
وہ بلوجستان کے ریگستانوں، سنگلاخ پہاڑوں اور دروں کا پیدل سفر کرتے ہوئے افغانستان پہنچا اور آزاد فضاؤں میں مغرب کی نماز ادا کی، اپنے آپ کو کھلی ھوا اور آزادی سے سانس لینے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، یہ آسان سفر نہیں تھا، نہ زاد راہ اور نہ ہی مقصد کا علم، بس شیخ کا حکم تھا جس کی پاسداری کے لیے افغانستان چل پڑے، راستے میں شیخ معتمد ساتھی شیخ عبدالرحیم جو نو مسلم تھے اپنی بیوی کا زیور بیچ کر مالی امداد فراہم کی اور کویٹہ تک ساتھ گئے اور الوداع کر کے واپس لوٹے، شیخ نے خود حجاز مقدس و خلافت عثمانیہ کا سفر باندھا، 1915 میں جنگ عظیم شروع ھونے کے بعد مسلمان یہ سمجھتے تھے کہ کسی بیرونی امداد کے بغیر یا ترکی کی حمایت جو اپنے آپ کو برصغیر کے مسلمانوں کا محافظ سمجھتی تھی، کے بغیر انگریزوں سے آزادی ممکن نہیں ہے، اس لئے باقاعدہ رابطوں کے لیے شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے مختلف رہنماؤں کو ان دوروں پر بھیجا، ترکی اگرچیکہ ڈٹا ہوا تھا تاہم اس کی پوزیشن دن با دن کمزور ھوتی جا رہی تھی، اور برصغیر کے مسلمانوں کا خواب بھی ڈوب رہا تھا، یہ مشکل سفر کرکے افغانستان پہنچنے والے مولانا عبید اللہ سندھی تھے جو شیخ الہند کے حکم پر افغانستان روانہ ھوئے تھے خود لکھتے ہیں کہ مجھے کوئی مشن نہیں بتایا گیا تھا بس حکم تھا کہ افغانستان چلے گئے، اس خود ساختہ جلا وطنی سے انہیں مایوسی بھی ھو رہی تھی مگر شیخ الہند کا حکم ٹال نہیں سکتے تھے، ادھر انگریزی کالج کے دو سو طلبہ جو ترک فوج میں شامل ھونے کے لیے تیاری کر رہے تھے گرفتار کر کے قابل بھیج دئیے گئے جو وہاں قید کر دئیے گئے تھے، مولانا عبید اللہ سندھی نے طویل محنت اور مشقت سے کام شروع کیا اور افغانستان کی آزاد حکومت کے سربراہ امیر حبیب اللہ تک رسائی حاصل کر کے باقاعدہ تحریک کی مالی اور فوجی امداد کی درخواست کی، مولانا عبید اللہ سندھی نے اس اثر و رسوخ سے گرفتار طلبہ کو رہا کروا دیا، جنہیں اس بات پر قائل کر لیا کہ وہ ترک فوج میں شامل ھونے کی خواہش چھوڑ کر ھندوستان کی تحریک آزادی کے لیے کام کریں، مولانا عبید اللہ سندھی نے ان مہاجر طلبہ کی مدد سے باقاعدہ تحریک شروع کر دی اور آج انہیں شیخ الہند کے حکم پر فخر محسوس ھونے لگا کہ یہی میرا مشن تھا انہوں نے پہلے گانگریس میں شامل ھونے کا سوچا اور پھر پہلی گانگریس کمیٹی برائے بیرون ملک تشکیل دی، جس نے آزاد عبوری حکومت کا اعلان کیا جس میں تین بڑے رہنما شامل ھو گئے، ایک مہندر سنگھ، مولانا برکت اللہ اور مولانا عبیداللہ سندھی جو اس کے پہلے صدر نامزد ھوئے، مولانا عبید اللہ سندھی نے ریشم کے تین ٹکڑوں پر خطوط تحریر کیے اور مولانا عبدالرحیم سندھی تک پہنچانے کا انتظام کیا، اسی سے ریشمی رومال تحریک، یا تحریک خطوط کا آغاز ہوا، یہ 9 جولائی 1916ء کی بات ہے خطوط 15 اگست کو ھندوستان پہنچ گئے، بعد میں 15 اگست ھی ھندوستان کی آزادی کا دن بنا، مولانا عبید اللہ سندھی کے ان خطوط پر ایک واویلا مچ گیا، اسی تحریک کو برصغیر