انسان فطرتاًمِل جُل کر رہنا پسند کرتا ہے۔اور جہاں مِل جُل کر رہا جائے وہاں مسائل کا پیدا ہونا اور اُن کا حل تلاش کرنا بھی ایک لازمی امر ہے۔انتخابات دیکھنے میں ایک دنیاوی کام نظر آتا ہے مگر شرعی ہدایات کے مطابق اگر ان انتخابات میں دیانت دار اور اہل امیدواروں کو کامیاب کرایا جائے تو یہی انتخابات ایک اچھے فعل اور دینی فریضہ کی حیثیت اختیار کر سکتے ہیں۔ بعض لوگ اس پورے عمل کو ایک فضول اور بے معنی درجہ دے کر گوشہ نشینی اختیار کر کے عہدہ برآ ہو جاتے ہیں۔ جبکہ بعض لوگ اسے ایک کاروباری فعل تصور کرتے ہیں ۔ اسلام ایک جامع نظامِ حیات ہے ۔ اگر دنیا کی کاروباری زندگی کو اسلام کے بتائے ہوئے اُصولوں اور ضابطوں کے مطابق انجام دیا جائے تو وہ دنیا کا کام کم اور دین کا کام زیادہ بن جاتا ہے ۔ الیکشن کے میدان میں یہ تین فریق ہوتے ہیں۔ الیکشن کمیشن، امیدوار اور ووٹر۔ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ پُرامن ماحول میں منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرائے۔ جبکہ ہر امیدوار کو چاہئیے کہ کسی لالچ کو مدِنظر رکھ کر لوگوں سے جھوٹے وعدے نہ کرے۔مدِ مقابل پر الزام تراشی اور گند اُچھالنے سے گریز کرے۔نتائج کو دل سے تسلیم کرے اور ہارنے کی صورت میں بلاوجہ دھاندلی کا الزام عائد نہ کرے۔جبکہ ووٹروں یعنی عوام کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے ووٹ کی قدرومنزلت کو سمجھ کر اس کو صحیح طریقہ سے ایسے امیدواروں کے حق میں استعمال کریں جو حقیقی معنوں میں عوام کی اُمنگوں کی ترجمانی کرتے ہوں۔ انتخابی مہم میں اُمیدوار اپنے ووٹروں کو اپنے منشور اور لائحہ عمل کے بارے میں مطلع کرتے ہیں اور امیدوار اگر سابقہ ممبر یا کونسلر ہو تو وہ اپنے کارناموں سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے۔ یہاں تک تو مناسب اور بے حد ضروری ہے لیکن اخلاقی حدودپھلانگ کر مدِ مقابل پر اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال کرنا زیب نہیں دیتا۔ پُرامن انتخابات کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ماحول پُرامن ہو تا کہ انتخابات منصفانہ اور آزادانہ ماحول میں ہو سکیں۔ ایک ووٹ صرف کسی امیدوار کی کامیابی کا سبب ہی نہیں ہوتا بلکہ ایک اچھے نظام کے نفاذ کا سبب بھی ہوتا ہے۔ ووٹ کا استعمال ایسے امیدوار کے حق میں ہونا چاہئیے جو واقعی اس کا اہل ہو ۔ووٹ کا استعمال صرف اسی صورت میں صحیح ہو سکتا ہے جب عوام ووٹ کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہوں۔ ایمانداری سے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں۔ اُنہیں یہ حق استعمال کرنے کی ہر طرح سے آزادی ہو۔ عموماً ہوتا یوں ہے کہ تعلیم کا تناسب کم ہونے کی وجہ سے ووٹروں کی اکثریت سیاسی سوجھ بوجھ سے عاری ہوتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ غالب اکثریت بااثر لوگوں کے زیر دبائوآ کر ،نعرہ بازی، جلسوں جلوسوں کی چہل پہل دیکھ کر، گاڑیوں کے قافلے اور اسلحہ کے رعب میں آ کر اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں جو مناسب طریقہ نہیں ہے۔ قرار دادِ پاکستان کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے "”چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کائنات کا بلاشرکت غیرے حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے عوام کو جو اقتدار و اختیار حاصل ہے وہ اُنہیں اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہو گا وہ ایک مقدس امانت ہے”۔حقیقی نمائندے کے لئے ضروری ہے کہ اس میں یہ خصوصیات موجود ہوں۔اسی مملکت کا شہری ہو۔ عاقل بالغ ہو۔ سنگین جرائم میں عدم سزا یافتہ ہو۔ ذاتی کردار بے داغ ہو۔ اسلام کے احکامات کا پابند ہو۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات سے واقف ہو۔ کبیرہ گناہوں کا مرتکب نہ ہوا ہو۔دیانت دار اور امانت دار ہو۔ فاسق و فاجر نہ ہو۔ جھوٹی گواہی دینے والانہ ہو۔ نظریہ پاکستان کا مخالف نہ ہو۔ صاحبِ علم، صاحبِ فراست اور صاحبِ بصیرت ہو۔اس کا دل عہدے اور منصب کی حرص سے خالی ہو۔ لوگ اس کے کردار سے متاثر ہو کر اُسے خود سامنے لائیں۔ اس کا نصب العین خدمتِ خلق ہو۔ اسلامی معاشرے کے قیام کا خواہشمند ہو۔ محبِ وطن اور اللہ سے ڈرنے والا ہو۔ حوصلہ مند ہو ۔ جری ہو۔ خود احتسابی کا جذبہ رکھتا ہو۔ ذاتی منفعت کی بجائے ملی جذبہ سے سرشار ہو۔ اس منصب کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کی قابلیت رکھتا ہو جس کے لئے اُمیدوار ہو۔ اس سلسلہ میں آقائے دو جہاں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے "صاحبِ اقتدار افراد کو مسندِ اقتدار پر بیٹھنے سے پہلے سوچ لینا چاہئیے کہ جو بوجھ اور ذمہ داری اُن کے کندھوں پر ڈالی جا رہی ہے وہ اس کو اُٹھانے کے اہل ہیں بھی کہ نہیں۔کیونکہ ہر نشہ نقصان دہ ہوتا ہے چاہے وہ اقتدار کا نشہ ہی کیوں نہ ہو”۔ جہاں تک ووٹ کی اہمیت کا تعلق ہے وہ ایک امانت، شہادت، وکالت اور سفارش کا درجہ رکھتی ہے ۔اگر کسی شخص کے پاس امانت رکھی جائے تو کافی تسلی اور غور و غوض کے بعد رکھی جاتی ہے۔ یعنی دیکھا جاتا ہے کہ وہ شخص امانت دار ہے اور خیانت نہ کرنے والا ہے۔ اسی طرح ووٹ بھی قوم کی امانت ہوتی ہے جس کو خوب سوچ سمجھ کر استعمال کرنا چاہئیے۔ اگر کسی امیدوار کو ووٹ کی امانت سونپ دی جائے اور وہ اس امانت میں خیانت نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں ووٹر کی شہادت قبول ہو گئی ۔اور اگر اس امانت میں خیانت کر دی یعنی اس ووٹ کو حاصل کرنے کے بعد اختیارات کو ناجائیز طریقے سے استعمال کیا گیا تو تمام ذمہ داری ووٹ دینے والے پر ہو گی۔ کیونکہ شہادت جھوٹی ہو گئی اور حضورۖ نے جھوٹی شہادت دینے والے سے ان الفاظ میں نفرت فرمائی ہے "جھوٹی شہادت شرک کے برابر ہے”۔ ووٹ ایک وکالت نامہ اس طرح سے ہوتی ہے کہ علاقائی معاملات میں اُمیدوار ووٹر کا وکیل بن جاتا ہے ۔عام معاملات میں بھی مئوکل کی خواہش ہوتی ہے کہ ایک اچھا وکیل چُنا جائے جو اس کی وکالت بہترطریقہ سے کر سکے۔ اور ملکی معاملات میں ایک ایسا وکیل چننا جو نہ تو باصلاحیت ہو نہ ہی اس کی توقعات پر پورا اُتر سکے تو ایسی صورت میں وکالت نامہ سمیت کنویں میں چھلانگ لگانے کے مترادف ہے۔ ووٹ اُمیدوار کے حق میں سفارش بھی ہے کہ وہ اُمیدوار ملکی معاملات میں رائے دینے اور حصہ لینے کا واقعی حقدار ہے ۔اور اگر وہ نمائنیدہ نمائیندگی کا حق احسن طریقہ سے ادا نہیں کرتا تو یوں سمجھ لیں کہ ووٹ دے کر ایک ایسے شخص کی سفارش کی گئی جو اس کا اہل نہیں تھا۔ اور ناجائیز سفارش کرنے والوں کو ان الفاظ میں ناپسندیدگی سے دیکھا گیا ہے "جو کوئی سفارش کر تا ہے ۔اچھی سفارش۔ تو اس میں حصہ پاتا ہے۔اور جو کوئی سفارش کرتا ہے ۔ بُری سفارش۔ تو اس میں اُس کے لئے بھی بوجھ ہے”۔سب لوگوں کا فرض ہے کہ انتخابات میں کسی لالچ، دبائو، اور صرف برادری کی بنیادوں پر نمائیندوں کا چنائو نہ کریں۔ بلکہ اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق ایسے ممبران کا چنائو کریں جو واقعی اس کے اہل ہوں
۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو برائیاں پروان چڑھیں گی۔ ماحول خراب ہو گا۔ اور بعد میں بے بسی کے ساتھ شکوہ کرنے کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔ اور اگر انتخابات میں ووٹ کی اہمیت، افادیت اور شرعی حیثیت کو سمجھ کر او ر نمائیندوں کی صحیح پہچان سامنے رکھی گئی تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ الیکشن دنیاداری کا دھندا بننے کی بجائے دین کا حصہ بھی بن جائے گا۔ اسلام تمام مسلمانوں کو بھائی بھائی قرار دیتا ہے۔ اس لئے ووٹ کا استعمال کرتے وقت مصلحتوں کا شکار ہونے کی بجائے اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے ایک ملت بن کر ووٹ استعمال کرنا چاہئیے۔ او ر نااہل اور بُری شہرت رکھنے والے افراد کو ملک و ملت کی باگ دوڑ بذریعہ ووٹ نہ سونپی جائے چاہے وہ کتنے ہی قریبی رشتہ دار اور تعلقدار ہوں۔ اس وقت ایسے صاحبِ کردار، امین اور باصلاحیت نمائیندوں کی ضرورت ہے جو انصاف، عزت، آبرو، سکون ، امن و خوشحالی کے ساتھ زندگی گزارنے میں ہر شہری کے ممد و معاون ثابت ہو سکیں۔ آئیے ہم سب مل کر عہد کریں کہ نمائیندوں کے انتخاب کے موقعہ پر ذاتی مفاد ات سے بالا تر ہو کرایسے افراد کو ترجیح دیں گے جو انتخابات جیتنے کے اہلیت کے ساتھ ساتھ اچھی شہرت، بہتر کردارکے حامل بھی ہوں گے۔ اور اپنے اس فرض کی ادائیگی میں کسی غفلت کا ثبوت نہ دیں گے۔ محب وطن شہری ہونے کے ناطے اپنا ووٹ ضرورڈالیں گے۔ اور بدعنوان عناصرکے لئے میدان کُھلے نہیں چھوڑیں گے۔
0 50 6 minutes read