کشمیر میں مظالم کی تاریخ بھی طویل ھے اور آزادی کے لیے دی جانے والی قربانیوں کا تسلسل بھی ایک صدی سے برقرار ھے، اس کی بڑی وجہ ھندواتا کے نظریات ہیں آپ زیادہ دور نہ جائیں صرف 1933ء سے ہی تحریک آزادی کا مطالعہ کر لیں، اس کی جڑوں میں آزادی سے پھیلنا پھولنا اور تناور درخت بننے کا جذبہ موجود ہے، آپ یہ کہیں کہ تحریک آزادی کشمیر، تحریک پاکستان سے بھی پہلے شروع ھوئی تو بیجا نہ ہوگا خود تصور پاکستان دینے والے علامہ اقبال بھی اس تحریک کا حصہ رہے، یہ سوچ حریت تھی کہ جو پاکستان بنانے کی بنیاد میں شامل ھوئی، یہاں تک کہ لفظ پاکستان بھی کشمیر کے رہنے والے ایک صحافی کا استعمال کیا ھوا ھے، جب اس نے جہان پاکستان کے نام سے اخبار شروع کرنے کے لیے ”لفظ پاکستان” استعمال کیا، خود قائد اعظم محمد علی جناح نے تین دورے کشمیر کے کیے اور حریت پسندی کا حیران کن مظاہرہ دیکھا، اس کو نہ صرف سراہا بلکہ اس کے لیے شدید فکر مند رہتے تھے، کے ایچ خورشید قائد اعظم کے معتمد رہے اور قائد اعظم محمد علی جناح کی کشمیر پالیسی اور سوچ پر ھمیشہ فخر کرتے رہے، اگرچیکہ پانچ فروری کا یوم یک جہتی ایک روایت بن چکی ہے مگر اس روایت میں بھی کشمیری عوام کی خواہش اور امید شامل ھے، 1975ء میں پہلی مرتبہ یوم یک جہتی کشمیر 28 فروری کو منایا گیا جب غازی ملت سردار محمد ابراہیم کی تجویز نے قاضی حسین احمد، ذوالفقار علی بھٹو اور دیگر رہنماؤں کو اس پر قائل کیا اور ایک مثالی یوم یک جہتی کشمیر منایا گیا، یہ وہ لمحہ تھا جب اندر گاندھی اور شیخ عبداللہ کے درمیان معاہدہ ھوا جس کے تحت بھارت کے اختیار کو کشمیر میں باقاعدہ تسلیم کیا گیا، پاکستان، آزاد کشمیر اور دنیا بھر میں یوم یک جہتی کشمیر بھرپور طریقے سے منایا گیا، اس روز لوگوں نے اپنے مویشیوں تک کو پانی نہیں پلایا اور نہ خود کھایا پیا، مقبوضہ کشمیر سے کراچی تک اور خیبر سے بلوچستان تک مکمل تالا بندی تھی، کشمیری عوام سے مکمل یک جہتی کا اظہار کیا گیا، سکھوں سے لے کر ڈوگرہ شاہی اور بھارت کے قبضے تک جس تاریخ کا بھی مطالعہ کریں قربانیوں اور جدوجہد کی ایک طویل سلسلہ موجود ہے، بات سینکڑوں، ھزاروں سے بڑھ کر لاکھوں تک پہنچ چکی اور بچے، جوان آور خواتین بھی اس میں شامل ھو گئے، تین نسلیں قربانی دے چکیں، اور چوتھی نسل بھی اس تحریک کا حصہ ہے آپ حریت رہنماؤں کو دنیا کی کسی تحریک سے بھی موازنہ کر کے دیکھ لیں، آزادی کی تحریک میں جنوبی افریقہ کے رہنما نیلسن منڈیلا ایک استعارہ ہیں، جنہوں نے 27 سال جیل میں گزارے، مگر آپ علی شاہ گیلانی، شبیر احمد شاہ، یسین ملک کو دیکھیں وہ نظر بندی، قید و بند، اور جدوجہد کے ساٹھ سال بھی دے چکے، ھزاروں بچے معذور، آنکھوں سے محروم، اور خواتین کی بے حرمتی کیا اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ جو ساتھ کھڑا ھے اس بھی گنوا دیں، اور کیا حقوق کی جنگ پہلے اپنے حکمرانوں سے سوال کرنے کا تقاضا نہیں کرتی؟ وہ بھی تو کشمیر میں ہی رہتے اور خود ہی سمیٹے رہتے ہیں، کیا پہلا سوال ان سے نہیں ھونا چاھئے؟ موجود یوم یک جہتی کشمیر کی روایت 1990ء کی عسکری تحریک کے بعد پڑی جس کی ابتدا بھی امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے کی، انہوں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف کو اس پر قائل کیا، وفاق میں محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں، جنہوں نے اس تجویز کا خیر مقدم کیا اور پہلی مرتبہ یوم یک جہتی کشمیر بھرپور اور متفقہ طریقے سے منایا گیا، تھوڑا آگے بڑھ کر آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی اور کشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس سے وزیر اعظم یا صدر پاکستان کے خطاب نے ایک نئی روایت پڑی اور پہلی مرتبہ وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی نے 2004ء میں خطاب کیا، 1990ء سے متفقہ طور پر پانچ فروری کو یوم یک جہتی کشمیر منایا جا رہا ہے، جس سے کم از کم اندرون اور بیرون ملک کشمیری عوام، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور دیگر ادارے کچھ تو خبر لیتے ہیں، یا لیں گے، مگر کیا کسی مشترکہ کام میں دراڑ ڈالنا اچھا ھو گا، یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ اب اتفاق رائے کے راستے میں بڑے بڑے آنا اور بقا کے پتھر حائل ہو چکے ہیں، بھارت نے 5 اگست 2019ء سے کشمیر کی ہیئت ہی بدل دی، یہاں تک کہ ابادی کا تناسب، نسل کشی اور انسانی حقوق کی پامالیوں کی مثال نہیں ملتی، ایک قلعہ بند حصار میں پھنسے آزادی کے متوالے آپ کا راستہ دیکھ رہے ہیں اور آپ اتفاق رائے پیدا کرنے کی بجائے، انتشار کے راستے پر چل نکلیں، کیا یہ مناسب ھو گا؟ ھاں البتہ اس میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور آزاد کشمیر، مقبوضہ کشمیر آور اوورسیز کشمیریوں پر مشتمل ایک شیڈو کابینہ تشکیل دینی چائیے جو اپنی آزادی کی جنگ لڑنے کے خود قابل ھو جائے، یہ بار آپ نے کشمیری دوستو، بھائیو اور بہنو اب خود اٹھانا ھے، اور بڑی تیزی سے انسانی حقوق کی بنیاد پر اٹھانا ھے،خالصتان تحریک بہت پرانی نہیں ہے، آج بھی پوری دنیا میں خالصتان کے لیے ریفرنڈم ھو رھا ھے، سکھ کمیونٹی بھرپور حصہ لیتی ہے، اگر چیکہ میں عسکری تحریک کے حق میں نہیں جدوجہد سیاسی اور انسانی حقوق کی بنیاد پر ھوتی ھے اور اسی کو منزل مل سکتی ہے، یہ ھرگز نہیں کہہ رہا کہ اپنے حقوق کے لیے آگے نہیں بڑھنا چاہئے مگر اس کے لیے پانچ فروری ہی کیوں، کیا اس لئے کہ اس سے زیادہ دباؤ پڑھے گا، کسی حد تک درست مان لیتے ہیں، مگر دوسری طرف نقصان کا موازنہ بھی کرنا ضروری ہے، کوئی اور راستہ نکال لیں جس کے آزاد کشمیر اور پاکستان کی حکومتوں کو دانشمندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، جہاں آٹا، چینی، اور بجلی ایک طوفانی شکل اختیار کر جائے وہاں بڑی بڑی باتیں بھول جاتی ہیں، ایک تیسرا پہلو بھی سوچیں کہ کیا اس کے پیچھے کسی اور کے مذموم مقاصد تو نہیں، بنیادی طور پر حکمت و دانش مندی کا مظاہرہ ضروری ہے تاکہ بھارت اور اس کے حواریوں کو تالیاں بجانے کا موقع نہ ملے، میرا ذاتی طور پر ایک ہی موقف ہے کہ آزادی کے لیے کشمیری عوام کو خود اپنی جنگ لڑنی ھوگی، اس کے لیے جس سے بھی مدد ملتی ہے مدد لیں مگر اپنے لائحہ عمل پر سودا نہ کریں، پہلا مطالبہ آزادی ھونا چاھئے تاکہ اپنے محکوم اور غلامی کی زندگی گزارنے والے بھائیو کو تو بدترین غلامی سے نجات ملے، باقی فیصلے بعد تک مؤخر کر دیں تو تحریک مضبوط ھوگی، ٹکڑیوں میں بٹ کر آپ کی طاقت اور جدوجہد کمزور تر ہو جائے گی، مزاحمت کریں یا مذمت مگر اجتماعیت کے درس کو کبھی نہ بھولیں، آپ تقسیم کرو اور حکومت کرو کے پرانے فارمولے سے سبق سیکھیں گے تو کوئی آپ کو توڑ نہیں سکے گا، آپ دیکھیں دنیا میں تحریکوں کے خلاف منظم محاذ منتشر سوچ، منتشر لوگ اور منتشر معاشرہ ظالم حکومتوں اور نظام کا سب سے بڑا ہتھیار ھے، اس کے خلاف ھم سب نے لڑنا ھے،
0 70 5 minutes read