کے طول و عرض میں زرد رنگ کے کپڑے کے ٹکڑوں پر خطوط لکھ کر مختلف رہنماؤں تک پہنچایا جانے لگا یہاں تک جو اساتذہ کہیں اتالیق تھے وہ بھی اپنے طلباء کے ذریعے پیغام رسانی کا کام کرنے لگے، انگریز حکومت کو جب پتہ لگا تو انہوں نے باقاعدہ تفتیش شروع کی اور ترجمہ کروا کر لکھا گیا کہ ایک آدھ غلطی کے علاؤہ صاف اردو میں یہ خط تحریر کیے گئے تھے، انگریز حکومت نے اس پر افغانستان سے احتجاج بھی کیا، تاہم خطوط کی پاداش میں کئی گرفتاریاں بھی ھوئیں اور کمشنر اور عدالت نے لکھا کہ ریشمی رومال تحریک کو انگریز حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے استعمال کیا گیا، بغاوت کے مقدمات قائم ھوئے تاہم تحریک نے ھزاروں لوگوں کو آزادی کے لیے بیدار کر دیا اور نت نئے تجربات اور طریقے سکھا دئیے، یہ خطوط چھ انچ، سات اور پندرہ انچ کے کپڑوں میں آج بھی میوزیم میں موجود ہیں، جن کی انگریزوں کے خلاف چلائی جانے والی تحریک میں نہایت اہمیت ھے، ہر دور میں تحریک اور جلا وطنی کے دوران مزاحمتوں کی ایک طویل تاریخ ہے، وہ لینن اور مارکس ھوں، یا امام خمینی، آج کی سیاسی تحریکیں ھوں یا زمانہ قدیم کی مزاحمتیں، کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی جدید یا قدیم طریقہ آواز موجود ھوتا ھے کل مارکیٹ سے چند چیزیں لیں دکاندار سے بقیہ پیسے لئے ان نوٹوں پر لکھا ھوا تھا کہ فلاں کو ووٹ دیں، ووٹ دینا ھے یا نہیں دینا لیکن اس طرح کے طریقے کو دیکھ کر ریشمی رومال تحریک یاد آگئی جس کی افغانستان، مالٹا اور حجاز مقدس تک ایک طویل تاریخ ہے، مزاحمت جائز ھو یا بے معنی مگر اس کے اثرات ضرورت ھوتے ہیں تاریخ دان ناکام تحریک خلافت کو سیاسی بیداری کا اہم ذریعہ سمجھتے ہیں اور مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر کی اس تحریک خلافت کو مسلمانوں کے لیے اثاثہ گردانا جاتا ہے، آج ایسے سیاسی حالات موجود ہیں جس میں اس طرح کے مختلف حربے استعمال ھو ریے ہیں یہ سلسلہ بھی ناکام یا کامیاب ہو سکتا ہے مگر اپنے اثرات ضرور چھوڑے گا، برقی، فزیکل اور اشتہاری حربے ناکام ھونے کی وجہ سے اس طرح کے اثرات آئے روز کہیں نظر آ جاتے ہیں جہاں آرٹیفشل انٹیلیجنس اور دوسرے طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں، میرا یہ مؤقف رہتا ہے کہ جدوجہد شروع کرنے والی کوئی بھی جماعت ھو، ادارہ ھو یا مختلف طبقات ھوں وہ تقریبا 16 کروڑ نوجوانوں کو نظر انداز کریں گے تو کچھ بھی نہیں ملے گا، انہیں مستقبل چائیے، لائن آف ایکشن چائیے بنیادی طور پر پورے برصغیر کے لوگ ریزیلنٹ ہیں رد عمل کے طور پر ایسے بیدار ھوتے کہ حیرت انگیز ریکارڈ قائم کر دیتے ہیں امید اور جزبہ دینے والا کوئی نہ ہو تو کوئی اور راستہ نکال لاتے ہیں اس لیے ان کو رہنمائی فراہم کیجیے پاکستان میک اینڈ بریک کی پوزیشن ھے اور یہ 64 فیصد نوجوان اصل سرمایہ ہیں جو ملک کو بنا بھی سکتے ہیں اور بگاڑ بھی سکتے ہیں انہیں مضبوط ٹول بنایا جا سکتا ہے، وہ ریشمی رومال تحریک سے کوئی جدید طریقہ موجود ھو تو سامنے لایا جائے،