
اہل کشمیر پر ڈوگرہ راج کے مظالم ہوں یا بھارتی ریاستی دہشت گردی اہل پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ان مظالم کے خلاف آواز اٹھائی۔1930ء کی دہائی میں جب توہین قرآن اوربندش خطبہ جمعہ کے واقعات کے ردعمل میں وادی کے مسلمانوںنے لاکھوں کی تعداد میں سری نگر میںجمع ہو کر پرامن احتجاج کیا’ جس پر 13جولائی 1931ء کو ڈوگرہ فوج نے اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے درجنوںمسلمانوں کوشہید اور سینکڑوں کو زخمی کر دیا توپورے بر صغیر کے مسلمانوں میں اضطراب کی ایک لہر اٹھی ‘ اس موقع پر علامہ اقبال کی تحریک اور قیادت میں ایک کشمیرکمیٹی قائم کی گئی جس نے پورے بر صغیر بالخصوص پنجاب میں تاریخی احتجاج کیا ۔مجلس احرار کے ہزاروں نوجوانوں کے قافلوں نے کشمیر کی طرف مارچ کیا جسے روکنے کے لیے انگریز سرکار نے بے پناہ طاقت کا استعمال کیا ۔ ہزاروں رضا کارگرفتار ہوئے ‘ اس سارے احتجاج نے دلی سرکار کو جھنجھواڑا جس نے مسلمانوں کی شکایات کی شنوائی کے لیے ایک کمیشن قائم کیاجس کی سفارشات کی روشنی میںمسلمانوں کو ریاست میںکچھ حقوق ملے اور محدوداختیارات کے ساتھ ایک قانون ساز اسمبلی بھی قائم ہوئی ۔برصغیر کی 565ریاستوںمیںسے کشمیر کو یہ اعزاز حاصل ہوا جس کاسہرا کشمیریوں کی قربانیوں کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال مرحوم کی قیادت میں یکجہتی کی اس تحریک کو جاتا ہے جو پورے بر صغیر میں برپا ہوئی۔ اسی طرح 1947ء ہو یا 1965ء نہ صرف کشمیر پر جنگیں ہوئیں جن کے متاثرہ لاکھوں کشمیری مہاجرین کو پاکستان میں پناہ دی گئی ‘بلکہ اس سارے عرصے میں بھارتی مظالم کے خلاف ریاست پاکستان اور پوری قوم اہل کشمیر کی پشت پر رہی۔بھارت سے مخاصمت کے اس پس منظر میں 1971ء کا سانحہ ہوا جس کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہوگیا جس کے نفسیاتی اثرات کشمیریوں پر بھی مرتب ہوئے ۔ اسی مایوسی کے عالم میں شیخ عبداﷲ اپنے رائے شماری کے موقف سے دستبردار ہوکر اندرا گاندھی سے معاہدہ کر کے کشمیر کے وزیر اعلیٰ بن گئے ان کایہ فعل مجموعی طور پر کشمیر کاز سے بے وفائی تصورکیاگیا جس کے نتیجے میںمختلف مزاحمتی تنظیمیں معرض وجود میںآئیں جواپنے اپنے انداز سے جدوجہد کرتی رہیں ۔سب سے منظم اور ہمہ گیر مزاحمت جماعت اسلامی مقبوضہ جموںکشمیر نے کی ۔جماعت نے دعوتی ‘ سیاسی ‘سماجی ‘تعلیمی ہر محاذ پر افراد کار تیار کیے جو کشمیر کاز کو زندہ رکھنے کاذریعہ بنے۔سیاسی اورپارلیمان کے میدان میں جناب سید علی شاہ گیلانی نے اپنے رفقاء جناب قاری سیف الدین ‘جناب غلام نبی نوشہری وغیرہ کے ساتھ اسمبلی کے پلیٹ فارم سے بھرپور مزاحمت کی ‘ بھارتی اور شیخ عبداﷲ کے عزائم کو بے نقاب کیا ۔جناب محمد اشرف صحرائی ‘جناب سید صلاح الدین(جناب یوسف شاہ ) ‘جناب غلام محمدصفی اور دیگر ارکان نے عوامی سطح پر شیخ عبداﷲ کو آڑے ہاتھوں لیا ۔ مرد درویش مولاناسعد الدین مرحوم نے کمال دانشمندی سے نوجوانوں میںآزادی اور حریت کی روح پھونکی ۔جناب شبیر احمدشاہ ‘جناب فاروق رحمانی ‘جناب شیخ عبدالعزیز شہید نے پیپلز لیگ کے پلیٹ فارم سے تاریخی کردار ادا کیا۔