
قارئین محترم! مقبول احمد بٹ نے جیل سے وزارت اعلیٰ کی کرسی کو ٹھوکر ماری تو اسے اس پاداش میں شہید کر دیا گیا،جب کہ دوسری جانب شیخ عبداللہ کوئی معمولی آدمی نہیں تھے انہوں نے بھی کشمیر کے لئے بے پناہ قربانیاں دیں ،جب قبائلیوں نے سری نگر کی جانب حملہ شروع کر دیا تو اس وقت ہندوستان نے کشمیر کھو جانے کے ڈر سے جیل میں قید حریت پسند شیخ عبداللہ کو کشمیر کا گورنر بنانے کا عندیہ دیا تو شیخ عبداللہ نے بخوشی اسے قبول کر لیا۔ تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی آج بھی مقبول احمد بٹ کا نام سن کر دل میں عجیب سی فرحت محسوس ہوتی ہے جبکہ شیخ عبداللہ بھی اسی راہ کا مسافر تھا جب بھٹکا تو غدار وطن کہلایا۔میں مقبول احمد بٹ پر لکھنے سے پہلے معمولی سی تمہید باندھوں گا۔کیا بیتی آزادی کے دیوانے پر پہلی سانس سے تختہ دار تک اس پر ظلم ہوتے رہے۔فروری 1938کا ایک سرد دن تھا ،اور ایک گمنام گائوں جس کا نام تریہگام تھا۔اس دن سے پہلے شائد لوگوں نے یہ نام کبھی بھی سنا نہ ہو۔بس پٹواری کے لٹھے پر ایک عام سا گائوں تھا۔یہ 18 فروری 1938 چھ بجے سے پہلی بات ہے۔آج 18فروری کا سورج کچھ زیادہ ہی آب و تاب سے چمک رہا تھا۔آج کی سردی بھی رگوں میں خون جمانے کے بجائے خون گرم رہی تھی۔گائوں کی مٹی کا زرہ زرہ آج محو رقص تھا۔ہوا کچھ زیادہ ہی جھوم کہ چل رہی تھی۔چھوٹے چھوٹے درخت بھی ہوا کے ساتھ لہرا لہرا کہ سرد مزاج لوگوں کو بتا رہے تھے ،کہ آج کا دن کچھ خاص اہمیت کا حامل ہے۔آج تریہگام کے پٹواری کا لٹھ بھی آڑی ترچھی لکیروں تک محدود نہیں رہا،بلکہ ریاست بھر کے لئے فخر بن کے رہے گا۔آج سری نگر اور جموں کشمیر کے مشہور تاریخی مقامات بھی تریہگام کو جھک کہ سلام کر رہے ہیں۔گلمرگ کے پھول بھی اپنے رنگ و خوشبو کو بھول کر تریہگام کو سلام کر رہے ہیں۔پیر پنجال اور کوہ ہمالیہ کے آسمان سے مصاحفہ کرتے پہاڑ بھی آج تریہگام کو سلام کر رہے ہیں۔آخر کیوں نہ کریں کئی سالہ پرانی سیاسی و سماجی دھرتی سے آج ایک عظیم سپوت جنم لینے والا ہے۔تریہگام کا ذرہ ذرہ آج نہال کیوں نہ ہو۔آج کیوں چیخ چیخ کہ ہمالہ کو نہ بتائے کہ تیرا نام بلند کرنے والا میرے بطن سے پیدا ہو رہا ہے۔سری نگر کے بدبو دار غلامی کے لباس سے نجات دلانے والا آج جنم لے رہا ہے۔آج اس گائوں کا ذرہ ذرہ پکار پکار کہ بتانا چاہتا ہے کہ بطل حریت مقبول بٹ میری کھوکھ سے جنم لے کرنسل نو کے اندر کشمیریوں کے اندر آزادی کا جنون پیدا کرنے آ گیا ہے۔کشمیر کا ہر حصہ فخر محسوس کر رہا ہے۔ وجدان بتا رہا ہے کہ یہ فرزند کشمیر ہی کل کو فخر کشمیر بنے گا۔مقبول بٹ نے بچپن ہی سے تفریق کا سبق پڑھا اور پڑ ھانا شرعوع کر دیا تھا۔متانت اور سنجیدگی کا پیکر یہ بچہ اپنے گائوں سے بارہ مولا کے سکول میں پہنچا تو اپنی قائدانہ شخصیت سے اساتذہ کو گرویدہ بنا لیا۔اور ہر عمر کے طلبہ میں ایک منفرد مقام حاصل کیا۔یہ وہ دور تھا جب برصغیر کی تاریخ آزادی کے مختلف ادوار سے گزر کر کامیابی سے ہمکنار ہو رہی تھی۔سیاسی اعتبار سے اس وقت برصغیر کے لوگوں میں جوش و ولولہ پایا جاتا تھا۔ایسے حالات میں قائد کشمیر مقبول بٹ کو یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کو ملا۔ساتھ ہی ان کی طالب علمی کے زمانے میں عظیم ترین جنگوں اور تحاریک سے اپنے نقوش وضح کر رہی تھیں۔قومیں دنیا کے نقشے پر ابھر رہی تھی او بکھر رہی تھی۔