کالم

مقبول بٹ شہید کون تھے ،مت سمجھو ہم نے بھلا دیا

مقبول بٹ شہید ریاست جموں کشمیر میں بغاوت کی علامت کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی زندگی کا زیادہ تر حصہ غلامی اور استحصال کے خلاف جدوجہد میں گزرا۔ اس جدوجہد کے دوران مقبول بٹ نے بے شمار مشکلات اور مصائب کا سامنا کیا لیکن جبر کا کوئی بھی طریقہ انکے آزادی اور انقلاب پر یقین کو متزلزل نہیں کر سکا۔ آج جب قابض قوتوں کی جانب سے مقبول بٹ کے نظریات اور کردار کو مسخ کرنے کی بھر پور کوشش کی جا رہی ہے تو ان کے حقیقی نظریات کو انکے اپنے عدالتی بیانات کی روشنی میں بآسانی سمجھا جا سکتا ہے جو انہوں نے ”گنگا ہائی جیک کیس” کے دوران عدالت میں دیے تھے۔ جموں کشمیر پر قابض برطانوی سامراج کی تخلیق کردہ ریاستوں نے مقبول بٹ کو ایک دوسرے کا ایجنٹ اور انکی جدوجہد کو سازش کا رنگ دے کر بدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ مقبول بٹ شہید اپنے اوپر لگائے گئے الزامات پر کہتے ہیں:”میرے نزدیک یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ تاریخ کے ہر دور میں استحصال اور غلامی کے خلاف جب بھی کوئی تحریک شروع کی گئی اسے دبانے کے لیے اقتدار اور اختیار پر قابض حکمرانوں نے ہمیشہ قانون کی لغت”سازش” کا سہارا لیا ہے۔ مگر یہ حقیقت اپنی جگہ پر قائم ہے کہ ظالم اور مظلوم کی جنگ میں فتح مظلوم کی ہوتی ہے اور ظلم کی عمارت مظلوم عوام کی انقلابی جدوجہد کے مقابلے میں دھڑام سے زمین بوس ہوتی ہے۔ میں نے ہمیشہ خود ستائی سے نفرت کی ہے۔ اب جبکہ میرے بے باک کردار کو غلط رنگ دینے کی دانستہ کوشش کی جا رہی ہے تو مجھے یہ دعویٰ کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے کہ میں نے زندگی کے ہر موڑ پر حق و انصاف کا ساتھ دیا ہے اور ظلم و استحصال کے خلاف مصروفِ جنگ عوام کی نہ صرف حمایت کی ہے بلکہ اس جنگ میں’میں مظلوم عوام کا نقیب اور مدعی رہا ہوں۔”مقبول بٹ کو دونوں ریاستوں کی جانب سے سرینگر کے مہتاب باغ، مظفرآباد کے دلائی کیمپ اور لاہور کے بدنام زمانہ شاہی قلعہ میں پابند سلاسل کیا گیااور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ لیکن انہوں نے جس راستے کا انتخاب کیا تھا اس میں پیش آنے والی مشکلات سے بخوبی آگاہ تھے اور ایک سچے انقلابی کی طرح اس جبر کا ظالم اور جابر قوتوں سے گلہ کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔ اس حوالے سے مقبول بٹ لکھتے ہیں: ”یقیناً یہ بات حریت پسندوں کے شایان شان نہیں کہ وہ راہ عمل میں پیش آنے والی مشکلات اور آزمائشوں کے بارے میں گلہ گزار ہوں۔ حق تو یہ ہے کہ آزمائشوں کے یہ دور حریت پسندانہ زندگی کا لازمہ ہوتے ہیں اور انہیں خندہ پیشانی سے گلے لگانہ ہی انقلابیوں کا شیوہ ہوتا ہے۔ آزمائش، آلام اور صعوبتیں اس صورت حالات کا ایک حصہ ہوتی ہیں جن سے حریت پسندوں کا ہر وقت سامنا رہتا ہے۔ حریت پسندانہ سرگرمیوں کی پاداش میں ان ابتلاؤں کے علاوہ ایک اور کٹھن مرحلہ سے بھی واسطہ پڑتا ہے جسے عرف عام میں تشدد کہا جاتا ہے۔