کالم

چنار شعلے اور یکجہتی کشمیر

چنار شعلے اُگل رہے ہیں،دلوں میں جذبے مچل رہے ہیںسری نگر کے ہر ایک گھر میں وفا کے چشمے اُبل رہے ہیں
86 سالہ بزرگ کشمیری کا روایتی ثقافتی لباس پھیرن زیب تن کیئے چار پائی پر بیٹھے خود کلامی میں مصروف تھے اور آنکھیں بھی بھری بھری نظر آرہی تھیں بار بار چشمے کو ٹشو پیپرسے صاف بھی کررہے تھے عجیب سی بے چینی میں مبتلا نظر آئے کہ ہم کب آزاد ہونگے؟ ہماری کوششیں کب ثمر آور ہونگی ؟ ہم بد نصیب لوگوں کو آزادی کب ملے گی؟ سوالات جاری ہیں اور پھر کہتے سنا کہ میری آنکھوں نے دو ملک بنتے دیکھے ہیں، ہجرت کا سفر دیکھا ہے،بس ضمیر نے کبھی غلامی کو قبول نہیں کیا، یہ جملے جیسے سینہ چیر رہے تھے کیونکہ 86 سالہ بزرگ نے خود کو ابھی تک تحریک آزادی کشمیر سے جوڑ رکھا ہے ، جوڑے بھی تو کیوں نہیں چونکہ جن کا خاندان بے رحم سامراج کی وجہ سے تقسیم ہو جائے وہ 180سالہ زندگی میں بھی ہو کبھی اپنوں کی محبت کو فراموش نہیں کر پائے گا، صدیوں کی صدیاں گزر جائیں مگر ایک ہونے کیلئے تڑپ ہمیشہ رہتی ہے۔ ماسٹر محمد یوسف بٹ جو مقبوضہ جموں وکشمیر میں ایک سکول کے انچارج تھے، جن کی پیدائش 1938کی ہے، پاکستان اور بھارت کا قیام 09 سال کی عمر میں دیکھ چکے ہیں، 1955 میں اُس وقت میٹرک کی اور 1956 میں شعبہ تعلیم سے وابستہ ہو گے، کشمیر کے مسئلے کو لے کر پاک بھارت جنگیں دیکھ چکے ہیںاور ہندوستان کے جبری ناطوں کی طویل تر داستانیں دل و دماغ پر ثبت ہوں وہ اپنی آزادی کا خواب نہیں دیکھیں گے اور اس درد اور تکلیف کا اندازہ کوئی دوسرا کیسے کرپائے گا چونکہ ظالم زمانے میں آج بھی یہ قضیہ کشمیر موجود تو ہے مگر سرد خانے میں جسے 76سالوں سے کوئی خاص اہمیت نہیں دی جارہی ہے۔ ماسٹر یوسف بٹ کہتے ہیںکہ وقت کیساتھ ساتھ سن1988 میں آزادی کی تحریک ابھر گئی تھی، مقبوضہ جموں وکشمیر کے گلی کوچے میں بھارت کیخلاف نفرت جنگل میں آگ کی طرح پھیل چکی تھی اور اس میں رتی برابر بھی کمی نہیں آرہی تھی، اس ساری صورتحال میں بھارت کشمیریوں پر برس پڑا تھا اور گھروں کے گھر جل رہے تھے ، ہندوستانی فورسز کے اندر کشمیریوں کیلئے نفرت مزید بڑھ رہی تھی چونکہ کشمیری آزادی مانگ رہے تھے اور بھارت کشمیریوں کی نسل کشی کے ذریعے اپنے قبضے کو دوام بخش رہا تھا ۔ دنیا سارے منظر کو ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے سن اور دیکھ تو رہی تھی مگر عالمی برادری کے دہرے معیار کی وجہ سے کشمیریوں پر ڈھائے جانیوالے مظالم کو معمول کی روٹین سمجھ کر دنیا نے توجہ نہ دی۔ بھارت اپنی طاقت کے نشے میں بد مست ہو چکا تھا اور درندہ صفت فورسز کو کھلی چھوٹ دیدی گئی تھی جس نے 1990 سے 95ء تک کشمیر کے علاقوں میں دلخراش واقعات کو جنم دیا، سانحہ کنن پوش پورہ سمیت کئی علاقوں میں خواتین کیساتھ ظلم و زیادتی کی گئی اور آج تک ان مظالم پر کسی بھی بھارتی فوجی کو سزا نہیں ملی ہے ۔ ایسے دلخراش واقعات کی وجہ سے کشمیر کے عوام میں بھارت کیلئے نفرت میں مزید تیزی ہی آنی تھی۔
سکولوں میں زبردستی بند ماترم اور سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا ، پڑھایا جارہا تھا، ماسٹر محمد یوسف بٹ جو 1990سے قبل مقبوضہ جموں و کشمیر میں ایک سکول انچارج تھے اور فارسی کے ٹیچر بھی تھے۔ ان کے سکول میں علامہ اقبال کی نظم پڑھائی جارہی تھی چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا ۔ کہ اتنے میں ہندوستان کی فورسز اور ایجنسیوں کے اہلکار زبردستی یہ پڑھانے پر مجبور کررہے تھے کہ سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا، بند ماترم پڑھو، جو انہوں نے قبول نہیں کیا، ان کے علاقے میں تھانے میں موجو د عملے کو بھی زد کوب کیا جارہا تھا چونکہ تھانہ میں موجود عملہ مسلمان تھا، مظالم میں تیزی آئی تو ماسٹر محمد یوسف بٹ اپنے قریبی رفقاء جن میں راجہ اظہار خان مرحو م بھی شامل ہیں مشورہ کر کے پاکستان ہجرت کو ترجیح دی اور اس طرح 14سوافراد نے ایک ہی دن بھارت کی غلامی سے انکار کرتے ہوئے اپنا سب کچھ چھوڑ کر آزادکشمیر ہجرت کر آئے۔