کالم

ماڈرنزم، عورت اور معاشرہ

اگر دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے کے اندر عورت کو آج تک وہ مقام حاصل نہیں جو اسلام نے اس کے لیے متعین یا مختص کیا تھا یہی وجہ ہے کہ بہت سارے لوگ اس کا ملبہ صرف مردوں پر ڈالتے ہیں اور عورت کو بری الزمہ کر دیتے ہیں یا گر دانتے ہیں حالانکہ اگر دیکھا جائے تو ان سب میں مردوں کے بجائے عورتوں کا ہی ہاتھ ہے عورت آج جو بھگت رہی ہے اس میں سارا قصور عورت کی ہے آج تک تو حالالت کافی بہتر تھے لیکن جدیدیت کے اس دور میں جب مغرب نے جینڈر ایکولیٹی یعنی جنسی برابری کا نعرہ لگایا تو مشرقی عورت نے بغیر سوچے سمجھے اس کی تائید شروع کر دی اور اسلامی تعلیمات کو روندتے ہوئے اس کی اندھی تقلید میں کافی حد تک چلی گئی ہے۔ بد قسمتی کی بات تو یہ ہے کہ اس سے زیادہ متاثر ہماری پڑھی لکھی خواتین ہیں ۔ تعلیم کا مقصد شعور اور اگہی دلانا ہوتا ہے، بلکہ موجودہ تعلیم نے تو ہماری بچیوں کو نافرمان بنا دیا ، اس تعلیم نے بچوں اور بچیوں کو عاشق مزاج بنا دیا انھوں والدین کی عزتوں کو تار تار کر دیا ۔ایک وقت ایسا بھی تھا جہاں پر ہماری خواتین روشیوں میں جاتی تھیں لیکن وہ اندھی ہوا کرتی تھی۔ میرے اس بات کے کہنے کا مطلب یہ ہے ہماری وہ خواتین ہمارے اردگرد کے ماحول سے کبھی بھی متاثر نہیں ہوا کرتی تھی۔ انکی نگاہیں ہمیشہ اپنی راستے پر ہوتی تھی اور ہمیشہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھا کرتی تھی لیکن بد قسمتی سے ہماری نئی نسل اگئی یعنی ” نیو جینریشن ” ہمارا نیا معاشرہ تشکیل پاتا گیا ۔ اب انھوں نے کافی ترقی تو کرلی بہت ہوشیار اپنے آپ کو وہ خواتین سمجھتی ہے ہماری یہ بچیا اپنے آپ کو کافی عقل و فہم والی والی سمجھتی ہے لیکن دوسری طرف اگر ہم ان کا پھر ان عورتوں کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں۔ کہ جو میں نے ابھی کہا وہ روشنیوں میں جاتی تھی لیکن اندھی ہوا کرتی تھی اب معاملہ توڑا الٹ ہوگیا ہے اب ہماری خواتیں اندھی تو نہیں ہے انکی انکھوں میں روشنی ہے ۔ اور اس کے باوجود وہ تارکیوں میں جارہی ہے۔ آ ج کے دور میں آپ لوگ دیکھ لے جس طرح کے کرتوت ان کے ہے تو ان کو اب یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ راستہ تاریکیوں کی جانب جارہا ہے اس کے باوجود اللہ تعالی نے اس کو چھٹی حس بھی دی ہے انکھیں بھی دی ہے لیکن ان لوگوں اپنے لیے جن راستوں کا انتخاب کیا ہے وہ تباہی و بربادی کے سوا کسی بھی جانب نہیں جاتا لیکن پھر بھی یہ لوگ اپنے لیے اس راستے کو منتخب کرتے ہیں مطلب یہ ہوا جو ہمارے ہاں آج معاشرے کا جو صورتحال ہے دوبارہ میں یہ کہو گا کہ اس میں مرد کا اتنا قصور نہیں کیونکہ میں نے ایسے بھی خواتیں کو دیکھا ہے کہ جو اپنی عزت بچانے کے لیے اپنی جان قربان کر دیتی ہے لیکن آج ایسے بھی دیکھ رہے ہیں جو کہ اوروں کے عزتوں کو دھا پر لگاتے ہیں۔