اس راستے کے مسافر کو زندگی کے ہر موڑ پر آزمائشوں اور امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے۔”آزادی اور انقلاب جیسے عظیم مقصد کے حصول کی جدوجہد نے مقبول بٹ کو وہ حوصلہ اور جرأت فراہم کی کہ ہر موقع پر انہوں نے جھکنے اور بکنے سے انکار کیا۔ مقبول بٹ نے مقدمات کی سماعت کے دوران اپنی جدوجہد کے مقاصد کو بے باکی سے بیان کیا ہے اور جابر طبقات کی نمائندہ ریاستوں سے زندگی کی بھیک مانگنے سے انکار کیا ہے۔ مقبول بٹ کٹہرے میں کھڑے ہو کر حکمران طبقات کے تابع اداروں کے تاریخی طبقاتی کردار کو گنگا ہائی جیک کیس میں یوں بیان کرتے ہیں: ”پاکستان کی افسر شاہی کے’مقدمہ ساز ذہنوں’ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس امر سے قطع نظر کہ اس مقدمے کے انجام کے طور پر میرے اور میرے ساتھیوں کا مقدر خواہ کچھ بھی کیوں نہ ہو، جس اصل مقصد کو وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اس میں سوائے رسوئی اور ناکامی کے انہیں کچھ نہیں ملے گا۔ آزادی کی تحریکوں کو عدالتی فیصلوں کی مدد سے اگر روکا جاسکتا تو کوئی بھی تحریک فتح یاب نہ ہو سکتی۔ اگر انسانی تہذیب و تمدن اور جمہوریت و آزادی کے ارتقا کو مروجہ عدالتی یا انتظامی کارروائیوں سے ختم کرنا ممکن ہوتا تو آفرینش آدم سے لے کر اب تک دنیا میں جتنے انقلاب آئے ہیں ان کا وجود تک نہ ہوتا۔ انسانی فلاح و آزادی کی تحریکوں سے متعلق فیصلے مروجہ عدالتوں میں نہیں بلکہ خود تاریخ کے ارتقائی عمل کی عدالت میں کیے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ مروجہ عدالتیں بجائے خود اس نظام کی مرہون منت ہوتی ہیں جسے بدلنے کے لیے یہ تحریکیں جنم لیتی اور پروان چڑھتی ہیں۔مجھے اس امر کا بخوبی احساس ہے کہ یہ عدالت اس مقدمے کے سلسلے میں میرے متعلق خواہ کیسا ہی فیصلہ کیوں نہ دے، بہرحال میری ذات کے ساتھ انصاف نہیں ہو سکتا۔ میرے خلاف جو الزامات عائد کیے گئے ہیں ان کی حقیقت اس وقت تک منکشف نہیں ہو سکتی جب تک میرا وطن جنگ بندی کی منحوس لکیر کے باعث دو نا قابلِ عبور حصوں میں منقسم رہے گا۔ اور مجھے یقین ہے ہمارے سینوں پر کھینچی گئی یہ منحوس لکیر مٹ کر رہے گی۔ میرے ساتھ صرف اس وقت انصاف ہو گا۔یہ انصاف تاریخ کی عدالت میں ہو گا۔ مجھ پر عائد کیا جانے والا ہندوستانی قابض حکام کا یہ الزام بھی غلط ثابت ہو گا کہ میں نے پاکستانی ایجنٹ بن کر بھارتی مقبوضہ کشمیر میں حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کی تکمیل کے لیے وہاں قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا بازار گرم کیا اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا یہ الزام بھی بے بنیاد ثابت ہو گا کہ میں نے ہائی جیکنگ جیسا حریت پسندانہ آپریشن ہندوستانی ایجنٹ بن کرکیا۔”