کالم

اپنے کل کا فیصلہ آج ہی کرنا ہے!

ایک دن بعدعام انتخابات ہو نے جارہے ہیں اور ہر سیاسی جماعت بڑے زور شور سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے لئے ووٹرز کو لبھانے کیلئے بڑے بڑے وعدے اور دعوئے کر رہی ہے،تاہم ہرووٹرز کیلئے ضروری ہے کہ ان وعدوں اور دعوئوں کو ان سیاسی جماعتوں کی سابقہ کارکردگی اور حالیہ منشور کے تناظر میں پرکھ کر ہی کسی ایسے امیدوار یا سیاسی جماعت کو ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کرے،جو کہ ان کی اُمیدوں پر پوارا اُتر سکے،لیکن اس بار بھی ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیے رہا ہے؟اگر دیکھاجائے توگزشتہ چند سال سے پاکستانیوں کو جن مسائل کا سامنا ہے، انکا تقاضا ہے کہ ووٹرز کو ووٹ ڈالنے سے پہلے پتہ ہونا چاہئے کہ کس سیاسی جماعت نے کیا معاشی ایجنڈا دیا ہے اور اس پر عملدرآمد کس حد تک ممکن ہے، اس حوالے سے ووٹر کو ئی خاص توجہ دیے رہا ہے نہ ہی سیاسی جماعتیں اپنے ووٹرز کو کھل کر آگاہ کررہی ہیں،بلکہ ایک دوسرے پر ہی الزام تراشی کرنے میں مصروف دکھائی دیے رہی ہیں، ووٹرز بھی سیاسی ناپختگی کے سبب اپنے حقیقی معاشی مسائل کو حل کرکے اپنی حالت زار بہتر بنانے کی بجائے ایک بار پھر اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت یا شخصیت کو اقتدار میں لانے کیلئے اپنی توانائیاں ضائع کرتے نظر آرہے ہیں۔
اس ملک کے اہل سیاست اپنی عوام کو بخوبی سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ انہیں کیسے بہلانا ہے اور کیسے بہکانا ہے ، اس لیے ایک بار پھر وہی پرانا سکرپٹ دہرائے جارہے ہیں اور عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے جارہے ہیں، ایک بار پھر عوام کو درپیش معاشی مسائل کے تناظر میں تین بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے منشور میں جو وعدے کئے ہیں، اس کے مطابق مسلم لیگ( ن )نے اپنے پہلے سال میںمہنگائی کی موجودہ شرح کو دس فیصد تک لانے اور اگلے چار سال میں مہنگائی کی شرح چار سے چھ فیصد تک لانے کا وعدہ کیا ہے، جبکہ تحریک انصاف نے مہنگائی کم کرنے اور پانچ سے سات فیصد تک لانے کا ہدف مقرر کیا ہے ، پیپلز پارٹی نے مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لئے کم آمدنی والے افراد کی آمدنی میں ہر سال آٹھ فیصد اضافے کا وعدہ کیا ہے،اگر موجودہ حالات میں دیکھا جائے تو ان میںسے کوئی ایک بھی ہدف قابل عمل نظر نہیں آرہاہے۔
اس صورتحال میں اپنی پرانی ہی رویت دہرانے کے بجائے عوام کو کھلے ذہن اور کھولی آنکھوں سے دیکھنا ہو گا کہ یہ بار ہا آزمائی قیادت ملک وعوام کے معاشی مسائل ٹھیک کر پائیں گے ، کیا بجلی ، گیس کے بلوں میں کمی سیاسی نعروں تک ہی محدود رہے گی یا اس پر کوئی عمل بھی ہو گا ، کیا سکول میں نہ جانے والے دو کروڑ باسٹھ لاکھ بچے علم کی روشنی سے منور ہو سکیں گے اور کیا تعلیم یافتہ بے روز گاروں کو روز گار مل پائے گا ،کیا ہر پا کستانی کاسر کاری ہسپتالوں میں باعزت مفت علاج ہو پائے گا اور کیا ہر پا کستانی کیلئے باعزت طور پر دو وقت کی روٹی کا حصول ممکن بنایا جاسکے گا؟یہ سارے ہی اقدامات یقینی ہوتے دکھائے نہیں دیے رہے ہیں ، لیکن انہیں یقینی بنانے کیلئے پا کستانی ووٹروں کو نہ صرف ووٹ ڈالنے کیلئے پو لنگ سٹیشن کا رُخ کرنا ہو گا ، بلکہ ذات برادری اور ذاتی لالچ کو پس پشت ڈالتے ہوئے جمہوریت کی بقاء اور ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے نئی با صلاحیت مخلص قیادت کا انتخاب بھی کر ناہو گا۔
اب وقت آگیا ہے کہ اپنی ذات کے بجائے قومی مفاد مقدم رکھا جائے اور قیمے والے نان ،برایانی کی پلیٹ یا پانچ ہزار پر اپنے ووٹ کا فیصلہ کر نے کے بجائے اپنے شعور سے قومی مفاد میں فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہمارا نمائندہ کون اور کیسا ہو نا چاہئے ، ہم جب تک اپنے پر کرپٹ ،غیر سنجیدہ ،لالچی اور سازشی نمائندے مسلط کرتے رہیں گے اور بند کمروں کے فیصلے مانتے رہیں گے، ہماری مشکلات کا تدارک کوئی سیاسی جماعت اور قیادت کر پائی گی نہ ہی اُن سے ایسی کوئی توقع رکھی جاسکتی ہے ،ہمیں اپنے کل کو بہتر اور محفوظ بنانے کیلئے آج ہی درست فیصلہ کر نا ہو گا ، اگر ہم کل کا انتظار کرتے رہیں گے تووہ کل کبھی نہیں آئے گا، اس لئے پہلے سوچئے اور کل کے بجائے آج ہی درست فیصلہ کیجئے،ہمارے آج کا ایک درست فیصلہ ہی ہر مشکل سے نکالنے اور اپنا کل سنوارنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button