کالم

ہم اور ہماراجمہوری نظام …”کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائوں”

وطن عزیز میں عام انتخابات کے انعقاد کا نقارہ بج چکا ہے سیاسی جماعتوں نے اپنی تیاریاں شروع کردی ہیں، امیدواروں کا عوام کے پاس جانے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے،لوگوں کی غمی اور خوشی میں شریک ہونے اور سماجی روابط بڑھانے کا موسم اپنے عروج پر ہے امیدو اران عوام کا دل جیتنے کیلئے کوشاں ہیں انکے مسائل کے حل کیلئے وعدے وعید کیے جا رہے ہیں عوام کی مشکلات اور تکالیف دُور کرنے کے لیے دن رات ایک کردینے کی یقین دھانیاں کرائی جاری ہیں کئی شہروں میں ترقیاتی کاموں پر بھی تیزی سے عملدرآمد ہو رہا ہے اور ہر جگہ عوام کی ہاں میں ہاں ملائی جا رہی ہے ہر جانب سیاسی ماحول اپنی گرمائش دکھاتا نظر آرہا ہے اور دوسری جانب عوام یہ سوچ رہی ہے کہ یہ خوبصورت اور دلکش ماحول تو محض چند روزہ ہے یہ تو انتخابات کا انعقاد ہوتے ساتھ ہی ختم ہو جائے گا قوم تو یہ بھی سوچ رہی ہے کہ ایسے وعدے تو اُن کے ساتھ ماضی میں بھی کئی مرتبہ ہوچکے ہیں ماضی میں بھی عوام سے بلند و بانگ وعدے ہوئے تھے کہ اُن کے بچوں کو مفت تعلیم ملے گی ، صحت کی سہولیات ملیں گی مناسب اور با عزت روزگار ملے گا اس قوم کے ساتھ مہنگائی اور بے روزگاری ختم کرنے کے وعدے ماضی میں بھی وقتاً فوقتاً کیے جاتے رہے ہیں ان دعوئوں کا کیا بنا اور کتنے وعدے پورے ہوئے، یہ سوال ہر ذی شعور کے ذہن میں موجود ہے عوام کو یہ بھی بخوبی اندازہ ہے کہ اب کی بار کیے جانے والے وعدے اور دعوے بھی بس ماضی ہی کی طرح محض خوشنما اور دلفریب الفاظ ہی ثابت ہوں گے مگر یہ بیچاری قوم آخر کیا کرے اور کہاں جائے، لوگوں کے بس میں آخر ہے ہی کیا؟ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ انتخابات کے بعد عام آدمی کو کوئی پوچھتا تک نہیں، اس سے کیے گئے وعدے ہوا میں اُڑ جاتے ہیں وہ بے چارہ اپنے بچوں کی صحت، تعلیم اور مستقبل کی خاطر در بہ در ٹھوکریں کھاتا نظر آتا ہے شنوائی تو صرف اُن کی ہوتی ہے کہ جن کی کوئی سیاسی وابستگی ہوتی ہے یا جن کی جیب میں کوئی خرچہ پٹھہ ہوتا ہے جمہوری نظام کی منشاء تو ایسی ہر گز یہ نہیں تھی ۔ اس نظام کی تعریف و توصیف کرنے والے کہتے تھے کہ جمہوریت سے مراد ہے عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے اور عوام کیلئے، مگر آج عملی طور پر حالات اور صورتحال اس تعریف اور توضیع سے خاصی پَرے نظر آتی ہے ۔ عوام کی حکومت کے نعرے کو اگر دیکھیں تو یہ بات بالکل عیاں ہے کہ عام آدمی تو بے چارہ انتخابات میںحصہ لینے کا تصور بھی نہیں کرسکتا عام آدمی تو دو وقت کی روٹی اور چادر و چار دیواری کے بھنور سے ہی نہیں نکل پا رہا ، تلخ حقائق تو یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ نظام ہمارے ہاں خواص کی حکومت، خواص کیلئے اور خواص کے ذریعے ثابت ہو رہا ہے۔ اس نظام کے حامی اور ناقد ین بڑی تعداد سے ازل سے ہی موجود ہیں اور دونوں اطراف کے دلائل میں خاصا وزن بھی موجود ہے اس نظام کی ایک بڑی خوبی تو یہ بیان کی جاتی ہے کہ لوگ اپنے حکمران خود ہی منتخب کرتے ہیں مگر اس کی خامیاں بہت زیادہ بیان کی گئی ہیں یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ جمہوری نظام زیادہ پڑھے لکھے ، مُہذب اور جدید معاشروں میں قدرے زیادہ کامیاب ثابت ہو رہا ہے بہ نسبت ترقی پذیر ممالک کے، ہمارے سمیت ترقی پذیر ممالک میں جمہوری نظام کو اپنے ثمرات اور فوائد ثابت کرنے کیلئے کئی طرح کے چیلنجز درپیش ہیں اور کئی طرح کی رکاوٹیں اس کی راہ میں حائل ہیں۔ ہمارے ہاں جمہوری نظام کی مقبولیت نہ ہونے کی وجوہات کی ایک لمبی فہرست ہے بڑے بڑے سرمایہ دار ، وڈیرے ، جاگیردار اور تاجر اس نظام پر پوری طرح قابض ہیں جو کہ نسل در نسل اس نظام کے ساتھ چلتے آرہے ہیں سیاسی جماعتیں ذاتی اور خاندانی کاروبار کی مانند خاندانوں میں سمٹ کر رہ چکی ہیں سیاسی جماعتوں کے منشور بس خوبصورت الفاظ ہی بن کر رہ گئے ہیں ۔ ایوانِ بالا میں ٹیکنو کریٹس کے لیے مخصوص نشستیں بھی بد قسمتی سے ایسے افراد کو بانٹ دی جاتی ہیں کہ جو کسی بھی حوالے سے ٹیکنو کریٹس کی تعریف پر پورے ہی نہیں اُترتے۔ پارٹی کا ٹکٹ دیتے وقت قابلیت ، تعلیم وتربیت اور کردار پر نظر ڈالنے کا یہاں سرے سے کوئی رواج ہی نہیں، کئی سیاسی جماعتوں کو ملک کو درپیش مسائل اور اُن کے حل کا ادراک تک نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نظام آج تک عوام کو پینے کا صاف پانی تک نہیں دے سکا ، یہ نظام سڑکوں پر دُکانداروں کی تجاوزا ت اور قبضہ کا خاتمہ نہیں کر سکا۔ بلاشبہ مسئلہ نظام حکومت میں نہیں بلکہ اس نظام کو نافذ اور لاگو کرنے والی سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کا ہے، منتخب نمائندے اپنی جماعتوں میں اپنے حلقے کے عوام کی آراء کی نمائیندگی، پاسداری اوروکالت کرنے میں بُری طرح ناکام نظر آتے ہیں ، اہم ترین سوال یہ ہے کہ اتنے بھاری بھرکم اخراجات کے نتیجہ میں ہونے والے انتخابات کا آخر عوام کو کیا فائدہ ہو گاکہ اگر عوامی مسائل حل نہ ہو سکیں اور لوگوں کی توقعات اور اُمیدیں پوری نہ ہو سکیں، جمہوری نظام کی مضبوطی، بقاء اور ثمر آور ہونے کے لیے ضروری ہے کہ بڑے پیمانے پر اس نظام میں اصلاحات کی جائیں اور سیاسی جماعتوں کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ صرف قابل، پڑھے لکھے اور اہل افراد ہی کو پارٹی ٹکٹ دیں، سیاسی جماعتوں کے تنظیمی ڈھانچے بھی جمہوری اصولوں اور روایات ہی کے مطابق بنائے جانے ضروری ہیں ایسے کئی ممالک ہیں کہ جہاں سیاسی جماعتوں کو انتخابات سے قبل فکری اور شعوری تربیت کے لیے مختلف تھنک ٹینکس میں کورسز کروائے جاتے ہیں تاکہ آنے والی قیادت کو ملک میں درپیش مسائل سے آگاہ کیا جا سکے او ر اُن کے حل کے لیے طریقہ کا ر، پالیسی اور اقدامات کے حوالے سے تربیت کی جا سکے، اس بات سے کون اختلاف کر سکتا ہے کہ ووٹ کسی کی قابلیت کی دلیل ہر گز نہیں ہوسکتا پاکستان کو آنے والے وقت میں عالمی منظر نامے کے حوالے سے کئی چیلنجز کا سامنا ہے جن سے نبردآزما ہونے کے لیے ایسی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے کہ جو اہل اور با صلاحیت ہو۔علمائے سیاست نے ریاست کو ایک کشتی کی مانند تشبیہ دی ہے اور اُن کا مئوقف و استدلال ہے کہ کشتی کے کیپٹن کے لیے بے حد ضروری ہے کہ وہ باصلاحیت ، تجربہ کار ، اہل ، دانشمند اور کشتی چلانے کی مہارت رکھتا ہو، جمہوریت کی مضبوطی کے لیے سیا سی جماعتوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کو مایوسی اور نا اُمیدی سے بچائیںاور اپنے طرزِعمل و اقدامات سے ثابت کریں کہ یہ نظام واقعتا عوام کی حکمرانی ہی کا نظام ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button