انتخابات میں ایک ہفتہ باقی ہے ہر طرف عوام جھنڈے لگارہے ہیں، سیاسی نعرے لگا رہے ہیں تو دوسری طرف وہ سیاست دان جو پچھلے پانچ سالوں میں کسی نے اپنے علاقے میں نہیں دیکھے تھے انھوں نے بھی اپنے علاقوں کا رخ کردیا ہیں اور مختلف قسم کی تقاریر کرتے ہیں۔ اور سادہ لوح عوام کو ایک بار پھر سبز باغ دکھا رہے ہیں۔ کہ میں آپ کے لیے فلاح فلاح کام کروں گا ، لیکن عوام کو بھی سوچنا چاہیے کہ جو وعدے انھوں نے پانچ سال پہلے کیے تھے کیا ابھی تک ان کو پوا کیا کہ نہیں ؟ اس میں عوام کی بھی غلطی ہے کہ وہ آنکھیں بند کر ان سیاست دانوں کی باتوں پر یقین کرتے ہیں۔چونکہ الیکشن میں وقت کم باقی ہے سیاستدان اور ان کے ساتھ ورکرز یا ایجنٹ باقاعدہ گھر گھر جاتے ہیں اور ووٹ کی بھیک مانگتے ہیں اگر دیکھا جائے تو یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں شامل ہے کہ ہر پانچ سال بعد سیاستدان فاتحہ خوانی کے لیے عوام کے پاس جاتا ہے اس کے علاہ اگر جلسوں کی بات کریں تو پھر یہی سیاست دان جلسوں میں اس قسم کی باتیں کرتیں ہیں پھر ہر شخص کہتا ہے کہ اس سے اچھا بندہ تو کوئی اور نہیں ہے وہ عوام کو صرف سبز باغ دکھاتا ہے اور ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ میرے باپ دادا کا تعلق اسی علاقے سے ہیں اس لیے آپ لوگوں کو چاہیے کہ مجھے ووٹ دے دیں۔ اگر سیاست دانوں کی دروغ گوئی کی بات کریں تو اس میں عمران خان کی مثال سرفہرست ہے انھوں نے بھی پانچ سال پہلے جو وعدے کیے تھے کیا حکومت میں آنے کے بعد انھوں ان وعدوں کو پورا کیا تھا کہ نہیں ، یا اس سے پہلے جس نے وعدے کیے تھے کیا ان کو پورا کیا تھا یہ آپ لوگ خود سوچیں کیونکہ آپ لوگ پہتر جانتے ہیں۔ اس کے علاہ اگر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کرپشن پرسیپشن انڈیکس2023 کی رپورٹ کی بات کریں، توعمران خان نے کہا تھا کہ جب مجھے اقتدار مل گیا تو میں کرپشن کو ختم کروں گا ، اس کے علاہ خان صاحب حریف سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو کرپٹ ، چور اور ملک دشمن کہتے تھے مجھے جب بھی موقع ملا تو میں ان کے ساتھ حساب کروں گا لیکن جب عمران خان کو اقتدار مل گیا تو عمران دور حکومت میں کرپشن بڑھ گئی۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کرپشن پرسیپشن انڈیکس 2023 کی رپورٹ کے مطابق عمران خان دور حکومت کرپشن زیادہ ہوئی تھی ، یعنی بڑھ گئی تھی۔ جس کو عمران خان چور اور کرپٹ کہتے تھے انکی دور حکومت شہباز شریف پی ڈی ایم کی حکومت میں کرپشن کم ہوئی ہے ۔خصوصی عدالت نے سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو دس دس سال قید با مشقت کی سزا سنا دی ، واضح رہے کہ آج سے تقریبا پانچ سال پہلے سابق وزیراعظم نواز شریف کو احتساب عدالت سے ایون فیلڈ کیس میں دس سال قید با مشقت کی سزا سنائی تھی۔ اگر میں یہ کہوں کہ پاکستان میں تاریخ دہرائی جارہی ہے یا ایک دائرے کے اندر چکر لگا رہی ہے تو غیر مناسب نہیں ہوگا۔ احتساب عدالت نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان اور بشری بی بی کو 14، 14 سال قید کی سزائیں سنائی لیکن اس کے بعد نوٹیفکیشن جاری ہوا کہ بشری بی بی صرف اپنی گھر بنی گالا میں نظر بند رہے گی بلکہ بنی گالا کو سب جیل قرار دیا گیا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا اس سے پہلے کسی سیاستدان نے جیل نہیں کاٹی تھیں؟خان عبدالولی خان نے اپنی کتاب حقائق حقائق ہیں میں لکھا ہے کہ مجھے جیل میں میرے مطلب کی کتابیں بھی میسر نہیں تھیں یہ کیسا قانون اور انصاف ہے۔اس کے علاہ اگر صحافت کی بات کریں تو سارے سیاسی پارٹیوں نے اپنے لیے سوشل میڈیا ٹیمیں بنائی ہیں ، اور وہ ٹوئٹر ” ایکس ” پر ہر وقت آن لائن ہوتے ہیں چونکہ الیکشن میں کم وقت باقی ہے تو جو بھی صحافی حقائق بیان کرتا ہیں تو یہ لوگ ان صحافیوں کے خلاف غلط زبان استعمال کرتے ہیں ، کئی دنوں سے میں دیکھ رہا ہوں جو صحافی کسی سیاسی جماعت کی غلط کاموں پر تنقید کرتا ہے تو اس جماعت کی سوشل میڈیا پرسن اس کے خلاف شروع ہوتے ہیں۔ الیکشن کی وجہ سے صحافت پر بھی کافی برا اثر پڑا ہے۔ حقیقی اور پروفیشنل صحافی ہمیشہ حقائق اور ثبوت کو سامنے رکھ کر اپنی بات کرتا ہے۔ تو یہ پاکستان کی تاریخ ہے کہ جب بھی انتخابات قریب آتے ہیں تو الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر سیاسی جماعتیں مختلف قسم کی کمپین شروع کرتی ہے۔ اس کے علاہ الیکشن کے دنوں میں یہ سیاستدان ٹیلی ویژن پر مختلف قسم کے ٹاک شو میں حریف سیاستدان یا سیاسی جماعت کی بارے میں باتیں کرتیں ہیں، کہ انھوں نے پانچ سالہ اقتدار یا حکومت میں کچھ نہیں کیا کوئی ترقی یافتہ کام نہیں کیا میں جب وزیراعظم یا وزیر اعلی بنو گا تو میں فلاح منصوبہ شروع کرونگا ، پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کرونگا اور نوجوانوں کو نوکری دونگا ۔ یہ پاکستان کی ایک تاریخ ہے ہر پانچ سال بعد یہ دہرائی جاتی ہے ۔ ہر پانچ سال بعد ہمارے ملک پاکستان کے سیاستدان اس قسم کی گفتگو جلسوں ، گلی محلوں اور ٹیلی ویژن پر کرتے ہیں ، عوام کو سبز باغ دکھاتے ہیں۔ کہتے ہیں میں اتنی نوکری نوجوانوں کو دوں نگا اور ایسے کئی باتیں اور وعدے کرتے ہیں ، لیکن جب کامیاب ہوتا ہے تو پھر اس کو اپنا کوئی وعدہ یاد نہیں رہتا اس طرح ایک سیاستدان اٹھ کر دوسرے کو نیچا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسرا اس سے بھی زیادہ چالاک ہوتا ہے ۔ وہ اس کے غلط کاموں اور پالیسیوں پر باتیں شروع کرتا ہیں ۔اس طرح اگر پروپیگنڈہ کی بات کریں تو اس میں تحریک انصاف پہلے نمبر ہے کیونکہ ان کی سوشل میڈیا ٹیم کافی مضبوط اور وسیع ہے ۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان جیل میں ہے بات غلط نہیں ہے ، لیکن صرف ایک بندہ جیل میں ہے باقی تو سب باہر ہے ۔ جو فیک نیوز پھیلاتا ہے ، فیک ویڈیوز ، پروپیگنڈہ اور سوشل میڈیا خاص کر ایکس ” ٹویٹر ” پر غلط ٹرینڈز چلاتے ہیں ان کو بھی قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنا اور ان سے پوچھ گچھ کرنا بہت ضروری ہے دوسری بات کہ عمران خان جیل میں ہے ان کو ویسے نمائش کے لیے بند نہیں کیا ہے بلکہ اپنی غلطیوں کی وجہ سے قید ہے ، لیکن جس نے عمران خان کو پاکستان اور پاکستانی عوام پر مسلط کیا تھا ۔ وہ کھلے پِھر رہے ہیں ، ان کو بھی قانون کے کٹہرے کھڑا کرنا بہت ضروری ہے ۔ الیکشن سے پہلے میرے خیال میں یہ کام بہت ضروری ہے تاکہ جو سیاست دان جس کا یہ خیال ہے کہ عمران خان کی طرح میں بھی وزیر اعظم بنوں گا اس کا یہ خواہش کبھی پوری نہ ہوجاے ورنہ عمران کی شکل میں ایک دوسرا عمران پانچ سال کے لیے ملک و قوم پر مسلط ہوگا ۔ موجودہ دور میں ملک پاکستان جس صورتحال سے گزر رہا ہے وہ بہت برا ہے ، ملک میں شفاف انتخابات موجودہ وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ یہ بھی پاکستان کی تاریخ میں شامل بلکہ سالوں سے رواج چلتا آرہا ہے جب کوئی سیاسی جماعت الیکشن میں کامیاب ہو جاتا ہے ، تو مخالف سیاستدان اور اس کی پوری پارٹی تنقید شروع کرتی ہے کہ ان کو اسٹیبلشمنٹ نے منتخب کیا ، ہم یہ الیکشن نہیں مانتے اس میں دھاندلی ہوئی ہے اور مختلف قسم کے جواز پیش کرتے ہیں ۔ اس مرتبہ بھی وہی گفتگو الیکشن کے بعد شروع ہوگی بلکہ ابھی سے نظر آرہا ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم ایک دائرے میں چکر لگا رہے ہیں ۔ اس دائرے کو تھوڑا کر اس سے باہر نکلنا اور اصل حقائق کو جاننا بہت ضروری ہے ۔ ابھی بھی کچھ دن الیکشن میں باقی ہے عوام کو چاہیے کہ وہ بندے کی شکل و صورت اور جذباتی تقریر کی بنیاد پر امیدوار کو ووٹ نہ دیں بلکہ ان لوگوں کو اپنا قیمتی ووٹ دے دیں جس نے آنے والے الیکشن سے پہلے مطلب گزشتہ الیکشن میں جو وعدے آپ سے کیے تھے ان کو پورا کیا تھا یا نہیں۔
0 41 6 minutes read