جنگ عظیم دوئم ،فلسطین کی جنگ اور پاک اسرائیل اختلافات،چین کے افیون میں مدہوش لوگ،روس کا عالمی طاقت بننا،امریکہ کا معاشی اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں جھنڈے گاڑھنا،یہ سب انقلاب کے نتائج ان کے زمانہ طالب علمی میں واضح ہونا شروع ہو گئے تھے۔ایسے میں ارض وطن جو دو ہزار سال پرانی تاریخ کی اہمیت کی حامل تھی،اس کو دو نوزائیدہ ملکوں کے درمیان وجہ تنازعہ بنا کہ او الحاق کے بے بنیاد نعرے لگا کہاور معروضی حالات کا شکار کر کہ عبرت ناک مثال بنا دیا۔یہ سب پنجہ استبداد بہت مہارت سے کر رہا تھا۔اور عام کشمیریوں کو کنفیوز کر کہ کشمیری سے ہندو کشمیری اور مسلم کشمیری میں تقسیم کر دیا گیا۔لیکن مقبول بٹ ہر لمحہ کی قومی غلطی کو محسوس کر رہے تھے۔اور ساتھ نئی نئی قوموں اور صدیوں پرانی قوم کا دکھ بھی انہیں کھا رہا تھا۔گریجویشن کے بعد مقبول بٹ اپنے چچا کے ہمراہ وادی سے ہجرت کر کہ پشاور میں سکونت پذیر ہوئے۔اور یہیں سے ایم اے اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کی۔1958میں تحریکی ذہن نے ان کو یہاں بھی نمایاں رکھا۔1961میں مہاجرین کی نشست پر ممبر اسمبلی منتخب ہوئے۔لیکن ان کی منزل اقتدار کا حصول نہ تھی بلکہ آزادی کا جنون تھا۔جلد انیں احساس ہو گیا کہ سرحد کے دونوں اطراف کشمیریوں کو غلام بنانے کابندھن کتنا مظبوط ہو چکا ہے۔جلد ہی مقبول بٹ نے محسوس کیا کہ سرحد کے دونوں جانب کشمیر کو غلام بنانے کی سوچ پنپ رہی ہے،اور جدوجہد کا وقت آن پہنچا ہے۔انہوں نے 1965میں محاذ رائے شماری کی بنیاد رکھ دی۔جس کا مقصد کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قرار داوں کے مطابق حق رائے شماری دلوانا تھا۔لیکن مقبول بٹ دنیا کے انقلابات سے سیکھ چکے تھے کہ صرف سیاسی کاوشیں تحریکوں کی کامیابی کا سبب نہیں بن سکتی بلکہ اس کے لئے مسلح جدوجہد ضروری ہے۔پھر این ایل ایف کی بنیاد ڈال دی گئی۔اس کی قیادت خود انہوں نے سنبھالی۔نوجوانوں کو آزادی کے جذبے سے ہمکنار کر کہ میدان کار زار میں اترے۔جون 1966میں مقبول بٹ آزادی کے سرفروشوں کے ہمراہ سرحد کی دوسری جانب چلے گئے۔جنون آزادی سے لبریز اس تحریک کو کشمیر کے دونوں طرف پھیلانے کا عزم لئے این ایل ایف کو ہنوستانی مقبوضہ کشمیر میں بھی منظم کرنے کی سعی کی۔اس کے لئے ایک خفیہ مقام پر تربیت کا آغاذ بھی کر لیا۔اور اچانک تربیتی مرکز پر حملہ کر دیا گیا جس میں آپ کے ایک ساتھی شہید ہو گئے اور ایک انسپکٹر بھی ہلاک ہو گیا
۔آپ کو موقع پر دو ساتھیوں سمیت سری نگر سنٹرل جیل میں قید کر دیا گیا اور بغاوت اور قتل کے مقدمات درج کئے گئے۔اس پار بھی آپ کو بدنام زمانہ بلیک فورٹ میں قید کر کہ ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوڑ دئیے۔قائد کشمیر کو ہائی کورٹ نے سزائے موت سنا دی۔٩ دسمبر کو آپ کو جیل سے وقتی طور پر رہا کر دیا گیا۔لیکن 1976 کو آپ کو پھر بھارت میں گرفتار کر لیا گیا اور سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے آپ کو سزائے موت سنا دی۔ بالآخر 11 فروری1984آن پہنچا اور قائد کشمیر کو تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔اور مقبول بٹ شہید کر دئیے گئے۔کشمیر کی آزادی کا متوالا،آزادی کا استعارہ بننے والا،عزم و استقلال کا پیکر مقبول بٹ نے وطن کی آزادی کی خاطر جان دے دی۔لیکن آزادی کی راہ میں مرنے والے کبھی مرتے نہیں بلکہ وہ نسل نو کو پیغام دے گئے کہ آزادی سے بڑی نعمت کوئی نہیں۔
۔