جناب اعظم انقلابی ‘ جناب یاسین ملک اور دیگر حریت پسند نوجوان اسلامی سٹوڈنٹس لیگ سے سامنے آئے ۔ جناب ایوب ٹھاکر مرحوم او رجناب شیخ تجمل الاسلام مرحوم نے اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے ہزاروںنوجوانوں کومنظم کیا۔سترکی دہائی عالمی سطح پر استعمار کے خلاف گوریلا تحریکوں کا دور تھا جس سے متاثر ہو کرجناب مقبول بٹ شہیداور ان کے رفقاء نے گوریلا کارروائیوں کا آغاز کیا ۔ اس جرم کی پاداش میں انہیں پھانسی دے کر شہید کر دیاگیا ۔ان کی شہادت نے بھی نوجوانوںکے جذبہ حریت کو ایک نیا ولولہ عطا کیا ۔1979ء میں شاہ ایران جو اس خطے میں امریکہ کا ایک بہت بڑا مہرہ سمجھا جاتا تھا کے خلاف اسلامی انقلاب کابرپا ہونا بھی اہل کشمیر کے لیے حوصلوں کی بلندی کا ذریعہ بنا۔اسی عرصے میں اسلامی جمعیت طلبہ نے ایک بین الاقوامی کانفرنس کا سرینگر میں انعقاد کا فیصلہ کیا جس پر بھارتی حکومت نے پابندی عائد کر دی لیکن یہ اقدام نوجوانوں کی بیداری کا ایک بڑا ذریعہ ثابت ہوا۔بعد میں اسی کی دہائی میں افغان جہاد میں مجاہدین افغانستان کی شاندار فتوحات اور بالآخر سوویت یونین کی شکست و ریخت سے کشمیری نوجوانوں نے یہ پیغام اخذ کیا کہ اگر ایران میں امریکی اور افغانستان میںسوویت روس کو شکست ہوسکتی ہے تو ہم کشمیر میں بھارتی استعمار کو بھی شکست دے سکتے ہیں۔حالات کے اس پس منظر میں کشمیری قیادت کی شہید ضیاء الحق سے مشاورت کا عمل شروع ہوا اورمرحلہ وار تحریک برپا کرنے پر اتفاق ہوا ۔جوںہی اقدامات شروع ہوئے عین اس موقع پر ضیاء الحق اور ان کی ٹیم کو ایک سازش کے ذریعے جہاز میں اڑا دیا گیا۔پاکستان میں انتخابات ہوئے مرکز میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت میاں نواز شریف صاحب کی قیادت میں قائم ہوئی ۔جن کے درمیان سخت بے اعتمادی اور کشیدگی کا ماحول تھا محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ نے آئی ایس آئی کے سربراہی ایک ریٹائرڈ جنرل شمس الرحمن کلو کو سپرد کر دی جس کے نتیجے میں حکومت اور عسکری قیادت کے درمیان بھی بے اعتمادی کا ماحول پیدا ہو گیا ۔ادھر کشمیر میں روزبروز حالات انقلاب کی طرف بڑھ رہے تھے۔ لاکھوں کے مظاہرے روز کا معمول بن گئے ۔ان مظاہرین پر بھارتی افواج کی فائرنگ کے نتیجے میں لاشوں کے انبار لگتے رہے ۔ مجاہدین نے گوریلا جہاد شروع کر دیا لیکن جہاد یا گوریلا تحریک کے لیے بیس کیمپ کی کمک پہنچانے والے تو شہید ہو چکے تھے ‘بہر حال جذبات کے اس طلاطم زدہ ماحول میں بھارتی مظالم سے ستائے ہوئے لیکن مزاحمت اور جذبہ انتقام سے سرشار ہزاروں نوجوان سیز فائر لائن عبور کر کے آزاد کشمیر پہنچناشروع ہو ئے تو آزادکشمیر اور پاکستان میں اقتدار کی کشمکش عروج پر تھی ۔ان نوجوانوں کی میزبانی کے لیے جناب قاضی حسین احمد مرحوم کی قیادت میں جماعت اسلامی پاکستان اور آزاد کشمیر آگے بڑھی ۔ان کے لیے طعام و قیام اور لوازمات کا اہتمام کیا ۔