
5فروری یوم یکجہتی کشمیر اس عہد کی تجدید کے ساتھ منایا جا رہا ہے کہ بھارت سمیت دنیا کہ ایوانوں میں پاکستانی اور کشمیری عوام کی آواز یک زبان ہو کر گونجے کہ ہم ایک ہیں اور ایک رہیں گے۔پاکستان کشمیریوں کی منزل اور بقا ہے پاکستانی حکومت اور عوام کشمیریوں کو کسی مرحلہ پر تنہا نہیں چھوڑیں گے بلکہ مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی تحریک آزاد ی کی جدوجہد کی سیاسی،اخلاقی اور سفارتی سطع پر ہمیشہ کی طرح حمایت جاری رکھیں گے،آزاد کشمیر بھر کی سیاسی، سماجی و مذہبی جماعتیں، وکلا،کونسلرز،انجمن تاجران، سول سوسائٹی،این جی اوز اور دیگر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے یوم یکجہتی کشمیر بھرپور طریقے سے منا کر اپنی ملی بیداری کا ثبوت پیش کر رہے ہیں۔وزیر اعظم آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر چوہدری انوار الحق کی سربراہی میں حکومت نے خطہ میں مثالی تعمیر و ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے پراجیکٹس پرکام جاری رکھا ہوا ہے۔وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کی کوششوں سے کشمیر کونسل کی اربوں روپے کی پراپرٹی حکومت آزاد کشمیر کو مل چکی ہے۔حکومت بجلی کے بلات جون 2022کے ٹیرف کے مطابق بلات بجلی وصول کر رہی ہے۔رٹھوعہ ہریام برج سمیت شہر اقتدار کے میگا پراجیکٹس کی تکمیل کے حوالے سے جلد کام شروع ہو جائے گا، آٹا کی سبسڈی حسب سابق لوگوں کو دی جارہی ہے۔ آزاد کشمیر میں پبلک سروس کمیشن فعال ہو چکا ہے۔NTSکے ذریعہ اساتذہ کی تقریاں میرٹ پر کی جائیں گی جس سے سکولوں میں ٹیچرز کی کمی کا معاملہ حل ہو جائے گا۔موجودہ حکومت نے کم عرصہ میں تاریخی سنگ میل عبور کیے ہیں۔انار حکومت کی کوشش ہے کہ عام آدمی کو زیادہ سے زیادہ ریلیف ملے۔وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کو خطہ کے عوام کا درد ہے اسی وجہ سے وہ وفاقی حکومت سے آزاد کشمیر کے درینہ مسائل بتدریج حل کروا رہے ہیں۔آزاد کشمیرکے نظام حکومت اور اداروں میں ڈسپلن کی پابندی ہو رہی ہے جس سے معاشرے پر مثبت اوردیرپا نتائج مرتب ہو رہے ہیں،گزشتہ 34 برسوں سے 5فروری کو آزاد و مقبوضہ کشمیر، پاکستان اور دنیا بھر میں موجود تقریبا 25 لاکھ کشمیری تارکین وطن ہر سال یوم یکجہتی کشمیر اس عزم کے ساتھ مناتے ہیں کہ آزادی کے حصول تک یہ سلسلہ جاری رہیگا کیونکہ مسئلہ کشمیر تقسیم برصغیر کے نا مکمل ایجنڈے کا حصہ ہے۔یوم یکجہتی کشمیر پہلی مرتبہ 1989 اور بعد ازاں 1990 میں تمام تر سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر پوری قوم نے منایا تھا۔یوم کشمیر منانے کا فیصلہ سب سے پہلے پنجاب کے وزیر اعلی میاں محمد نواز شریف اور بعد ازاں سابق وزیر اعظم پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس کی تائید کی تھی اور اس دن کو منعقدکرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو آج تک جاری ہے۔جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے 5جنوری 1989کو لاہور میں ایک پریس کانفرنس منعقد کی تھی جس میں پاکستان بھر سے لوگ آزاد کشمیر پہنچے تھے، 5اگست 2019 سے کشمیر میں مسلسل کرفیو نافذ ہے تقریبا پانچ سال سے زیادہ عرصہ اس ظالمانہ کرفیو کو ہو چکے ہیں، لوگ بند کمروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔خوراک اور ادویات کی شدید قلت ہے کشمیری عوام اس صدی کے سب سے بڑے ظلم کا شکار ہیں، خواتین کی عصمت دری کی جاتی ہے،انسانی حقوق کی پامالی کی جاتی ہے،بھارت نے تقریبا دولاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا،ہزاروں خواتین بیوہ ہوئیں ،لاکھوں بچے یتیم ہوئے ،لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے،سات لاکھ بھارتی افواج مسلسل کشمیریوں کا قتل عام کر رہی ہیں،حریت کانفرنس کی قیادت کو اکثر نظر بند کیا جاتا ہے،پانچ فروری کے یوم یکجہتی کشمیر کی اہمیت کیا ہے یہ جاننے کیلئے تحریک آزادی کے پس منظر کو جاننا ضروری ہے، کشمیری عوام کی تحریک آزادی کشمیر اسی دن شروع ہو گئی تھی جب انگریزوں نے گلاب سنگھ کے ساتھ بدنام زمانہ (معاہدہ امرتسر) کے تحت 16 مارچ 1946 کو کشمیر کا 75لاکھ روپے نانک شاہی کے عوض سودا کیا تھا ۔