آج کل ہماری نوجوان نسل ماڈرنزم کے بارے میں باتیں کرتی ہیں کہتے ہیں میں ماڈرن ہوں اسی طرح لڑکیاں بھی اپنے آپ کو ماڈرن کہتی ہے لیکن ماڈرنزم اصل میں ہے کیا ؟میں جو سمجھتا ہوں ماڈرنزم یہ ہے ” تعلیم یافتہ بننا ” ماڈرنزم یہ ہے کہ آپ میں شعور آئے ۔ اب متعدد چیزیں ہیں کہ جب آپ لاکھ ایسے کپڑے پہنے کہ اس میں آپ کا بدن دیکھ رہا ہو کوئی لاکھ ایسے قیمتی کپڑے پہنے جو پہنے کے قابل نہیں اور اپنے آپ کو ماڈرن کہے تو مجھے یہ بتائے گا ۔ کیا ایک جانور اپنے آپ کو چھپا سکتا ہے؟ وہ ایکسپوز ہوتے ہیں ، وہ لوگوں کو ظاہر ہوتے ہیں ۔ معزرت کے ساتھ نوجوان نسل ماڈرنزم کرتے کرتے جانور بن گئے ہیں ۔ دوسری جانب ہمارے ہاں بعض خواتین ماڈرنزم کا نعرہ لگاتی ہیں ، تو اس ماڈرنزم نے لوگوں کو تباہ کردیا ہے ۔ اندھی تقلید میں اس حد تک آگے چلے گئے ہیں ، کہ اپنے آبا اجداد کے جو طرزِ زندگی تھی ان کو بھول گئے ہیں ۔ آج عورتیں آپ کو کئی روپوں میں نظر آئیگی اور ایسے خطرناک خطرناک روپ انھوں نے دھارے ہوئے ہیں۔ کہ ہر ایک روپ دوسرے روپ سے انتہائی بدترین ہے تو پھر ہم یہی کہے نگے آج تک بہت سے شاعروں ادیبوں اور اس کے علاہ جتنے لوگوں نے قلم کو استعمال کیا اس میں انھوں نے ہمیشہ عورت کو ہی مظلوم ٹھرایا لیکن میں جو کالم لکھ رہا ہوں وہ ہے کہ عورت کے ساتھ جو ظلم ہورہا ہے اس میں مرد کا اتنا قصور نہیں جتنا خواتین کا ہیں کیونکہ عورت ہی عورت کی دشمن ہے عورت ہی مرد کی دشمن ہے اور عورت ہی اس معاشرے کی دشمن ہے اگر ماں کی شکل میں دیکھ لے بہن کی شکل میں یا کبھی اگر بیویوں کی شکل میں دیکھ لیں تو یہ سب رشتے کسی نہ کسی صورت میں ایک دوسرے کی دشمن کی نظر آئے گی پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ اسلام نے جنت ماں کے قدموں ڈال دیا اسی طرح سے کہا گیا کہ بہترین انسان وہ ہے جس کو اچھی اور نیک بیوی ملے پھر کہا گیا کہ اپکی بہنیں اللہ کی رحمت ہے آپ کے لیے تحفہ خداوندی ہے ، اللہ کی جانب سے آپ کی لیے ۔ اب اگر ان تینوں کا ہم اگر ذکر کرتے ہیں تو ایسی تینوں رشتوں نے مرد کی زندگی وبال کر دی ہے اسی جنت نے مرد کی زندگی وبال کردی اور اسی بہترین ساتھی نے مرد کی زندگی وبال کر دی ہے اور اسی بہترین ساتھی نے وبال کر دی ہے یعنی مرد آج ذہنی دبا کا شکار ہوگیا ہے نہ وہ ادھر کا رہا اور ادھر کا رہا ہے اس میں صرف اور صرف مرد کو مجبور کر دیا گیا تو ہمارے معاشرے میں مرد مجبور ہی رہا ہے۔ مردوں سے میں یہ کہوں گا کہ عورت کو سمجھنے کے بعد اس کے ساتھ ایسا رویہ اپنا رکھے جو کہ پچاس پچاس فیصد ہوں بلکہ درمیان میں رہے تب صحیح طریقے سے معاشرہ اگے جائے گا آج کے دور میں معاشرہ جس جانب چل پڑا ہے وہاں ہر صرف تباہی اور بربادی ہے اس کے سوا کچھ نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button