کالم

آئیے! مہنگائی کم کریں

جسے دیکھو مہنگائی کا رونا رو رہا ہے۔ کوئی حکومت اور حکمرانوں کو برا بھلا کہہ رہا ہے تو کوئی کارخانہ داروں اور سیٹھ لوگوں کو کوس رہا ہے۔ یہ بات کسی نے سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی کہ مہنگائی کے ذمہ دار براہِ راست ہم عوام خود ہیں۔ اگر ہم اپنی عادات کو درست کر لیں تو مہنگائی کی شرح میں خود بخود کمی آنا شروع ہو جائے گی۔
معیشت سے ذرا سی شُد بُد رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ مہنگائی کا براہِ راست تعلق طلب اور رسد سے ہوتا ہے۔ جب طلب بڑھ جاتی ہے اور اس کے مقابلے میں رسد اس طلب کو پورا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو چیز مہنگی ہو جاتی ہے۔ کاروباری لوگ، مل و فیکٹری مالکان اور تاجر حضرات اس بات سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں اور وقتاً فوقتاً مصنوعی قلت پیدا کر کے اشیاء ضرورت کی قیمتوں میں مرضی کا اضافہ کر کے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سسٹم ابھی مضبوط نہیں ہوا جس کی وجہ سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ہر ایک کا اپنا بھائو ہے، چیز لینی ہے تو لو ورنہ آگے سے ہٹ جائو کہ لائن میں لگے لوگ منہ مانگی قیمت پر سودا خریدنے کو بے تاب ہیں۔ ہمیشہ سے ہمارے مشاہدے اور تجربے میں یہ آ رہا ہے کہ رمضان کا متبرک مہینہ شروع ہوتے ہی تیس روپے کلو میں بکنے والا پیاز ڈیڑھ سو روپے کلو، پچاس روپے کلو والا آلو دو سو روپے کلو، دو سو روپے کلو والی کھجور پانچ سو روپے کلو تک جا پہنچتی ہے۔ فروٹ اور مشروبات کی قیمتیں ہوشربا حد تک بڑھ جاتی ہیں۔ مہنگائی کا ایک طوفان آ جاتا ہے جسے روکنا سرکار کے بس سے باہر ہوتا ہے۔ نتیجے کے طور پر اربوں روپے کے ریلیف پیکج سے سرکاری سرپرستی میں رمضان بازار لگائے جاتے ہیں جہاں معمولی ریلیف دے کر ناقص اشیاء فروخت کی جاتی ہیں۔ عام بازاروں میں مہنگائی پر کنٹرول کرنے کی بجائے دکانداروں اور تاجروں کو کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے۔ مہنگائی پر قابو پانے کی بجائے سرکاری افسران کا سارا زور دکانداروں کو جرمانے کرنے پر ہوتا ہے، دکاندار جرمانے کی رقم بھی سودا مہنگا کر کے گاہکوں سے پوری کرتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ سردی کا موسم آتے ہی انڈوں کی قیمت اچانک بڑھ جاتی ہے۔ کیا مرغیاں انڈے دینا کم کر دیتی ہیں یا ان کی خوراک میں مہنگے خشک میوے شامل کیے جاتے ہیں؟۔ فصل کی کاشت کے موقع پر کھادوں کی مصنوعی قلت پیدا کر کے فی بوری ہزاروں روپے مہنگی بیچی جاتی ہے۔ کہنے کو ہم ایک زرعی ملک ہیں مگر گندم دوسرے ممالک سے درآمد کرتے ہیں۔ منصوبہ بندی کا ہر شعبے میں فقدان ہے۔ سیاستدان ہوں یا سرکاری اہلکاران و افسران، ہر کوئی دہاڑی لگانے کے چکر میں ہے۔ بیچارے عوام پٍس رہے ہیں مگر ان کی شنوائی کرنے والے بذاتِ خود چکی کے دو پاٹ بنے ہوئے ہیں۔ جب مسیحا ہی ڈاکو بن جائیں تو پھر کس سے فریاد کریں، کس سے منصفی کی توقع رکھیں؟ اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ خود عوام کو ہی اپنے اس درد کا علاج کرنے کے لیے کوئی قدم اٹھانا ہو گا۔ وہ قدم کیا ہو گا؟ سب سے پہلے تو ہمیں ایک قوم بننا ہو گا۔ بدقسمتی سے ہم مختلف گروہوں میں بٹا ہوا ایک ہجوم ہیں۔ سیاستدانوں نے اپنے ذاتی مقاصد کے لیے ہمیں دلکش اور دلنشیں نعروں کے لولی پاپ دے کر اپنے چنگل میں پھنسا رکھا ہے۔ ہمیں اس سنہری جال کو توڑنا ہو گا۔ ہمیں عقل سے کام لے کر سوچنا ہو گا کہ مہنگائی کے خلاف لانگ مارچ کا انعقاد کرنے والے عوام کے ہمدرد نہیں ہیں بلکہ اقتدار میں آنے کے بعد پہلے والوں سے بھی زیادہ عوام کا استحصال کرتے ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا ہو گا کہ ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا سنہرا سپنا دکھانے والے اقتدار میں آ کر لوگوں سے نوکریاں اور گھر چھین لیتے ہیں۔ ہمیں سیاستدانوں کی غلامی سے نکلنا ہو گا۔ فیورٹ ازم کے چکر میں پڑ کر مخالفین کی اچھائی کو برائی ثابت کرنے اور اپنے لیڈر کی ہر برائی کا دفاع کرنے کی روش کو ترک کرنا ہو گا۔ ہمیں اس عادت کو چھوڑنا ہو گا کہ مخالف لیڈر کے گناہ اس کے پارٹی ورکرز کے کھاتے میں ڈال کر ان پر طعنہ زنی کی جائے، ہمیں اب مجموعی جہالت کے خول کو توڑ کر اپنے حقوق اور محرومیوں کا ادراک کرنا ہو گا۔ ہمیں یوتھیے، پٹواری اور جیالے بن کر نہیں پاکستانی بن کر آگے بڑھنا ہو گا تبھی ہم ایک قوم بن سکتے ہیں اور جب ہم قوم بن جائیں گے تو ہماری سوچ بھی ایک ہو جائے گی۔ ہم پھر مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں گے، ایک دوسرے کو آسانی سے موٹیویٹ کر سکیں گے کہ مہنگائی طلب اور رسد کے توازن میں بگاڑ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ تب ہم گھروں میں اشیائے ضروریہ کا سٹاک کرنے کی بجائے ضروری مقدار میں چیزیں خریدیں گے۔ ایک دوسرے کو قائل کر سکیں گے کہ چند دن پھل نہ کھانے سے ہم مر نہیں جائیں گے، انڈوں کا بائیکاٹ کریں گے تو ان کے خراب ہونے کے ڈر سے قیمتیں خود بخود نیچے آ جائیں گی۔ ضروت سے زائد خریداری سے اجتناب کر کے مہنگائی پر قابو پایا جا سکتا ہے، ضرورت صرف 95 فیصد عوام کے متحد ہونے کی ہے جسے 5 فیصد لوگ دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ چلتے چلتے ایک زندہ قوم کا واقعہ بھی پڑھ لیجیے
شاید کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات
ارجنٹائن کا ایک شہری انڈوں کا کارٹن خریدنے گیا، بیچنے والے نے بتایا کہ کارٹن کی قیمت بڑھ چکی ہے۔ وجہ پوچھنے پر اسے بتایا گیا کہ ایسا تقسیم کاروں کی طرف سے کیا گیا ہے۔”مجھے انڈے نہیں خریدنے” یہ کہتے ہوئے شہری نے کارٹن واپس اس کی جگہ پر رکھ دیا۔ ”ہم انڈوں کے بغیر رہ سکتے ہیں” یہ کہتے ہوئے تمام شہریوں نے انڈوں کا بائیکاٹ کر دیا۔ کوئی ہڑتال ہوئی اور نہ جلوس نکلا، صرف مجموعی بائیکاٹ مہم شروع ہوئی۔ کمپنیوں سے سٹوروں نے انڈوں کی سپلائی لینی بند کر دی کہ پہلے والے انڈے ہی سٹوروں میں پڑے پڑے خراب ہو رہے تھے۔
بالآخر پولٹری مالکان گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئے، عوام کے مطالبے پر انہوں نے تمام میڈیا میں اپنی حرکت پر معافی مانگی اور سابقہ قیمت سے بھی ایک چوتھائی کم پر انڈے فروخت کرنا شروع کر دیے۔
یہ ایک سچا واقعہ ہے، کسی تخیل کی پیداوار نہیں ہے۔ ہم بحیثیت عوام کسی بھی شے کی قیمت کم کروا یا بڑھا سکتے ہیں، اس کے لیے کسی مہم یا ہڑتال کی بھی ضرورت نہیں، بس ہماری رضا اور عزم کی ضروت ہے۔
آئیے! مہنگائی کو کم کرنے کے لیے ایک قوم بن جائیں۔ جس طرح لوٹ مار کے پروگرام میں سرمایہ دار یکمشت ہو جاتے ہیں ہم بھی اشیائے ضروریہ خریدنے کے معاملے میں یکمشت ہو جائیں۔ ضرورت سے زائد کسی چیز کو نہ خریدیں۔ مہنگائی خود ہی نیچے آنا شروع ہو جائے گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button