
پنجاب میں ڈیرے کی حیثیت کسی دور میں دیہات کے کمیونٹی مرکز کی ہوا کرتی تھی۔ ڈیرے دار یا گائوں کا چوہدری حقیقی نہ سہی لیکن عملی طور پر بلا تخصیص عمر، پورے گائوں کا باپ ہوا کرتا تھا۔ ڈیرے میں دن بھر رونق لگی رہتی تھی۔ ڈیرا ہی تھانہ اور ڈیرا ہی کچہری ہوا کرتا تھا۔ لوگوں کو ایک دوسرے سے شکایت ہو جاتی یا کوئی شخص دوسرے کا نقصان کر دیتا تو تھانے میں شکایت کے لیے جانے کا تصور ہی نہ تھا۔ شکایت ڈیرے پہنچائی جاتی۔ گائوں کا چوہدری جسے عرفِ عام میں سردار کہا جاتا تھا اپنے کامے کے ذریعے پیغام بھیج کر ملزم کو بلوا بھیجتا۔ فریقین کی بات سنی جاتی۔ اسی وقت فیصلہ بھی کر دیا جاتا۔ ملزم اگر مجرم ثابت ہو جاتا تو جرم کے مطابق وہیں اسے سزا مل جاتی۔
گائوں میں اگر بارات آتی تو سیدھی سردار کے ڈیرے پر اترتی، بارات کی خاطر مدارت کی جاتی۔ اگر دلہن کے والدین غریب ہوتے تو سردار کے گھر سے مناسب سا جہیز بھی اسے مل جایا کرتا تھا۔ اگر گائوں میں کسی ملزم کو پکڑنے کے لیے پولیس جاتی تو ملزم کے گھر کی بجائے ڈیرے میں پہنچتی۔ سردار سے آمد کا مقصد بیان کیا جاتا۔ سردار مطلوب بندے کو خود بلواتا۔ اگر مدعی بھی اسی گائوں کا ہوتا تو اسے بلوا کر دونوں کا وہیں تصفیہ کروا دیا جاتا۔ سردار کی بات فوراً ہی مان لی جاتی تھی۔ ایسا ڈر کی وجہ سے نہیں، سردار کے احترام میں کیا جاتا تھا۔
شادی بیاہ کے موقع پر راگ پارٹی کی محفل بھی ڈیرے میں جمتی، چل پھر کر تماشا دکھانے والے ہوتے یا بازیگر، اپنے فن کا مظاہرہ ڈیرے میں ہی آ کر کرتے۔ مرغوں کی لڑائی بھی اسی جگہ ہوتی۔ سارا دن تاش کی بازی جمی رہتی۔ شام کو بزرگ اور جوان ڈیرے میں آ بیٹھتے۔ کوئی ہیر سناتا تو کوئی ٹپے گاتا۔ کوئی تاریخی واقعات یا کہانی سناتا تو کوئی اپنے ذاتی تجربات بیان کرتا۔ اس طرح بزرگوں کاوقت اچھا گزر جاتا اور نوجوانوں کی تربیت ہوتی رہتی۔ صبح سویرے سے رات گئے تک حقہ بھی چلتا رہتا۔ گائوں کے کئی لوگ تو محض حقے کے کش لگانے کے لیے ڈیرے میں جایا کرتے تھے۔
سردار یا ڈیرے دار کا کام صرف ڈیرے تک ہی محدود نہ تھا۔ وہ گائوں بھر کا مسیحا بھی تھا اور گائوں بھر کے کنبے کا سربراہ بھی ہوتا تھا۔ گائوں کی اکثریت اس کے گھر سے روزانہ صبح سویرے لسی لے جایا کرتی، لسی کے ساتھ مفت میں مکھن بھی مل جایا کرتا۔ کسی گھر میں اگلی فصل آنے سے پہلے اناج ختم ہو جاتا تو بلاتکلف سردار کے پاس پہنچ جاتا اور کبھی خالی ہاتھ واپس نہ آتا۔ سردار ہر فصل میں سے اپنی ضرورت سے زائدد بہت سا غلہ اسی مقصد کے لیے گھر میں رکھتا تھا۔