جبر و تشدد اور قید و بند کی صعوبتیں بھی جب مقبول بٹ شہید کو اپنے مقاصد سے پیچھے ہٹانے میں ناکام رہے تو 11 فروری 1984ء کو مقبول احمد بٹ کو دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ مقبول بٹ سزائے موت کا اعلان ہونے کے باوجود آزادی کی تحریک کی کامیابی پر کامل یقین رکھتے تھے۔ پھانسی سے چند روز قبل ایک ہندوستانی صحافی نے مقبول بٹ سے سوال کیاکہ”کیا آپ کو آج پچھتاوا نہیں ہو رہا؟ کچھ دنوں بعد آپ کو سزائے موت دے دی جائے گی اور آپ کی زندگی میں آپ کی تحریک کوکوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی…” اس سوال کے جواب میں مقبول بٹ نے کہا: ”اگر زندگی میں تحریک کی کامیابی نہ ملنے کی صورت میں جدوجہد رائیگاں جاتی تو کارل مارکس اور یسوع مسیح کا شمار دنیا کے ناکام افراد میں ہوتا۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ میرے لیے سوائے اس کے فی الوقت اور کوئی راستہ نہیں کہ خود کو وقت کے بے رحم ہاتھوں کے سپرد کردوں اور اس موقع کا انتظار کروں جب تعصب، بدنیتی، ظلم، استحصال اور مکروفریب کے بادل چھٹ جائیں گے اور حق و انصاف کی روشنی عام ہو جائے گی۔”مقبول بٹ کے نظریات غیر مبہم اور واضح ہیں کہ وہ ہر قسم کے ظلم، استحصال اور محرومیوں کے خلاف جنگ کو اپنا فرض سمجھتے ہیں اور ہر استحصالی قوت کو اپنا دشمن تصور کرتے ہیں۔ لیکن آج مقبول بٹ کی جدوجہد کے دعویدار مقبول بٹ کے دشمنوں کے ساتھ اتحاد میں پاکستانی حکمران طبقات کی سامراجی جنگ کے ایندھن کے طور پر معصوم لوگوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ مقبول بٹ شہید سامراجی ساز باز اور امداد سے آزادی کی جدوجہد کو حکمران طبقات کا آلہ کار بننا تصور کرتے تھے اور عوامی جدوجہد اور طاقت پر یقین رکھتے تھے۔ وہ سازشوں کے ذریعے سیاسی تبدیلی کے خواہاں نہیں تھے بلکہ انقلابی تبدیلی کے مجاہد تھے۔ اپنے عدالتی بیان میں اس حوالے سے مقبول بٹ لکھتے ہیں: ”سرمایہ دارانہ استعماری نظام کا پروردہ پاکستانی حکمران طبقہ جس کی نمائندگی اس ملک کی افسر شاہی سر انجام دیتی رہی ہے
، نے ملکی وسائل پر اوچھے طریقوں سے قبضہ کر کے نہ صرف اس میں بسنے والے تیرہ کروڑ انسانوں کو طویل عرصے تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھا بلکہ اپنی بساط اور اقتدار کو سہارا دینے کے لیے سازشی عمل میں اس کے وجود کو ہی داو پر لگایا۔یہ حاکمیت ایسی قوم کی دوست اور خیر خواہ کیونکر ثابت ہو سکتی ہے جو ہنوز غلامی سے چھٹکارا پانے کے لئے مصروف جنگ ہو؟ جو اپنے عوام سے ہی دشمنی اور غداری کی مرتکب ہوئی ہے۔ مجھے یہ بات کہنے سے کوئی نہیں روک سکتا کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے پچیس برس کے دوران ہر مرحلے پر ”آزادی کشمیر” کے مسئلہ کو اپنی ہوس اقتدار کے مقصد کے لیے استعمال کیا اور ملک کے کروڑوں عوام جنہیں کشمیر کی آزادی سے سچی لگن تھی اور اب بھی ہے، کے معصوم جذبات کو نا جائز طور پر استعمال کیا ہے۔ ان سازشوں نے ہماری تحریک آزادی کو صدیوں نہیں تو برسوں پیچھے ضرور دھکیلا۔’