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کے چیئرمین پرویز خٹک، خیبر پختونخوا مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری اطلاعات اختیار ولی خان، سوات میں سابق وزیر ماحولیات واجد علی خان اور جماعت اسلامی کے مرکزی امیر مولانا سراج الحق الیکشن ہارنے والے اہم رہنمائوں میں شامل ہیں۔ پشاور یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر اے ایچ ہلالی نے ’’اے پی پی ‘‘کو بتایا کہ 2024 کے انتخابات میں ووٹروں کی بڑی تعداد کی شرکت انتخابی عمل پر عوام کے غیر متزلزل اعتماد کا عکاس ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2024 کے انتخابات کے نتائج ملک میں متنوع سیاست اور تکثیریت کی عکاسی کرتے ہیں جس کی نمائندگی تمام جمہوری قوتوں کی ایک متحدہ حکومت کرے گی جس کا قومی مقصد ملک کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر آگے لے جانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات کا مقصد ہار جیت نہیں ہوتا بلکہ عوام کے مینڈیٹ کا تعین کرنے ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی قیادت اور ان کے کارکنوں کو اپنے مفادات سے بالا تر ہو کر عوام کی حکمرانی اور خدمت کے لئے کوششوں میں ہم آہنگی پیدا کرنی چاہئے جو شاید جمہوریت کو فعال اور بامقصد بنانے کا واحد راستہ ہے۔ پروفیسر ایچ اے ہلالی نے کہا کہ 2024 کے انتخابات میں نوجوان رائے دہندگان نے امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button