کالم

نگران حکومت کا عوام پر آخری وار

نگران حکومت نے جاتے جاتے وینٹی لیٹر پر پڑے عوام پر ایک اور کڑا وار کرتے ہوئے انہیں زندگی کی سانسوں سے محروم کرنے کا بھرپور اقدام کر ڈالا ہے۔ خبر یہ ہے کہ نگران وفاقی کابینہ نے جان بچانے والی 146 ادویات کی قیمتوں میں 20 سے 60 فیصد تک اضافے کی منظوری دے دی ہے۔ ان ادویات میں دل کی 5، ٹی بی کی 8، خون پتلا کرنے والی 3، بلڈ پریشر کی 2اور 12سے زائد اینٹی بائیوٹک ادویات شامل ہیں۔ ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری سے صرف زندگی کی جنگ لڑنے والے مریضوں کے جسموں پر نشتر زنی ہی نہیں کی گئی بلکہ ان مریضوں کے زخموں پر جناب نگران وزیرِ اعظم نے یہ کہہ کر نمک پاشی کرنا بھی ضروری ضروری سمجھا کہ حکومت عام آدمی کو ادویات کی مناسب قیمت پر فراہمی کے لیے ہرممکن اقدامات اٹھا رہی ہے۔
ملک میں سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں آنے والی طویل مدتی نگران حکومت نے ہر اس کام سے گریز کیا ہے جسے انجام دینے کے لیے اس حکومت کا تقرر کیا گیا اور ہر وہ کام سرانجام دیا ہے جس کے لیے انہیں نہیں لایا گیا۔ آئی ایم ایف کے جھنڈے تلے کھڑی اس حکومت نے اپنے عوام کی رگوں سے لہو بھی نچوڑا ہے اور ان کی ہڈیوں سے گودا بھی نکالا ہے۔ اب جاتے جاتے انہیں تن کے کپڑوں سے محروم کر کے بیچ چوراہے پھینکنے کی کامیاب واردات کر ڈالی ہے۔یہ حکومت دراصل 24 کروڑ عوام پر ایک عذاب بن کر دس ماہ تک مسلط رہی۔ بجلی، تیل اور گیس کی کئی سو فیصد قیمتیں بڑھا کر حکومتی اخراجات پورے کرتی رہی۔ عوام کو چھوٹے سے چھوٹا کوئی ریلیف دینے میں بھی ناکام رہنے والی یہ حکومت جانے کون سے جرائم کی پاداش میں غریب اور متوسط طبقے کو پیسنے کے لیے لائی گئی۔ امیر طبقہ تو امیر تر اور پھر امیر ترین ہوتا رہا۔
دیکھا جائے تو جون 2022 سے قریباً تمام ادویات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔جولائی 2022 میں جس نئی ڈرگ پرائس پالیسی کی منظوری دی گئی تھی اس کی وجہ سے 500 سے زائد ادویات اور سرجیکل آلات کی قیمتوں میں دس فیصد تک اضافہ ہوا تھا۔ موجوہ اضافہ گزشتہ ساڑھے پانچ سال کے دوران ساتواں بڑا اضافہ ہے۔ پچھلے سال فروری میں جان بچانے والی ادویات کی مصنوعی قلت پیدا کر دی گئی تھی جس کی وجہ سے ریگولیٹری اتھارٹی نے 110 سے زائد ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کی منظوری دی تھی۔ حکام کا موقف تھا کہ ملک میں ضروریادویات کی قلت کی وجہ سے اضافہ نہ کیا گیا تو خدشہ ہے کہ ادویہ ساز کمپنیاں یہ ادویات باہر سے منگوانا اور ملک میں بنانا بند کر دیں گی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نہ تو عمران خان اور پی ڈی ایم کی حکومتوں نے مریضوں کی حالتِ زار پر رحم کھانا ضروری سمجھا اور نا ہی نگران حکومت نے ان کو کسی قسم کا ریلیف دینے میں سنجیدگی دکھائی۔ جو بھی آیا اس نے اپنے پیش رو کے نقشِ قدم کو نشانِ منزل سمجھا۔
