کالم

خط کا لفافہ مضمون سے زیادہ اہم ہو گیا

آج کل انتخابی میلہ سجا ہے،ہرطرف تصاویر، نعرے اور رونق لگی ہے۔امیدواران کے ساتھ تصاویر، ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی ڈور ہے۔منشور اور پروگرام پر بات نہیں ہوتی، دلکش نعرے، وعدے اور دعوے ہیں۔سنجیدہ گفتگو اور موازنہ کر نے کی بجائے سیاست میںذات و شخصیات ہی سامنے ہیں۔چیف سپورٹرز ہیں امیدواران ہیں، ویڈیوز ہیں تصاویر ہیں سب کچھ ہے سنجیدگی نہیں اجتماعیت نہیں۔خود نمائی ہے۔جگ ہنسائی ہے غریب کے مقدر میں صرف رسوائی ہے۔دولت کی نمائش ہے بس جیت جائیں یہی خواہش ہے۔شہرت ضروری ہے یا مجبوری ہے۔خط کا لفافہ خط کے مضمون سے زیادہ اہم ہو گیا ہے۔خودنمائی اور اپنی شخصیت کو نمایاں کرنے کا احساس ہرایک میں تھوڑابہت موجود ہوتاہے۔انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ جاذب نظر اور اہم کام انجام دے کر اپنی شخصیت واہمیت دوسروں پر ثابت کرسکے تا کہ دوسرے اسے سراہیں،اس کی قدر پہچانیں اور اسکے وجود کو غنیمت شمار کریں۔خودپسنداپنے آپ کو چھپا ہوا خزینہ تصور کرتے ہیں جوظاہرہونے کے لیے بیتاب رہتے ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے ہر انسان میں کچھ خاص صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں بہتر تو یہی ہوتا ہے کہ ُاْن صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ہی اپنا نام اور مقام پیدا کیا جائے۔صلاحیتوں کو منوانا الگ بات اور خود پسندی،خود نمائی کی خواہش،نت نئے جتن ایک مختلف رویہ ہے۔ دنیا میں ہونے والے متعدد کاروبار ہماری خود نمائی کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کے لیے وجود میں لائے گئے۔ فیس بک ہو یا دیگر ایپس خود نمائی کے جذبے کو تسکین فراہم کرنے کے دیدہ زیب پلیٹ فارم ہیں۔خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کچھ کرنے سے قبل بہت کچھ ہونے کا احساس برتری پیدا ہوجاتا ہے۔صلاحیت کے اظہار سے قبل اپنے ہونے کا اعلامیہ جاری کر دینا درحقیقت اپنی شکست کا اعلان ہوتا ہے۔ستائش کے لیے جتن اورگری حرکات ناکامی پر مہر ثبت کردیتی ہیں۔خود کو شمع محفل بنانے کے چکر میں صلاحیتوں کے اظہار کی بجائے شہرت اورستائش کی خواہش عقل پر قفل بندی کردیتی ہے۔ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارا احساس تشخص دوسروں کی گواہی کے مرہون منت ہے۔ ہم انکے رحم و کرم کے محتاج ہو جاتے ہیں۔اپنی زندگی کو دوسروں کے ردعمل سے وابستہ کرنے سے کامیابی کاسفر رک جاتا ہے۔ اپنی صلاحیتوں کا اظہار ضرور کریں، ستائش پر شکر بجالائیں اور ناقدین کی تنقید سے دکھی نہ ہوں بلکہ اس در کو کھلا رکھیں جہاں سے روشنی آپکے وجود میں داخل ہوسکے۔خود پسندی میں مبتلا ہو کر خوابوں کا شیش محل نہ بنائیں۔قارئین کرام!آج معاشرے پر نظر ڈالنے سے اس بات کا خوب اندازہ ہوتا ہے کہ عصرِ حاضر میں اس خود پسندی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔کتنے ایسے لوگ ملیں گے جو چند سطور لکھ کر خود کوقلم کار سمجھنے لگتے ہیں۔