قائرین کرام میں اس شخصیت کا زکر کرنے جا رہا ہوں جس کے لیے دنیا آج بھی روتی ہے،آزادی کی فضاء آج بھی افسردہ ہے،آزادی کے متوالے آج بھی ان کی یاد میں شمع روشن کیے ہوئے ہیں،کشمیری نوجوانوں نے اپنے محبوب قائد کے نظریات افکار کے لیے جانوں کا نظرانہ پیش کردیا مگر وہ ابھی تکاآزادی کے اعظیم مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے ،پورے کشمیری کا صرف ایک ہی نعرہ ہے مقبول بٹ ہمارا ہے ،اس کو کس جرم میں پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا کشمیری عوام آج بھی یہ سوال کرتی ہے ،قابضین آج بھی شرمندہ ہیں مقبول بٹ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا چلتے ہیں ان کی زندگی کی کچھ پہلو پر نظر ڈالتے ہیں 11فروری 1938کو ریاست جموں کشمیر کے بھارتی مقبوضہ علاقہ کے ضلع کپواڑہ کی تحصیل ہندواڑہ کے ایک گاؤں تریگام میں ایک مضنت پیشہ افراد غلام قادر بٹ کے ہاں ایک خوبصورت نقش نگار ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام مقبول رکھا گیا اس وقت کسی کو نہیں پتہ تھا کہ یہ عوام میں اتنا مقبول ہو جائے گا کہ دنیا بھر کے آزادی پسند ،غیرت مند،اور محب وطن لوگ اس بچے کو اپنا رول ماڈل بنانے پر فخر محسوس کریں گے۔مقبول بٹ شہید کی زندگی کے چند پہلو پر نظر ڈالتے ہیں 1958میں اپنے چاچا عبدالعزیز بٹ کے ہمراہ جنگ بند ی لائن عبور کر کے آزاد کشمیر میں داخل ہوئے تانکہ وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کا شوق پورا کرسکیں،سیز فائر لائن کراس کرنے وہاں پر کھڑے پاکستانی فوجی دستوں نے انہیں گرفتار کرتے ہوئے پوچھ گچھ کے لیے مظفرآباد قلعے میں منتقل کردیا جہاں سے رہائی کے بعد مقبول بٹ پشاور جا کر سکونت پذیر ہوئے محبت خان نامی ایک کشمیری کی کاوش سے انہیں پشاور یونیورسٹی میں ایم اے میں داخلہ مل گیا حصول تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ اپنے تعلیمی و دیگر اخراجات پورے کرنے کے لیے پشاور سے شائع ہونے والے ایک اخبار میں بھی کام کرتے رہے اسی دوران انہوں نے ایک ہفت روزہ رسالہ کی اشاعت بھی شروع کی لیکن مالی وسائل نہ وہنے کی وجہ سے اشاعت روک گئی،پشاور یونیورسٹی سے وہ ایم اے اردو اور ایم صحافت کی ڈگریاں لینے میں کامیاب رہے۔1961میں مقبول بٹ شہید نے راہ بیگم نامی خاتون سے شادی کی جن کے بطن سے دو بیٹے جاوید مقبول اور شوکت مقبول نے جنم لیا ازاں بعد 1965میں انہوںنے ایک سکول معلمہ ذاکرہ بیگم سے شادی کی جن سے ایک بٹی پید ا ہوئی ۔1960مقبول بٹ شہید نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا آبائی علاقہ سے سینکڑوں میل دور اور حد متارکہ جنگ سے اس پار ہونے کے باوجود آپ نے کامیابی حاصل کی جو مقبول بٹ کی فکر اور نظریہ کا مقبول آئینہ ثابت ہوا ۔