اگر کسی شخص کا نوجوان بیٹا نکما اور آوارہ ہو جاتا تو باپ اس کی شکایت لے کر ڈیرے پہنچ جاتا۔ بیٹے کو بلوا کر سردار اسے دس پندرہ جوتے لگواتا اور آئندہ شکایت نہ ملنے کی تلقین کے ساتھ باپ بیٹے کو گھر بھیج دیتا۔ ان کے جانے کے بعد اپنے منشی کو پاس بلا کر کہتا کہ پتا نہیں ان کے گھر کچھ اناج بھی ہے یا نہیں۔ فوراً ان کے گھر ایک من گندم پہنچا دو۔ اگلے دن مار کھانے والا نوجوان دوستوں کو فخرسے بتا رہا ہوتا، ”یار! کل مجھے سردار نے خوب پھینٹی لگوائی تھی۔ اب میں کام کیا کروں گا”۔
کسی گائوں میں اگر دو ڈیرے ہوتے اور دونوں سردار ایک دوسرے کے مخالف ہوتے تو ان کا مقابلہ اچھائی اور بھلائی کے کاموں میں ہوتا تھا۔ اپنے دھڑے کے لوگوں کا جی جان سے دھیان رکھا جاتا کہ یہ ان کی عزت کا مسئلہ ہوتا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ تب گائوں کے عام لوگ جو کہ سردار کی رعایا ہوتے وہ سب اپنے سردار کے جاں نثار ہوتے تھے۔ سردار کی ہر بات کو حکم کا درجہ دیتے اور اس کے ہر فرمان کی بجا آوری اپنا فرض سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر گائوں کے سردار کا ملکی اور قومی سیاست میں ایک کردار ہوتا تھا۔ الیکشن کے موقع پر وہ جس کی حمایت کا فیصلہ کر لیتا، پورا گائوں اسی امیدوار کو ووٹ دیتا تھا۔ تب ایم این اے یا ایم پی اے کے امیدوار سردار کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ عام لوگوں سے انہیں سروکار ہوتا تھا نہ ان سے ملتے تھے۔ نوے کی دہائی تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔
نوے کی دہائی کے آخر میں پرویز مشرف کی حکومت آئی تو ملک بہت تیزی کے ساتھ جدید دور میں داخل ہو گیا۔ ملک میں انٹرنیٹ کی ترقی کے ساتھ ساتھ ٹی وی اور ریڈیو چینلز کی بھرمار ہو گئی۔ اخبارات بے شمار ہو گئے۔ موٹر سائیکل اور گاڑیاں عام ہونے کے ساتھ ساتھ شہر شہر کالجز اور یونیورسٹیاں قائم ہو گئیں۔ لوگوں کا شعور بلند ہو گیا۔ تعلیم عام ہو گئی اور لوگوں کو اپنے حقوق کا ادراک ہونے لگا۔ دوسری طرف روایتی سرداروں کی جگہ ان کی اولاد آ گئی جو روایات کی پاس داری کرنے کی بجائے مادہ پرستی کی طرف مائل تھی۔ کیبل نیٹ ورک کی وجہ سے رنگ برنگے ٹی وی چینلز کے ہر موضوع پر پروگراموں اور یوٹیوب نے لوگوں سے ڈیرے پر جانے کا وقت چھین لیا۔ ویسے بھی ڈیرے پر بیٹھنے کا جدید سرداروں کے پاس بھی وقت نہیں رہا تھا۔ لوگوں کو اپنے حقوق کا پتا چلا تو ایک دوسرے سے چھوٹی چھوٹی بات پر شکایتیں ہونے لگیں۔ سردار کے بغیر قدم نہ اٹھانے والوں کی اولادیں ڈائریکٹ تھانے پہنچنے لگیں۔ پولیس ڈیرے کی بجائے براہِ راست گھروں میں پہنچنے لگی۔ براہِ راست مک مکا ہونے لگے۔ ڈیرہ درمیان میں سے نکل گیا تو نئی نسل کے ڈیرے داروں نے بھی اپنا چولا بدل لیا۔ اب کسی بھی گائوں میں چلے جائیں۔ کئی کئی ڈیرے بن چکے ہیں مگر سب بے آباد۔ جیسے روحوں کے بغیر جسم ہوں۔ ڈیرے داروں نے پولیس والوں سے گٹھ جوڑ کر کے اپنے ہی لوگوں کی شکایتیں شروع کر رکھی ہیں۔ رشوت میں سے اپنا حصہ بھی وصول کر لیا جاتا ہے اور لوگوں پر رعب بھی ڈالا جاتا ہے۔ مگر اس رعب میں اب احترام نہیں ہوتا بلکہ نفرت بھرا ڈر ہوتا ہے۔ پہلے گائوں کے لوگ سردار کی پناہ مانگتے تھے اب نئے سرداروں
سے پناہ مانگتے ہیں۔ پہلے سردار کے گھر سے گائوں والوں کو لسی، مکھن اور اناج مل جاتا تھا۔ آج کے سردار کے گھر میں مہمان آ جائے تو اس کی چائے کے لیے گھر میں دودھ نہیں ملتا۔ سردار صاحبان دودھیوں کے مقروض اور انہیں اپنی بھینسوں اور گائیوں کا دودھ دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ سردار صاحبان فصل کی بوائی سے لے کر کٹائی تک آڑھتی سے قرض لے لے کر کھاد، سپرے اور تیل پورا کرتے ہیں۔ فصل کے وعدے پر دکانداروں سے کپڑے جوتے ادھار لیتے ہیں جب فصل آتی ہے تو سب کچھ ادھار کی مد میں دے کر بعض حضرات آٹے کی لائن میں لگے ہوتے ہیں۔ ایسے میں دوسروں کی مدد کا کیسے سوچا جا سکتا ہے؟۔ بہت سے زمینداروں نے خود کاشت کاری کرنے کی بجائے زمین ٹھیکے پر دے کر بڑے شہروں میں بسیرا کر لیا ہے۔ ان کا گائوں سے تعلق بھی واجبی سا رہ گیا ہے۔ یعنی انہوں نے عملی طور پر اپنا ڈیرہ ہی ختم کر لیا ہے۔
ڈیرہ سسٹم کمزور ہونے کے ساتھ ہی ڈیرے داری کا ووٹ بھی کمزور ہو گیا ہے۔ اب لوگ ڈیرے دار کے کہنے پر ووٹ نہیں دیتے۔ وہ اپنی مرضی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب الیکشن کے وقت امیدواروں کو سخت محنت کرنا پڑتی ہے۔ انہیں یا ان کے نمائندوں کو اب ڈور ٹو ڈور ووٹ مانگنے کے لیے جانا پڑتا ہے۔ ادھر ووٹر بھی سیانے ہیں۔ سب کو ہی تسلی دے کر بھیجتے ہیں۔ کہاں وہ زمانہ تھا کہ صرف ڈیرے دار کی حمایت حاصل کر کے پورے گائوں کے ووٹ جھولی میں ڈال لیے جاتے تھے۔
اب صرف بڑے زمینداروں اور روایتی خاندانوں کے ڈیرے ہی آباد رہ گئے ہیں۔ وہ سردار اپنے گائوں کے لیے آج بھی مائی باپ ہیں۔ ان کے ڈیروں میں پنچایتیں بھی ہوتی ہیں۔ وہ اپنے لوگوں کے مسیحا بھی بنے ہوئے ہیں اور ان کا ووٹ بنک بھی موجود اور محفوظ ہے مگر ایسے ڈیروں کی تعداد بمشکل بیس پچیس فیصد رہ گئی ہے۔