تعلق،سفارش یا دھن دولت کے بل بوتے پر میڈیا سے خود کو نتھی کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو آغاز ہی سینئر صحافی کے ٹائٹل سے کرتے ہیں۔بعض افراد ایسے بھی ہیں جو دولت حاصل ہوتے ہی خود کو صاحب منصب،اداروں کے صدر،عوامی نمائندے بن جائیں اور نہ جانے کون کون سے مناصب اپنے نام کے ساتھ جُوڑنا اپنا حق سمجھنے لگتے ہیں۔جی ہاں یہی ہمارے معاشرے کی حقیقت ہے۔چاروں اطراف خود پسندی میں مبتلا افراد اس قدر مگن ہیں کہ وہ کوئی کسی کی پرواہ نہیں کرتے۔یقیناً ایک بہت بڑا المیہ ہے۔صحافت عوامی ترجمانی کا نام ہے طاقتور طبقات کی حاشیہ برداری صحافت نہیں لیکن صحافت کے نام پر خود نمائی کے طلبگاروں کا ننگا ناچ دکھائی دیتا ہے۔جو لوگ خود پسندی کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں انہیں یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ وہ سعادت و کامیابی کے ثریا پر فائز ہو چکے ہیں، اب انہیں کسی طرح کے اعمالِ خیر یا پروفیشنل تقاضہ کو مدنظر رکھنے اور حقیقی فرائض بجا لانے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔
ستائش کی خواہش اور خود نمائی ایسی سوچ ہے جو بیمار ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔اندر سے کھوکھلے اور صلاحیت سے عاری افراد اپنی ستائش اور سستی شہرت کے لیے نت نئے جتن کرتے ہیں۔سوشل میڈیا پر خوشگوار موڈ، سرکاری افسران کے ساتھ تصاویر بڑے بھائی کے ساتھ خوشگوار موڈ اور خود ہی درخواست کرکے ملاقات کی یادگاری لمحات کیمرہ کی آنکھ سے کیپشن کے ساتھ اپ لوڈ کرکے اپنی حیثیت کواپ ڈیٹ کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ان کرداروں اور ذہنی بیماروں کے حاشیہ بردار معیار اور کردارکی اہمیت کو سمجھ نہیں سکتے۔سماجی خدمات نہیں، سیاسی تربیت نہیں بس پوسٹر، فلیکس اور تقریبات کا خرچہ جیب سے ادا کرکے عوامی رہنما ٹھہرے۔ تصویر ہو بے شک گلے میں غلامی کی زنجیر ہو فرق نہیں پڑتا۔ یہ کردار معاشرتی زوال میں حصہ دار اور متعلقہ شعبہ کی بدنامی کے ذمہ دار ہیں۔ہمیں ایسے کرداروں سے خود کو دور رکھنا ہے۔آج میدان سیاست ہو یا سماجی شعبہ بے تحاشہ تنظیمیں نظر آتی ہیں جہاں صدور یا عہدیداران نمایاں ہونگے۔مقصد کا حصول اور کامیابی کہیں نظر نہیں آتی۔یہ سب خود نمائی اور خودپرستی کا کمال ہے۔دعویدار کی بہت کامیابی معدوم ہے۔ہمیں سمجھنا چاہئیے کہ احادیث اور روایات ہی کی روشنی میں خود پسندی عقل کے لیے آفت ہے۔ خودپسندی حماقت، ہلاکت اورترقی میں مانع ہے۔حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں
”خود پسند شخص بے عقل ہوتا ہے۔”ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں ”خود پسندی راہِ راست کی مخالفت اور عقول کے لیے آفت ہے”۔بے عقل ہونے سے بہتر ہے محنت کے بل بوتے پر کامیابی کی طرف بڑھیں، سیکھنیاور سوچ بچار کو اپنا شعار بنائیں۔اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ رکھیں کامیابی، شہرت اور عزت اللہ کے اختیار میں ہے۔سستی شہرت کے چکر میں اپنی ذات اور متعلقہ شعبہ کی بدنامی کا باعث نہ بنیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button