مہنگائی نے عوام کا یہ حال کر دیا ہے کہ درمیانہ طبقہ بھی اب چیخ اٹھا ہے۔ لوگوں کو جسم و جان کا رشتہ برقرا رکھنے کے لیے دو وقت کے کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ چند ماہ پہلے سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے موقع پر بہت بڑی تعداد میں ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے نہیں نکلا تھا تھا۔ ٹرن آئوٹ نو سے دس فیصد رہا تھا جو موجودہ سسٹم سے عدم اعتماد کا کھلا اظہار ہے۔ چند دن بعد عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ ہر پارٹی نے اپنے منشور میں سبز باغ سے آگے بڑھ کر عوام کو جنت کے خواب دکھائے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انہی سیاست دانوں کی آپس کی لڑائیوں نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ ہوسِ اقتدار میں اندھے ہو کر ایک دوسرے کو رلانے کے شوقین یہ سیاستدان عوام کی چیخیں نکلوا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ رواج سا بن گیا ہے کہ کوئی بھی حکومت عوام کو ریلیف دینا نہیں چاہتی اور اپوزیشن اس معاملے پر حکومت سے اس لیے متفق ہوتی ہے کہ وہ کسی اچھے کام کے لیے حکومت کو کریڈٹ نہیں لینے دینا چاہتی۔ حکومت اور اپوزیشن چکی کے دو پاٹ بن کر عوام کو بری طرح پیستی رہتی ہیں۔ موجودہ نگران حکومت نے دوسرے پاٹ کا کام مافیاز سے لیا ہوا ہے۔ گیہوں عوام ہی ہے۔ پانچ فیصد مراعات یافتہ برہمن طبقہ پچانوے فیصد عوام کے ساتھ شودروں والا سلوک کر رہا ہے۔بات دور نکل گئی۔ ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا سب سے زیادہ اثر ان مریضوں پر پڑا ہے جو تین وقت مستقل دوائی کھاتے ہیں۔ بیماری امیر یا غریب کو نہیں دیکھتی۔ دو وقت کی روٹی سے تنگ لوگ تین وقت کی دوائی کے اخراجات کیسے پورے کریں گے؟ یہ سوچنے کی کسی حکومت نے نہ ضرورت محسوس کی ہے اور نہ ہی اس کے پاس اتنی فرصت ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عام اور نچلے طبقے کے لوگ تین کے بجائے ایک وقت دوائی کھانے لگے ہیں۔ یوں ان کا مرض کم ہونے کی بجائے بڑھتا جا رہا ہے مگر وہ فریاد کریں تو کس سے کریں۔ کینسر، اینستھیزیا، نفسیاتی اور دل کے امراض، اعضاء کی پیوند کاری اور جان بچانے والی ادویات کی قلت نے ان امراض میں مبتلا خواتین و حضرات کے لیے خطرناک صورتِ حال پیدا کر دی ہے۔ قیمتیں بڑھانا مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ ادویات کی قلت پر قابو پانا مسئلے کا حل ہے۔ ان اسباب کو دور کرنے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے یہ مصنوعی قلت پیدا کر کے اور حکومتوں کو بلیک میل کر کے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ مریضوں کے جذبات سے کھیلا جا رہا ہے اور انہیں فٹ بال بنا کر مافیا کے آگے پھینکا جا رہا ہے۔ قیمتوں میں اضافے سے زیادہ اہم کام جان بچانا ہے۔ اس کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ اربابِ اختیار کو ضروری اور جان بچانے والی ادویات کی قیمتیں بڑھا کر سارا بوجھ عوام پر ڈالنے کی بجائے ضروری طبی سامان، جراحی کے آلات اور ادویات کی درآمد کے معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا چاہیے۔ مہنگی ادویات کی درآمد کی بجائے ملکی سطح پر ان ادویات کی تیاری کو فروغ دینا چاہیے اور مقامی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی اس سلسلے میں حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ نہ صرف آئے روز ادویات کی قلت پر قابو پایا جا سکے بلکہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بلیک میلنگ سے بھی نجات مل سکے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button