1965میں مقبول بٹ شہید نے اپنے ہم خیال ساتھیوں سے ملکر معاز رائے شماری کے نام سے ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی اپریل 1965کو سیالاکوٹ کے مقام پر معاذ کا پہلا کنونشن منعقد ہوا جس میں مقبول بٹ معاذ کے پبلی سیٹی سیکرٹری منتخب ہوئے کنونشن کے احتتام پر معاذ کے مرکزی عہدیداروں نے سیالکوٹ اور جموں کے درمیان واقع سوچیت گڑھ کے محاذ پر جا کر مقبوضہ کشمیر کی مٹی ہاتھ میں اٹاتے ہوے مادر وطن سے حلف وعدہ کیا کہ وہ مادر وطن کی آزادی و خودمختاری کے لیے جان کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کریں گے ۔1965کو مقبول بٹ نے اپنے ایک تحریکی دوست امان اللہ خان جن کا تعلق گلگت بلتستان کے علاقہ استور سے تھا سے ملکر محاذ رائے شماری کے ایک خفیہ عسکری ونگ کی بنیاد رکھی جس کے قیام مقصد یہ تھا کہ کشمیر نوجوانوں کو عسکری گوریلا تربیت دے کر جموں کشمیر کی آزادی کی خاطر قابض بھارتی افواج کے خلا لڑنے کے لیے تیا ر کیا جائے۔1966میں بھارت کے خلاف گوریلا جنگ کا آغاز کرنے کے لیے اپنے چند ساتھیوں جن میں میجر امان اللہ خان،اورنگزیب اور صوبیدار کالا خان بھی شامل تھے کے ہراہ جنگ بندی لائن عبور کرکے وادی کشمیر میں داخل ہوگئے کشمیر میں داخل ہونے کے بعد کم و پیش تین ماہ مقبول بٹ شہید اور ان کے ساتھی خفیہ طور پر تنظیم سازی کرتے رہے اور نوجوانوں کو وطن کے لیے میدان عمل میں اترنے کی دعوت دیتے رہے اس دوران انڈین قابض فورسز کے خلاف ایک معرکہ میں وہ اپنے ساتھیوں سمیت گرفتار ہو گئے جب کہ ان کے ساتھ جانے والے گلگت کے ساتھی محترمہ اورنگزیب شہید ہوگئے گرفتاری کے بعد مقبول بٹ اور ان کے ساتھیوں کوبغاوت پھیلانے کے جرم میں مقدمات قائم کرتے ہوئے سنٹرل جیل سرینگر میں پابند سلاسل کر دیاگیا اور پراسیکیوشن کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے مقدمہ ہائیکورٹ تک پہنچ گیا کشمیر ہائی کورٹ کے ایک ہندوجج نے آزادی کی جدوجہد کرنے والے عظیم لیڈر کو باغی اور غدار قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنا دی،مقبول بٹ شہید نے سزا موت سنانے والے جج کو عدالت کے کٹہر ے میں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ جج صاحب ابھی وہ رسی تیار نہیں ہوئی جو مقبول بٹ کے لیے پھانسی کا پھندہ بن سکے وہ سزا موت کا فیصلہ سننے سے قبل ہی جیل سے فرار کے منصوبے پر غور وفکر کررہے تھے لیکن سزا موت سننے کے بعد انہوں نے فرار کے منصوبہ کو حتمی شکل دینے کا فیصلہ کر لیا چنانچہ 09دسمبر 1968میں اپنے ساتھیوں میر احمد اور چوہدری یاسین کے ہمراہ سرینگر جیل میں سرنگ لگا کر راہ فرار اختیار کی اور کئی روز تک برف پوش پہاڑوں کو عبور کرنے کے بعد قاضی ناگ چھم کے راستے آزاد کشمیر کے حدود میں داخل ایجنسیوں نے انہیں گرفتار کر لیا اور بھارتی ایجنٹ ہونے کا الزام لگا کر مظفرآباد کے قلعہ میں قید کر دیا اس قلوہ میں مقبول بت اور ان کے ساتھیوں کو بدترین ازیتیں دی گئی لیکن راہ آزادی کے ان متوالوں کے حوصلے پست نہ ہوئے کچھ عرصہ تشدد سے گزرنے کے بعد انہیں رہائی ملی توپھر تحریک آزادی کے لیے سرگرم عمل ہوئے سال 1969میں آپ کو محاذ رائے شماری کا مرکزی صدر منتخب کیا گیا ۔