13جولائی 1931کو سری نگر جیل کے احاطے میں کشمیریوں پر وحشیانہ فائرنگ کے نتیجے میں 22مسلمان شہید اور 47 زخمی ہوئے اس واقعے پر لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کیلئے کشمیر کمیٹی قائم کی اور شاعر مشرق علامہ اقبال کو اس کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا نومبر 1931کو تحریک الاحرار نے مسلح جد وجہد اور سول نافرمانی کے ذریعے جموں و کشمیر کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا ۔انگریز حکومت نے گلینس کمیشن قائم کیا 1934میں پہلی بار ہندوستان میں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ڈوگرہ راج کے مظالم کے خلاف ملک گیر ہڑتال کی گئی۔1946میں قائد اعظم نے مسلم کانفرنس کی دعوت پر سری نگر کا دورہ کیا جہاں قائد کی دور رس نگاہوں نے سیاسی، دفاعی، اقتصادی اور جغرافیائی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا کیونکہ ریاست میں مسلم اکثریت کا تناسب 78فیصد جبکہ وادی میں مسلم اکثریت کا تناسب 93فیصد تھا سڑک راولپنڈی جبکہ ریل گاڑی سیالکوٹ کے راستے کشمیر سے منسلک تھی تاریخی اعتبار سے بھی 14ویں صدی سے لیکر 19صدی کے آغاز تک کشمیر پر مسلمانوں کی حکومت تھی۔مسلم کانفرنس نے بھی کشمیری مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے 19جولائی 1947 کو سردار محمد ابراہیم خان کے گھر سری نگر میں باقاعدہ طور پر قرارداد الحاق پاکستان منظور کی لیکن جب کشمیریوں کے فیصلے کو نظر انداز کیا گیا تو مولانا فضل الہی وزیر آباد کی قیادت میں 23 اگست 1947کو مسلح جدوجہد کا نیلا بٹ کے مقام سے باقاعدہ آغاز کر دیا گیا ۔مہاراجہ نے کشمیر کا الحاق ہندوستان کے ساتھ کر دیا اور ہندوستان کی فوجوں کو کشمیر میں آنے کی دعوت دی کیوں کہ ریڈ کلف ایوارڈ کے تحت (جس کو قائد اعظم منظور کر چکے تھے)گورداس پور کا علاقہ ہندوستان کو دے دیا گیا تھا جو کہ ہندوستان کو کشمیر سے ملانے کا واحد راستہ تھا لہذا ہندوستان نے اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں چنانچہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پہلی جنگ کا آغاز ہو گیا، پاکستان کے قبائلی علاقوں سے بہت سے مسلح مجاہدین بھی کشمیر پہنچ گئے جنہوں نے کشمیریوں کی مدد سے موجودہ آزاد کشمیر کا علاقہ آزاد کروایا، ممکن تھا کہ مجاہدین سارا کشمیر آزاد کروا لیتے لیکن بھارت فورا UNO پہنچ گیا ۔عالمی طاقتوں نے جنگ بندی کروا دی بھارت نے مسئلہ کشمیر کو استصواب رائے سے حل کرنے کا وعدہ کیا یعنی وہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ریاست میں رائے شماری کے ذریعے مقامی عوام کی خواہشات کے مطابق کرینگے لیکن بھارت اپنے وعدے سے مسلسل مکرتا رہا اور ٹال مٹول سے کام لیتا رہا اسی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان دو بڑی جنگیں 1965اور 1971میں لڑیں گئیں جن کے نتیجے میں پاکستان کا مشرقی حصہ ہم سے جدا ہوگیا۔کشمیریوں نے اپنی آزادی کی جدو جہد جاری رکھی ایک ایسا وقت بھی آیا جب کشمیریوں نے مسلم متحدہ محاذ کے نام سے ریاستی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تا کہ اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد بھارت سے علیحدگی کی قرار داد پاس کر سکیں اس الیکشن میں حریت کانفرنس کے سابق سربراہ سید علی گیلانی مرحوم اور سپریم کمانڈر سید صلاالدین نے بھی حصہ لیا لیکن بھارت نے مسلم متحدہ محاذ کی واضح انتخابی جیت کو دیکھتے ہوئے الیکشن کو سبوتاژ کر دیا نتیجہ یہ نکلا کہ کشمیری عوام نے سیاسی محاذ کو چھوڑتے ہوئے 1989میں مسلح جد و جہد کا آغاز کر دیا
،اب وقت آ گیا ہے کہ اقوام متحدہ کشمیر کا فیصلہ کشمیریوں کی رائے کے ذریعے کرے جو کہ ان کی منزل ہے اور وہ الحاق پاکستان ہے۔