کالم

اقتدار کی بجائے جمہوری اقدار کی سیاست کو اپنائیں

وفاق سمیت چاروں صوبوں میں قائدایوان منتخب ہوچکے ہیں۔کابینہ کی تشکیل اور صدارتی انتخاب کا مرحلہ بھی جلد مکمل ہو جائے گا۔انتخابات کی شفافیت پر سوالات اپنی جگہ مگر اپوزیشن حکومت کو ہر سطح پر چیلنج کرنے کے لیے متحرک ہے۔نئی منتخب حکومت کے لئے جہاں معاشی مسائل اور مہنگائی میں کمی جیسے اہم ایشوز ہیں وہیں انہیں محدود وقت میں کئی کام کرنے ہوں گے۔ سب سے پہلے تو ایک عوامی فلاحی بجٹ کے لئے ہنگامی تیاری کرنی ہوگی۔معاشی معاملات آئی ایم ایف سے معاہدہ پر منحصر ہیں۔معاشی مسائل کے ساتھ ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کیکم ہونے کے امکانات بہت ہی محدود ہیں۔وزیراعظم کے انتخاب کے ساتھ ہی یہ سوال سامنے آیا کہ حکومت کتنی مستحکم اور کتنا عرصہ چلے گی۔۔؟ اس موضوع پر تبصرے روزاول سے ہی قومی میڈیا پر دیکھ اور سن رہے ہیں۔نئے پارلیمانی دور کے آغاز پر ہی اپوزیشن کی طرف سے نعرے، احتجاج،شورشرابا، الزامات اور اسمبلی کو نہ چلنے دینے کے دعوے،حکمران جماعت کی طرف سے 9مئی پر سیاست کرنے کی خواہش ان حالات میں یہ سوال تو بنتا ہے کہ پارلیمنٹ کیسے چلے گی؟قارئین کرام! قوم کی اصل طاقت قومی ضمیر ہوتا ہے، سیاسی رہنما قوم کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہیں اور قومی ضمیر کی عکاس پارلمیان ہی ہوتی ہے۔ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ حکمران طبقہ نے قومی ضمیر اور احساس کو دبانے یا کچلنے پر توجہ مرکوز رکھی۔مسلسل اس طرز حکمرانی کا نتیجہ یہ رہا کہ سیاسی بے حسی طاری نظر آتی ہے۔نفسانفسی کی کیفیت ہے اجتماعی مفاد سے دلچسپی رکھنے والے کم سے کم ہوتے چلے جارہے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انفرادی اور جماعتی مفاد ہی سب کچھ ہے۔پار لیمانی سیاست سے عوام کا تعلق کتنا مضبوط ہے یہ حکومت کی تشکیل سے ہی واضح ہوگیا۔لیڈران کی تصاویر، قصیدے نعرے اور سیاسی مخالفین پر زبانی حملے، غریب عوام مہنگائی عوامی مشکلات کا احساس اور انکا ذکر بھی تمام کاروائی کا حصہ نہیں۔ایسا لگتا ہے کہ حکمرانوں کا طبقہ الگ ہے اور عوام الگ ہیں۔اب عوام مظلومیت اور بے بسی کو اپنا مقدر سمجھتے ہوئے خاموش بیٹھ سکتے ہیں دوسرا کوئی راستہ نہیں۔1988سے 2018تک تمام انتخابات کے شفاف اور دھاندلی سے پاک ہونے پر حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔الزامات، بہتان تراشی، انتخابات کو متنازعہ بناکر پاکستان کو دنیا بھر میں رسوا کرنا ہماری تاریخ کا افسوس ناک بات ہے۔اب 2024 کے انتخابات کے حوالہ سیصورتحال بہت ہی تشویشناک ہے۔پی ٹی آئی،سنی اتحادکونسل، جماعت اسلامی،جے یو آئی(ف)،سندھ اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں انتخابات کے نتائج کو مسترد کررہے ہیں۔مسلم لیگ(ن) واحد جماعت ہے جو انتخابی نتائج سے مطمئن ہے۔پنجاب میں اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتی ہے اور وفاق میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی سیاسی حکمتِ عملی کو دیکھنا ہے کہ اگر پی ٹی آئی نے مزاحمت کی تو سختی سے نمٹا جائے گا یا نہیں۔تجزیہ نگاروں کے مطابق مریم نواز کے لیے اب یہی امتحان ہو گا کہ وہ اپوزیشن کی سیاست سے نکل کر اقتدار کی سیاست کس طرح کرتی ہیں۔گزشتہ دو برسوں میں بہت کچھ تبدیل ہوا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں مضبوط اپوزیشن مریم نواز کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔میاں نواز شریف جو سینئر سیاست دان ہیں موجودہ حالات میں پس منظر میں جاتے دکھائی دیتے ہیں، انکی واحد کامیابی مریم نواز کی نئی سیاسی منزل کا آغازہے۔ یہ سفر کتنا کامیاب رہتا ہے اس پر حتمی رائے دینا قبل از وقت ہے لیکن مریم نواز کے لیے حالات ویسے نہیں جیسے میاں نواز شریف کو میسر رہے۔مریم نواز نے ایسے حالات میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی باگ ڈور سنبھالی ہے جبکہ انتخابی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ تحریکِ انصاف اب بھی پنجاب میں بڑی سیاسی قوت ہے۔اس لیے یہ سوال اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ سیاسی کردار میں پی ٹی آئی کا مقابلہ کرنے والی مریم نواز بطور وزیرِ اعلیٰ اس حریف کے بارے میں کیا حکمتِ عملی رکھیں گی؟ مریم نوازنے بھی اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بطور حکمران پنجاب سے اپنے سفر کا آغاز کیا ہے۔ ان کے چچا شہباز شریف بھی اسی راستے سے وزارتِ عظمی کے منصب تک پہنچے ہیں۔اب حالات بہت بدل چکے ہیں۔انکے والد میاں نوازشریف کا مقابلہ پی پی پی کے ساتھ تھا۔پی پی پی جمہوری استحکام کے لیے اپوزیشن کا کردار ادا کرنے پر تیار رہی اور ایک حد سے آگے نہیں گئی۔لیکن پی ٹی آئی سیاسی مخالفین کا وجود بھی تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔مفاہمت یا انتظار کرنے کی پالیسی بانی پی ٹی آئی کی سیاست کا حصہ نہیں رہا۔پی ٹی آئی یکسر مختلف ہے ایک ایسی جماعت جو بات چیت سے انکار کرے اور احتجاج کو ہی سیاست سمجتھی ہو ایسی جماعت کومریم نواز نے اپنے جلسوں میں دہشت گرد جماعت کہا ہے اور ان سے ویسا ہی سلوک کرنے کی بات کرتی رہی ہیں۔ پھر وہ نو مئی اور 28 مئی والوں کی تقسیم کرتی ہیں۔ اس طرح ہماری سیاست جو پہلے ہی شدید تقسیم کا شکار ہے اس میں کمی کی امید کم ہے۔پنجاب میں اگر مزاحمت ہوتی ہے تو مریم ان سے سختی سے نمٹیں گی۔مریم نواز نے 26 فروری کو بطور وزیرِ اعلیٰ اپنے انتخاب کے بعد جو تقریر کی اسے مفاہمانہ پیغام کے طور پر دیکھا گیا ہے۔لیکن مسئلہ تو حقائق کا ہے بیانات کا نہیں۔ زمین پر ان کی پالیسی کیا ہو گی اصل اہمیت اس بات کی ہے۔2مارچ کو پی ٹی آئی کے احتجاج پر گرفتاریاں ہوئیں اس اقدام کے بعد اس تقریر کی اہمیت کیا رہ جاتی ہے سب نے دیکھ لیا۔مریم نواز سے زیادہ شہباز شریف کی سیاست داو پر لگی ہے۔انکے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں اور عوام اب سیاسی نعرے سننا نہیں چاہتی۔مسلم لیگ (ن) کو جو مینڈیٹ ملا ہے اس نے نوازشریف کو نئے سیٹ اپ پر مجبور کیا ہے۔ اب شہبازشریف اور مریم نواز کی سیاسی بقا ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے سیاسی مستقبل کا انحصار اب صرف صوبائی حکومت پر نہیں بلکہ وفاق میں شہباز شریف کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ وفاق میں حکومت چلانا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ایک طرف خاندانی اقتدار کی سیاست ہے۔ دوسری طرف بانی پی ٹی آئی کی خواہشات ہیں۔انتخابی نتائج کو لیکر احتجاج کی سیاست پی ٹی آئی کی حکمت عملی ہے۔عوامی مسائل اور انکا حل کہیں بھی زیر بحث نہیں۔جمہوری اقدار کا تقاضا کچھ اور ہے۔سسٹم چلے اور اس کو بہتر کیا جائے یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب پارلیما ن کو اہمیت دی جائے گی۔ قومی اتفاق رائے سے مسائل کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔اگر اقدار کی بجائے اقتدار کی سیاست جاری رہی تو کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ عوام تو پہلے ہی پوچھ رہے ہیں کہ ہمارے ووٹ سے بدلا کیا؟ہماری جمہوری اقدار قابل فخر نہیں لیکن انکو بہتر کرنے سے ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے ۔۔دوسرا اور کوئی راستہ نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button