کالم

تنازعہ کشمیر۔ عالمی امن کے لیے مستقل خطرہ

تقسیم ہند اور پاکستان کے قیام کے بعد سے مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے مابین تلخی کا ایک بڑا سبب رہا ہے، جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان کئی جنگیں لڑی گئیں ۔تقسیم کے وقت شاہی ریاستوں کا مستقبل سوالیہ نشان رہا کیونکہ انہیں ان کے جغرافیائی محل وقوع اور اپنے لوگوں کی خواہشات کی بنیاد پر دو ریاستوں میں سے کسی ایک میں شامل ہونے کی ضرورت تھی۔کشمیر کی اگرچہ اپنی ایک منفرد صورت حال تھی جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی، حکمران مہاراجہ ہری سنگھ آبادی کی خواہشات کے برخلاف ہندوستان سے الحاق کرنا چاہتا تھا۔ اسی طرح ریاست جوناگڑھ میں بھی ایسی ہی صورتحال پیدا ہوئی۔ جوناگڑھ کا حکمران مسلمان تھا جو پاکستان میں شامل ہونا چاہتا تھا۔ وائس رائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے جوناگڑھ کو اس خیال کو ترک کرنے کا مشورہ دیا کیونکہ یہ ریاست چاروں طرف سے ہندوستان کے گھیرے میں تھا۔ لیکن وائس رائے کے مشورے کو رد کرتے ہوئے حکمران نے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس سے مشتعل ہو کر بھارت نے جوناگڑھ پر فوج کشی کر دی۔ ایک مسلم اکثریتی علاقہ کی حیثیت سے کشمیر کا پرامن الحاق اس وقت ممکن نہ رہا جب مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان سے فوجی مدد طلب کی اور بالآخر ہندوستان کے ساتھ الحاق کے دستاویز پر دستخط کردیئے۔ بھارتی افواج نے مداخلت کی اور بندوق کے زور پر کشمیری مسلمانوں کی رائے کو پیروں تلے روندتے ہوئے ریاست جموں و کشمیر کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس کے بعد سے تنازعہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان مرکزی مسئلہ رہا ہے جو دونوں ممالک کی تباہ کن ایٹمی صلاحیت کی وجہ سے پورے جنوبی ایشیائی خطے اور پوری دنیا کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔اس کے علاؤہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان متعدد دیگر تنازعات اور انتہائی سخت سفارتکاری اسی تنازع کا نتیجہ ہے۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک قرارداد کے ذریعے تنازعہ کو حل کرنے کی کوشش کی کہ جموں و کشمیر کے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ جمہوری طریقے سے آزادانہ اور منصفانہ رائے شماری کے ذریعے کیا جانا چاہیے، لیکن بھارت نے کسی بھی ایسی ثالثی کو مسترد کر دیا جو کشمیر پر اس کے دعوے سے متصادم ہو۔کشمیر کی سٹریٹجک اہمیت اس بات سے واضح ہے کہ اس کی سرحدیں چین اور افغانستان سے ملتی ہیں اور روس سے بھی قریب ہیں۔ پاکستان میں بہنے والے تقریباً تمام دریا کشمیر سے نکلتے ہیں یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک اس علاقے پر اپنے دعوے کو واپس لینے سے گریزاں ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل میں سفارتکاری کی ناکامی نے عالمی اور علاقائی توجہ اس طرف مبذول کرائی۔ 1948، 1962 اور 1965 کی جنگوں کے بعد اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کی گئیں۔ 1962 کی ہندوستان اور چین کی سرحدی جنگ کے بعد، ہندوستان اور پاکستان کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کے لیے امریکہ اور برطانیہ نے کوششیں کیں لیکن وہ بے سود ثابت ہوئیں۔ 1965 کی جنگ کے اختتام تک سوویت یونین نے خود کو ایک علاقائی امن ساز طاقت کے طور پر متعارف کرایا۔ سوویت یونین نے دونوں ممالک کے مابین تاشقند میں امن معاہدہ کرایا، لیکن اس کے نتیجے میں علاقائی امن قائم نہ ہوسکا، اور مشرقی پاکستان کے معاملات میں ہندوستانی مداخلت جلد ہی مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور 1970ـ71 میں بنگلہ دیش کی تشکیل کا باعث بنی۔ مسئلہ کشمیر پر بڑی طاقت کے اثر و رسوخ کا بے اثر ہونا بار بار دہرائی جائے والی خصوصیت رہی ہے۔ سرد جنگ کی دشمنیوں کے علی الرغم امریکہ اور سوویت یونین دونوں نے برصغیر میں اکثر متوازی اور تعاون پر مبنی کردار ادا کیا ہے۔ واشنگٹن اور ماسکو نے تنازعہ کو پرامن طریقے سے ثالثی کرنے یا دوطرفہ طریقے سے حل کرنے کے لیے سرسری کوششیں کیں لیکن کوئی ٹھوس قدم اٹھانے میں محتاط رہے۔سوویت یونین، امریکہ اور چین سبھی اپنے اپنے مفادات کی بنیاد پر تنازعہ کشمیر کے حوالے سے مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ شروع میں یہ سب غیرجانبدار تھے لیکن جیسے جیسے دنیا کی سیاست اور جہتیں بدلیں، انہوں نے کشمیر پر اپنے تحفظات کا اظہار کرنا شروع کردیا۔ چین نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کا ساتھ دیا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کی۔ امریکہ کو بھی دنیا کے امن کے لیے خطرہ بننے والی کشمیر ایشو کے پر امن حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنا۔ چاہیے کیونکہ کے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان معمول کے تعلقات سے امریکہ کو فائدہ ہوگا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی خاص طور پر خطرناک ہے کیونکہ اس نے دونوں ایٹمی ریاستوں کو جنگ کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔ یہ تنازعہ پاکستان کی توجہ اپنی سرزمین پر دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں سے لڑنے سے ہٹاتا ہے۔ بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ خود بھارتی آئین اور بین الاقوامی قوانین کی نفی ہے۔ اس سے کشمیری مسلمانوں میں غم وغصہ مزید بڑھ گیا ہے۔فی الوقت کشمیر بھارتی فوج نے کشمیر کو دنیا سب سے بڑے جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔ وہاں انٹرنیٹ عملاً منقطع ہے اور جگہ جگہ تلاشی کے بہانے بے گناہ نوجوانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کشمیر میں جاری بھارتی ظلم وبربریت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تاہم دنیا کی بڑی طاقتوں نے اس پر چپ سادھ رکھی ہے۔ کشمیری نوجوان بھارتی فوج کے مظالم کا مردانہ وار مقابلہ کر رہے ہیں۔ کشمیری پے در پے ریاستی انتخابات کا بائیکاٹ کر کے دنیا پر واضح کر رہے ہیں کہ وہ بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ پاکستان اپنے کشمیری بہن بھائیوں کی جدوجہد آزادی کی مکمل حمایت کرتا رہا ہے اور ہر سال 5 فروری کو کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی کا دن مناتا ہے۔ اس دن پورے ملک اور دنیا بھر میں کشمیریوں کی حمایت میں ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ جس میں کشمیری مسلمانوں کے ساتھ بھارت کے ظلم وستم کی مذمت کی جاتی ہے اور دنیا کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ دنیا کے امن کے لیے ضروری ہے کہ ہندوستان ہٹ دھرمی چھوڑ کر پاکستان کے ساتھ کشمیر سمیت تمام اہم مسائل پر دو طرفہ مذاکرات کرے۔ کشمیر پر کشیدگی جاری رہنے سے جنوبی ایشیا میں استحکام لانے کی کسی بھی کوشش کو نقصان پہنچے گا اور ایٹمی جنگ کا خطرہ بڑھ جائے گا جو پھر اس خطے تک محدود نہیں رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button