1976میں مقبول بٹ نے اپنے دو ساتھیوں ریاض بٹ اور حمید ڈار کے ہمراہ ایک بار پھر جنگ بندی لائن توڑتے ہوئے وادی کشمیر میں داخل ہو گئے جہاں وہ ایک معرکہ میں گرفتار ہوگئے گرفتاری کے کچھ عرصہ بعد انہیں کشمیر سے تہاڑ جیل دہلی میں منتقل کر دیا گیا جہاں عدالتی ٹرائل میں بھارتی سپریم کورٹے نے ہائی کورٹ سرینگر کے ہندوجج کی طرف سے دی گئی سزا کا فیصلہ بحال رکھا 06فروری 1984کو لندن میں بھارتی سفارتحانے کے ایک اہلکار ریوندرہ مہاترے کو کشمیر لبریشن فرنٹ نامی آرمی کی ایک خفیہ تنظیم نے اغواء کر لیا اغواء کاروں نے 24گھنٹوں کے اندر اندر امقبول بٹ ،حمید بٹ،ریاض ڈار و دیگر کشمیری حریت پسندوں کو رہا کرنے کا مطالبہ جب بھارتی حکومت نے ان کا مطالبہ نہ سنا تو اغواء کاروں نے مہاترے کو قتل کردیا ،مہاترے کے قتل ہونے کے بعد بھارتی حکومت نے مقبول بٹ کو پھانسی دینے کا اعلان کردیا ،مقبول بٹ کو سزا موت سے بچانے کے لیے کشمیریوں نے بہت کوشش کی لیکن بھارتی حکومت اپنے فیصلے پرکاربند رہتے ہوئے آزادی کی شمع روشن کرنے والے مقبول بٹ کو 11فروری 1984کو شہید کردیا اور مقبول بٹ کی جسد خاکی ان کے ورثاء کو دینے سے انکار کردیا مسلمان قیدیوں نے انہیں تہاڑ جیل دہلی کے احاطہ میں انہیں دفن کردیا ،دوستوں مقبول بٹ شہید کو تحریک آزادی میںجو اعلیٰ مقام حاصل ہے وہ کسی اور کے پاس نہیں ،مقبول بٹ کی شہادت نے کشمیریوں کو جو نیا عزم و حوصلہ دیا اس کے سامنے خطہ کی ایٹمی طاقتیں بھی اج تک خوف زدہ ہیں ”جناب اعلیٰ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے محبوب قائد جنہوں نے اپنی جان کی پرواہ نہیں کی بلکہ کشمیری قوم کو اپنی پہچان ،الگ ریاست کا قیام کے لیے جید مسلسل میں رہے لیکن ہماری آزاد کشمیر کی حکومتیں ان کا جسد خاکی بھارت سے ابھی تک نہیں لے سکی یہ ہمارے لیے انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ تحریک آزادی کے نام پر بننے والے حکومت سے یہ کام بھی سر انجام نہیں ہوسکا ،ہم یہ چاہتے ہیں کہ حکومت پاکستان جو ہمارے وکالت کا دعویٰ دار ہیں اور حکومت آزاد کشمیر بھارت سے مزاکرات کر کے ہمارے قائد مرد مجاہد ،شہید کشمیر مقبول بٹ کی جسد خاکی کشمیری قوم کے حوالے کروائیں ” ،قائرین کرام اگر ہمیں آزادی حاصل کرنی ہو گی تو ہم کو مقبول بٹ کے راستے کا تعین کرنا ہوگا نوجوانوں کو یہ غیر ریاستی جماعتوں کے نعرہ بازی سے ہٹ کر اپنی ریاست کے لیے یک جاں ہونا ہوگا تب جا کر ہمیں آزادی حاصل ہو گی ۔اللہ تبارک تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مقبول بٹ شہید کے درجات بلند فرمائیں اور ریاست جموں کشمیر کی آزادی ہم سب کو نصیب فرمائے آپ سے بھی مقبول بٹ شہید کی مغفرت کے لیے دعا کریں فی امان اللہ

نہ سر جھکا کے جیئے نہ منہ چھپا کے جیئے ستم گر کی نظروں سے نظریں ملا کے جیئے
ہم اگر دودن کم جیئے تو اس میں حیرت کیا ہم ان کے ساتھ جیئے جو شمع جلا کیے جیئے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button