کالم

سیاسی شعور اور نوجوانوں نسل

جب سوشل میڈیا پاکستان میں اتنا عام نہیں تھا جتنا آج کل ہے مطلب ہر عام و خاص بندہ سوشل میڈیا استعمال کررہاہے ۔ حریت انگیز بات یہ ہے کہ آج کل کے دور میں مالدار طبقے کے مقابلے میں غریب طبقہ سوشل میڈیا کو زیادہ استعمال کررہا ہے ۔ ایک وجہ یہ ہے کہ ہر کسی کے پاس "available” ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف جب اتنا مقبول نہیں تھا اس وقت سوشل میڈیا کا استعمال پاکستان میں بہت کم تھا اور کم لوگ اس سے واقف تھے ۔ گالیاں تو پاکستان کی سیاست کا ایک اہم عنصر ہے تو اس زمانے میں بھی سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف باتیں کرتیں تھے ، ایک دوسرے کو غلط ناموں سے پکارتے تھے ، سٹیج پر کھڑے ہو کر ایک دوسرے کو غلط القابات سے پکارتے تھے یہ سب پاکستان کی سیاست میں تھا لیکن ایک کنڑول حالت میں تھا ۔ کیونکہ اس زمانے میں صرف اخبار اور الیکٹرانک میڈیا تھا ۔ تو یہ سب کچھ عوام تک نہیں پہنچتا تھا کیونکہ اخبار اور دوسری میڈیا اس قسم کے جملوں کو شائع نہیں کرتے تھے دوسری طرف وہ پیمرا کی اصولوں کے بھی خیال رکھتے تھے ۔ لیکن سابق وزیراعظم عمران خان جب سیاست میں آئے تو اس وقت سوشل میڈیا نیا نیا شروع مطلب میدان میں آیا تھا ۔ یہ سنہ دو ہزار گیارہ کی بات ہے اس وقت پاکستان میں تری جی انٹرنیