کالم

تاریخ کے انمٹ فیصلے

مْغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کا تاریخ ساز فیصلہ۔ جو متحدہ ہندوستان (جنوبی ایشیا) کی تقدیر بدل گیا۔ جب پایہ تخت دہلی نااہل و عیاش اور سازشیوں کے گھیراؤ میں تھا تو اورنگزیب نے میدان جنگ میں دشمن کی فوجوں سے برسر پیکار فوج کی کمان چھوڑ کر اندرونی غداروں اور سازشیوں کا قلع قمع کرنے کا عہد ساز تاریخی مضبوط اور بروقت فیصلہ کیا۔ جو پاکستان کے موجود بدترین حالات سے نجات کے لیئے مشعل راہ ہو سکتا ہے۔ آئیں دیکھتے ہیں کہ کیسے…؟
پاکستان کے موجودہ حالات مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے آخری دور سے مکمل مشابہت رکھتے ہیں۔ شاہ جہاں کے دور حکومت کے آخری سالوں میں متحدہ ہندوستان میں بھی سیاسی عدم استحکام علاقائی بغاوتیں عروج پر تھیں۔ اسکی بڑی وجہ صوبائی اور ریاستی حکومتوں کی باگ ڈور شرابی زانی اور ناچ گانے کے رسیا شہزادوں کے ہاتھ میں ہونا تھی۔ شاہ جہاں کے 9 بیٹے تھے۔ جن میں دارا سب سے بڑا تھا اور اورنگ زیب عالمگیر سب سے چھوٹا تھا. شاہ جہان کے آٹھ بڑے بیٹے شراب نوشی اور ناچ گانے کے رسیا تھے۔ جبکہ اورنگزیب عالمگیر کا رجحان دین کی طرف تھا۔ وہ عالم دین ھونے کے ساتھ قرآن کا خطاط بھی تھا۔ اسکی مرتب کردہ کتاب فتاوی عالمگیری آج بھی دینی مدارس میں پڑھائی جاتی ہے اور علماء کرام بھی شرعی مسائل میں اس سے راہنمائی لیتے ہیں۔ اورنگ زیب عالمگیر اپنے بڑے بھائیوں کی شراب نوشی اور ناچ گانے کی محفلیں منعقد کرنے کی عادتوں کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ جسکی وجہ سے دارا سمیت تمام بڑے بھائیوں نے اسے ملاں کا لقب دے رکھا تھا اور اسے حکومتی ایوانوں سے دور کرنے کیلئے تمام صوبائی اور ریاستی حکومتوں پر خود قابض ہوگئے اور اورنگزیب کو اسلحہ خانہ کا نگران مقرر کردیا تھا. بڑا بیٹا ہونے کے ناطے شاہ جہاں دارا کے مشوروں پر زیادہ عمل کرتا تھا اور تمام حکومتی وزیر اور عہدیدار بھی اسی کے مشورے پر مقرر کرتا تھا۔ جسکی وجہ سے دارا نے اپنے جیسے شرابی زانی اور ناچ گانے کے دلدادہ لوگوں کو اہم حکومتی عہدوں پر فائز کروا دیا۔ جنکی نااہلی کی وجہ سے پورے ملک میں شورشیں اور بغاوتیں عروج پر پہنچ گئیں تھیں۔ کہیں مرہٹے بغاوت پر اتر آئے تو کہیں گورکھے۔ کہیں جھانسی کی رانی اور کہیں رجواڑے غرض یہ کہ بنگال تامل ناڈو سمیت پشاور تک پورا ملک بدامنی اور خان جنگی کا شکار ہو چکا تھا۔ جبکہ ان حالات میں بھی صوبائی حکومتی عہدیدار اور شہزادے اپنی شراب نوشی اور ناچ گانے کی محفلیں تسلسل منعقد کرنے میں کبھی ناغہ نہیں کرتے تھے۔ جسکی وجہ سے باغی دستے صوبائی مراکز کے قلعوں کے قریب تک پہنچنا شروع ہو گئے۔ عنقریب تھا کہ دارا کا صوبائی قلع باغیوں کے محاصرہ میں آجاتا۔ دارا نے حکومت مقامی فوجی کمانڈر کے حوالے کی اور خود فرار ہوکر دہلی پہنچ گیا۔ دہلی پہنچ کر نااہل شرابی زانی اور ناچ گانے کے رسیا دارا نے اپنے باپ شاہ جہاں سے اورنگزیب کو اپنے صوبائی قلعے کی حفاظت کیلئے میدان جنگ بھیجنے پر اصرار کیا۔ دارا کے اصرار پر شاہ جہاں نے دہلی سے مرکزی فوج کی کمان اورنگزیب عالمگیر کے حوالے کر کے پورے ہندوستان کی صوبائی اور ریاستی حکومتوں میں پھیلی بغاوتوں کو کچلنے کی ذمہ داری سونپ دی۔ اورنگ زیب عالمگیر نے سب سے پہلے دارا کے صوبائی مرکزی قلعہ کا رخ کیا اور میدان جنگ میں خود سپاہ کی قیادت کرتے ہوئے باغیوں اور دشمنوں کو شکست دے کر امن قائم کرنے کے بعد نظم و نسق مقامی فوجی کمانڈر کے حوالے کر کے دوسرے شورش زدہ صوبے کا رخ کیا اور اسکے صوبائی گورنر شہزادے کو دہلی بھیج دیا۔ وہاں بھی دشمنوں کا قلع قمع کرنے کے بعد تیسرے صوبے کا رخ کیا۔ وہاں پر بھی امن قائم کرنے کے بعد چوتھے صوبے کا رخ کیا۔ جہاں پر پانی پت کے میدان میں مغل افواج جھانسی کی رانی کی افواج سے بر سر پیکار تھیں۔ اورنگزیب عالمگیر ہر وقت میدان جنگ میں اپنے سپاہیوں کے ساتھ رہتے تھے اور خود میدان جنگ کی حکمت عملی مرتب کرتے تھے۔ جبکہ اسکے برعکس باقی شہزادے دوران جنگ بھی قلعوں میں بیٹھے شراب و شباب اور گانے بجانے کی محفلیں سجاتے تھے۔ جس وجہ سے اورنگزیب عالمگیر عوام اور افوج میں بہت مقبول ہوگئے۔ چاروں صوبوں کے سابقہ نا اہل گورنر شہزادے دہلی میں بیٹھے اورنگزیب کی افواج اور عوام میں بڑھتی ہوئی مقبولیت اور محبت سے خائف ہو چکے تھے۔ انہوں نے مل کر محلاتی سازش کر کے نا اہل ترین دارا کی ولی عہدی اور نائب حکمران مقرر کرنے پر شاہ جہاں کو رضا مند کر لیا۔ اورنگزیب عالمگیر پانی پت کے میدان جنگ میں جھانسی کی رانی کی فوجوں سے برسر پیکار تھا اور دہلی میں دارا کی تاج پوشی کے جشن کی تیاریاں زور شور سے جاری تھیں۔ اورنگزیب کو جب یہ اطلاع پانی پت کے میدان جنگ میں ملی تو حد درجہ افسردہ ہوا۔ اسکی پریشانی کی وجہ ریاست کی عنان اقتدار نااہلوں شرابیوں زانیوں اور ناچ گانے کے رسیا لوگوں کے حوالے ھونے کی خبر تھی۔ اسکے پاس سوچنے کا وقت نہیں تھا۔ اسے فوری فیصلہ کرنا تھا۔ ورنہ مملکت کو بربادی سے بچانا ناممکن ہو جانا تھا۔ بالآخر اس نے فوری فیصلہ کیا۔ اس نے جھانسی کی رانی کو عارض جنگ بندی کر کے معاملات کو بات چیت سے حل کرنے کی پیشکش کی۔ جو رانی نے فوج کی گزشتہ چند ماہ مسلسل میدان جنگ میں مصروفیت کے باعث تھکن کی وجہ سے فوراً قبول کرلی۔ عارضی جنگ بندی کے بعد بات چیت کیلئے مقامی فوجی کمانڈروں کو میدان جنگ میں کمان سپرد کر کے اورنگزیب نے ایک بڑے لشکر کے ساتھ دہلی کا رخ کیا۔ جس رات اورنگزیب کے لشکر نے دہلی کے بائر پڑاؤ کیا۔ اس سے اگلی صبح دارا کے ولی عہد بننے کی تقریب منعقد ہونا تھی۔ صْبح طلوع آفتاب کے بعد چند فوجیوں پر مشتمل محافظ دستے کے ساتھ اورنگ زیب عالمگیر نے دہلی کے شاہی محل پہنچ کر اپنے باپ اور شہنشاہ وقت شاہ جہاں سے نااہل دارا کی ولی عہد تقرری روکنے کی درخواست کی۔ جو شاہ جہاں اور دارا سمیت چاروں شہزادوں نے سختی سے رد کر دی اور اسے بھی اس شاہی حکم کی اطاعت نہ کرنے کی صورت میں عبرتناک انجام کی دھمکی دی۔ جسکے جواب میں اورنگزیب عالمگیر نے انکے ساتھ اعلان جنگ کرکے اپنے لشکر سمیت دہلی پر حملہ کر دیا۔ چند گھنٹوں کی مزاحمت کے بعد اورنگزیب شاہی محل پر قابض ہو گیا اور چاروں بھائیوں کو قتل کر کے باپ شاہ جہاں کو محل میں نظر بند کر کے اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ اورنگزیب عالمگیر کے دہلی کا تخت سنبھالنے پر باقی چاروں صوبائی گورنر شہزادوں نے گورکھوں مرہٹوں اور راجواڑوں کے ساتھ مل کر دہلی پر چڑھائی کیلئے لشکر روانہ کر دیئے یہ حالت دیکھ کر جھانسی کی رانی نے بھی جنگ بندی ختم کر کے اعلان جنگ کر دیا۔ اورنگ زیب نے دہلی کا انتظام درست کر کے پہلے پانی پت کے میدان میں جھانسی کی رانی کو شکست دی۔ پھر اپنے چاروں بھائیوں مرہٹوں اور گورکھوں کو شکست دی۔ ان جنگوں میں اورنگزیب کے سات بھائی مارے گئے جبکہ آٹھویں نے شکست کے بعد کسی نامعلوم مقام پر گمنامی میں زندگی بسر کرنے کے بعد طبعی موت پائی۔ ان سب شورشوں اور بغاوتوں کو کچلنے کے نتیجے میں پورے ہندوستان میں خوشحالی کا دور آگیا۔ ملک میں مکمل امن کی وجہ سے ہندوستان نے خوب ترقی کی۔ صرف ایک سال میں عام آدمی کی آمدن دوگنا ہو گئی۔ جبکہ سابقہ حکومتوں کے لگائے گئے نا جائز ٹیکسوں کے خاتمے کی وجہ سے اشیاء ضرورت کی قیمت آدھی ہوگئی۔ اسکے دور حکومت میں ہندوستان کا ساری دنیا کی تجارت میں حصہ 25 فیصد ہوگیا
۔ اورنگزیب تاریخ میں ہندوستان جنوبی ایشیاء کے سب سے زیادہ علاقے پر مضبوط حکومت کرنے والا واحد مْسلمان حکمران تھا۔ جسکی حکومت طورخم سے لے کر تامل ناڈو تک تھی۔ اسی لئے عالمگیر کے لقب سے جانا گیا۔ اورنگ زیب عالمگیر اگر میدان جنگ چھوڑ کر پایہ تخت میں موجود نااہلوں اور سازشیوں کا خاتمہ نہ کرتا۔ تو متحدہ ہندوستان کی مملکت نااہلوں کے ہاتھوں ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے کبھی نہ بچ پاتی۔ اورنگزیب اپنیحلقہ احباب میں ملاں کے نام سے مشہور تھا اور میدان جنگ میں دشمن کے مقابلے پر سینہ سْپر فوجوں کی کمان کر رہا تھا۔ جب اس نے میدان جنگ چھوڑ کر پایہ تخت کو اندرونی سازشیوں اور غداروں سے صاف کرنے کا درست اور بروقت فیصلہ کیا اور وہی درست فیصلہ اسے تاریخ ساز شخصیت بنا گیا اور اسکے ملک ہندوستان کو ایک مضبوط پْر امن اور خوشحال مملکت بھی ثابت کر گیا۔ آج پاکستان میں بھی ملاں کے لقب سے مشہور ایک شخصیت کو شاہ جہاں کے آخری دور حکومت کے ایام میں اورنگزیب والی پوزیشن حاصل ہو چکی ہے اور پاکستان کے موجود? حالات بھی اسی دور سے مکمل مشابہت رکھتے ہیں .اس سے پہلے کہ دشمن ہم پر حملہ آور ہو وقت کا تقاضہ ہے کہ پاکستان کے حکومتی ایوانوں اور دارالحکومت سے نااہلوں شرابیوں زانیوں غداروں اور سازشیوں کا صفایا کرنے کیلئے اورنگ زیب عالمگیر کی طرح فوری اور جرات مندانہ فیصلے کیئے جائیں۔ مان لیتے ہیں کہ آئین سپریم ہے اور آئین میں صدر وزیراعظم اور پارلیمنٹ سپریم ہیں اور انکا احترام واجب ہے۔ لیکن یہ سب کچھ اسی وقت تک ہے۔ جب تک ملک باقی ہے۔ اگر خدانخواستہ ملک ہی تباہ ہوگیا تو پھر کچھ بھی نہیں بچ سکے گا۔ اس لئے سب کچھ بالائے طاق رکھ کر ملک بچانے کی خاطر پایہ تخت (دارالحکومت) کو نااہلوں سے پاک کرنے کو پہلی ترجیح بنایا جائے اور عوام جو ہر شرابی زانی ٹھگ اٹھائی گرے کو ووٹوں سے اْوپر لاتی رہی ہے۔ بہتر ہوگا کہ اپنے سپہ سالار کی پشت پر کھڑی ہوجائے۔ بادشاہی نظام حکومت میں بادشاہ وقت سپریم ہوتا ہے۔ اسکا ہر حکم آئین ہوتا ہے اور اس سے وفاداری ملک سے وفاداری ہوتی ہے۔ ان سب سے بڑھ کر اورنگزیب دین کا عالم ہونے کے ناطے باپ کے اعلیٰ مقام سے آگاہ تھا۔ اسکے باوجود بھی سازشیوں کے خاتمے کیلئے باپ شاہ جہاں سے بغاوت کرنے کو ترجیح دی۔ مانتے ہیں کہ آئین سپریم ہے اور اسکے خلاف جانا بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی طرح اورنگزیب عالمگیر کے لئے بھی شاہ جہاں کا حکم سپریم تھا اور خلاف ورزی بغاوت۔ لیکن پھر بھی اسلامی ریاست کی بقاء کو پہلی ترجیح بنا کر اورنگ زیب عالمگیر نے اپنے باپ سے بغاوت کرکے دارالحکومت کو نااہلوں کے قبضہ سے آزاد کرایا۔ مانتے ہیں کہ صدر اور وزیر اعظم آئینی عہدے ہیں اور انکا احترام واجب ہے۔ بالکل اسی طرح اورنگزیب کیلئے بھی بادشاہ وقت شاہ جہاں کا احترام واجب تھا اور باپ کے رشتے کی مناسبت سے تو بہت زیادہ تھا۔ مگر دونوں احترام ایک طرف رکھ کر اسلامی مملکت کو اللہ تعالٰی کی امانت سمجھتے ہوئے اسکی بقاء کو ہر احترام اور رشتے پر ترجیح دی۔ تو اس وقت اگر ہماری پرامن نظام اسلام کی جدوجہد کو بزور طاقت یہ جمہورے زانی شرابی نااہل لٹیرے حکمرانوں نے روکنا ہے جو کہ ہر سطح پر روک رہے ہیں۔ عوام سے جھوٹ بولتے ہیں اور فوج سے لڑاتے ہیں۔ کمزور تر کر رہے ہیں۔ ملک و قوم و دفاع کو دشمن کیلئے اور اسی کے حکم فالو کرتے ہیں۔ تو ہم اپنے سپہ سالار کی پشت پر کھڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ سروں کی فصل پک چکی ہے۔ تکبیر اللہ اکبر کہو اور کاٹ دو سب سَر اور حکومت کر لو۔ اگر آج پاکستان کے فیصلہ ساز محب وطن تاریخ کے ان ا?ام کے اوراق کا مطالعہ کریں۔ تو مضبوط جرات مندانہ اور درست فیصلے کرنے کیلئے بہترین راہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔بشکریہ سی سی پی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button