جن میں تھانہ کے انچار ج اور پویس اہلکاران سمیت 2سو سے زائد سرکاری ملازمین بھی شامل ہیں۔ 8600 کے قریب خاندان آج بھی آزادکشمیر کے مختلف خیمہ بستیوں میں رہائش پذیرہیں، جن کی عظیم قربانی اور پاکستان سے محبت انمٹ ہے ۔جنہوں نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں سرسبز چنار،ہرے بھرے کھیت، باغات ، خزانوں کے خزانے چھوڑ دیئے نہ بند ماترم کہا اور نہ ہی ہندوستان کو اپنا ملک قرار دیا ہے ۔ چنار شعلے اگل رہے ہیں اور دلوں میں جذبے مچل رہے ہیں، یہ حقیقت ہے کہ سری نگر سمیت مقبوضہ جموں وکشمیر کے ہر ایک گھرمیں وفاکے چشمے اُبل رہے ہیں۔ یہ زندہ جاوید مثا ل ہے جن کی لازوال جدوجہد کی بدولت ہی ہندوستان کا غرور خاک میں ملا ہے۔ یوم یکجہتی کشمیر کی مناسبت سے ماسٹر محمد یوسف بٹ صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوا تھا، جو خود کلامی کررہے تھے ان سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل ہوا کیوں کہ وہ میرے دادا جان کے اچھے ساتھیوںمیں سے تھے۔ماسٹر محمد یوسف بٹ صاحب نے میرے دادا مرحوم نمبردار محمدیاسین میر بارے بتایا کہ وہ صرف نمبردار ہی نہیں تھے بلکہ خود سے ایک یونیورسٹی تھے ، ایسی شخصیا ت مدتوں بعد پیدا ہوتی ہیں۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں ہمارا ضلع تو ایک ہی تھا مگر علاقے الگ الگ تھے اور سیاسی جماعت بھی ایک ہی تھی۔ جہاں انہوں نے میرے دادا مرحوم نمبردار محمد یاسین مرحوم کی جدوجہد آزادی کشمیر کے حوالے سے خدمات کا ذکر کیا وہیں راجہ اظہار خان مرحوم کی خدمات کو بھی قابل ستائش قرار دیا ہے۔ اس موقع پر راجہ ظہیر خان بھی موجو د تھے راجہ ظہیر خان کہتے ہیں کہ وہ صرف 26سال کے تھے جب وہ کشمیر سے ہجرت کرکے مظفرآبادآئے تھے۔ اب ان کی عمر 60 سال کے لگ بھگ ہے مگر آج بھی آزادی کیلئے حسرت کو ٹ کوٹ کر بھری ہے۔ ماسٹر یوسف بٹ کہتے ہیں کہ تعلیمی خدمات صرف مقبوضہ جموں وکشمیر میں ہی نہیں دیں بلکہ مظفرآباد میں بھی نجی تعلیمی اداروں میں بچوںکو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے میں ہر ممکن اقدامات اٹھائے ہیں۔ آج الحمد اللہ ہزاروں طالبعلم مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں، جن میں پی ایچ ڈی سکالرز، ڈاکٹرز ، انجینئرز بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم جب مقبوضہ جموں وکشمیر میں تھے یہاں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیدی گئی ہم نے اپنے علاقوں سے اس طرف پتھر مارے کیوں کہ بھٹو عظیم شخصیت تھی اور ہمارے لیئے ایک امید تھی کہ وہ کشمیر کی آزادی کیلئے ٹھوس کردار ادا کریں گے۔ ہمیں پاکستان سے کبھی کوئی شکوہ نہیں ہے ، ہم تو ہمیشہ کی طر ح پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ وہ ہماری اخلاقی، سیاسی، سفارتی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم پاکستان کے سیاسی ، معاشی حالا ت پر تکلیف ضرور ہوتی ہے۔ اس لیئے جہاں یوم یکجہتی کشمیر پر پاکستان کے عوام، حکومت، فوج سب ایک پیج پر ہیں اور کشمیریوں کی حمایت کا علم بلند کرتے ہیں لہذا پاکستان کی ترقی کیلئے سب کو مل کر اپنا اپنا رول ادا کرنا ہوگا کیونکہ پاکستان کی مضبوطی سے ہی ہماری آزادی کا خواب عملی شکل اختیار کرے گا ۔ خواہش تو ہے کہ اپنی زندگی میں آزادی کے خواب کی عملی تعبیر دیکھیں اس خواب کو حقیقت کے روپ میں دیکھنے کیلئے مہاجرین کی بڑی بڑی عظیم شخصیات جنہوں نے بے لوث قربانیاں پیش کیں وہ دارفانی سے کوچ کر گئی ہیں ، ہمارا بچہ بچہ آزاد ی کی نعمت دیکھنے کیلئے تڑپ رہاہے، جس سرزمین پر بھارت کے ناپاک قدم ہیں
اسے بھارت کی غلامی سے چھڑانے کیلئے 86 سال کی عمر میں بھی تیار بیٹھا ہوں۔ بزر گ شخصیت کے جذبات انتہائی حوصلہ افزا دیکھ کر امید ہو چکی ہے کہ ہم کمزور ہیں نہ بزدل بس دنیا کی خاموشی پر ضرور ماتم کناں ہیں۔ کشمیریوں کی منزل آزادی ہے جو مل کر رہے گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button