اس پر منظر میں ایک مشاورت میں فیصلہ ہوا کہ ان نوجوانوں اور اہل کشمیر کے حوصلے بلند کرنے کے لیے بھرپور قومی یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے ورنہ آغاز ہی میں تحریک کی یہ لہر مایوسی کا شکار ہو کر تحلیل ہو سکتی ہے۔ چنانچہ 5جنوری کو محترم قاضی صاحب مرحوم نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے اپیل کی کہ 5فروری 1990ء کو پوری قوم اہل کشمیر سے اظہار یکجہتی کرے۔یوں پانچ فروری اظہار یکجہتی کی اس اپیل پر پہلے میاں نواز شریف صاحب اور بعد میں محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے لبیک کہتے ہوئے توثیق کی ۔سرکاری سطح پر صوبوں اور مرکز میں بھرپور پروگرام ہوئے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اورجناب قاضی حسین احمد نے مظفر آباد میں الگ الگ بڑی ریلیوں سے خطاب کیا۔اس یکجہتی کے نتیجے میں نہ صرف عوامی سطح پر اہل کشمیر کو ایک حوصلے کا پیغام پہنچا بلکہ ریاستی سطح پر پاکستان میں تمام متعلقہ اداروں نے اس تحریک کی پشتیبانی کا فیصلہ کیا۔اس پروگرام کے ساتھ ساتھ جناب قااضی حسین صاحب ‘ جناب پروفیسر خورشید احمد صاحب ‘ جناب لیاقت بلوچ صاحب ‘ جناب مظفر احمد ہاشمی صاحب نے پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے پوری پارلیمان اور حکومت کو موثر کردار ادا کرنے کے لیے جھجوڑا ۔جماعت نے بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کرتے ہوئے عالم اسلام معتبر قیادت کو کشمیر کازکا سفیر بنا دیا ۔جناب قاضی حسین احمد اور جناب پروفیسر خورشید صاحب کی قیادت میں ایک قومی پارلیمانی وفد نے عالم اسلام کا تفصیلی دورہ کرتے ہوئے بھارتی مظالم اجاگر کیے
اور ان سے سفارتی محاذ پر بھرپور تعاون کی اپیل کی ۔ راقم کو بھی اس وفد کا حصہ ہونے کا اعزازحاصل ہوا ۔وفد نے متعلقہ ممالک کے اعلیٰ حکام ‘ سیاست دانوں ‘ دانشوروں ‘ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں ‘ علمائے کرام ‘ فیصلہ ساز اداروں سے ملاقاتوں کے علاوہ بڑے عوامی اجتماعات میں بھی خطابات کے ذریعے بھارتی مظالم اور عزائم اجاگر کیے ۔ان کاوشوں کے نتیجے میں ما بعد مراحل میں او آئی سی ‘ اقوام متحدہ اور تمام بین الاقوامی اداروں نے شملہ معاہدے کے تابوت سے نکالتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو عالمی توجہ کا مرکز بنایاگیا۔یقیناً اس ساری تبدیلی میں بنیادی کردار تو اہل کشمیر کی قربانیوں ہی کا ہے لیکن ریاست پاکستان سفارتی محاذ پر متحرک کردار ادا نہ کرتی تو عالمی سطح پر یہ منظر نامہ نہ بنتا۔
آج یوم یکجہتی کشمیر اس عالم میں منایا جا رہا ہے کہ بیش بہا قربانیاں دینے کے باوجود اہل کشمیر کے تمام مزاحمتی حلقے مودی حکومت کے پے درپے اقدامات کاتوڑ نہ ہونے کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہیں ۔ مودی حکومت کے 2019ء کے اقدامات کی بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے توثیق نے مایوسی میں مزید اضافہ کیا ہے۔دلی کے باخبر حلقوں کے مطابق آئندہ انتخابات جیتنے کے لیے مودی نے جہاں بابری مسجد کی جگہ مندر کھڑا کر دیا ہے وہیں دلی کی تہاڑ جیل میں محبوس حریت قائدین میں سے جناب یاسین ملک ‘ جناب شبیر احمد شاہ ‘ جناب مسرت عالم ‘ ڈاکٹر عبدالحمید فیاض اور محترمہ آسیہ اندرابی کو پھانسی چڑھانا چاہتا ہے نیز آزاد کشمیر میں ٹارگٹڈ آپریشن کے ذریعے کچھ علاقے قبضہ کر کے فتح کے شادیانے بجانا چاہتا ہے تاکہ فتح مندی کی لہر سے آسانی سے انتخابات جیت سکے۔ ان حالات کا تقاضا ہے کہ کشمیریوں کے حوصلے بلند کرنے کے لیے واضح اقدامات کا اہتمام کیا جائے ۔ لیکن کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ حالیہ انتخابات میں کشمیری قیادت کے متوجہ کرنے کے باوجود قومی قائدین کے بیانیے میں کوئی بہتری پیدا نہ ہو سکی۔پاکستان کی قومی جماعتوں نے ماسوائے جماعت اسلامی کے نہ مسئلہ کشمیر کو واضح طور منشور کا حصہ بنایا اور نہ انتخابی سرگرمیوں میں اس کی کوئی جھلک نظر آتی ہے ۔ہاں البتہ جنرل باوجوہ ڈاکٹرائن کی بھارت کے حوالے سے مایوس کن اطلاعات جو ان کے جانے کے بعد سامنے آئیں کے ازالے کے لیے چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر کے بیانات حوصلہ افزا ہیں لیکن بیانات سے زیادہ اقدامات کی ضرورت ہے جو درج ذیل ہو سکتے ہیں ۔
٭ پاکستان میں جاری موجودہ سیاسی محاذ آرائی کا خاتمہ کرتے ہوئے قومی اتفاق رائے پیدا کیاجائے ۔
٭ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حق خود ارادیت کا حصول جو مسئلہ کشمیر کے مقدمہ کی بنیاد ہے اور پاکستان کا قومی موقف رہا ہے پر سختی سے قائم رہا جائے اور ابہام پیدا کرنے والے فارمولے پیش نہ کیے جائیں۔
٭ ریاست کی وحدت کو ہر صورت برقرار رکھا جائے ۔
٭ وزارت خارجہ میں فوکل پرسن کے طور پر ایک نائب وزیر خارجہ کا تقرر کیا جائے۔
٭ بین الاقوامی انسانی حقوق کونسل اور دیگر انسانی حقوق کے اداروں کی رپورٹس کی روشنی میں نیزپاکستان امریکہ ‘کینیڈا ‘ برطانیہ میں را(RAW)کارروائیوں کی روشنی میں بھارت کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی حکمت عملی وضع کی جائے۔
٭ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے نظام حکومت کو مزید با اختیار و باوسائل بنایا جائے ‘ نیز ریاست کے دونوں حصوں کو آئینی اور جغرافیائی اعتبار سے مربوط کیا جائے۔
٭ مشیر برائے رائے شماری کا تقرر کیا جائے جو آزاد کشمیر کے آئین کا تقاضا ہے۔
٭ آزاد کشمیر ریاست جموں وکشمیر کو تحریک آزادی کا حقیقی بیس کیمپ بنانے کے لیے حریت کانفرنس کو بھی اس کا حصہ بنایا جائے تا کہ بین الاقوامی سفارتی محاذ پر کشمیری دستیاب پلیٹ فارمز پر اپنا مقدمہ خود پیش کر سکیں ‘ نیز سفارتی محاذ پر سرگرم کشمیری تنظیموں اور شخصیات کو باہم مربوط کیاجائے۔
٭ کشمیریوں کا حق مزاحمت بحال کیا جائے اس سلسلے میں ریاست پاکستان دنیا پر واضح کرے کہ پاکستان فریق ہونے کے ناطے کشمیریوں کی مدد کرنے کا پابند ہے ‘ بھارتی قبضے کے خاتمے کے خلاف تمام محاذوں پر وہ اہل کشمیر کے شانہ بشانہ ہیں ۔
٭ بھارت کے عزائم کے توڑ کے لیے پوری قوم کو جہاد کے لیے تیار کے لیے کیا جائے ‘جہاد فی سبیل اﷲ ہی پاکستان کی بقا اور کشمیر کی آزادی کا روڈ میپ ہے اس پر یکسوئی
اختیار کی جائے۔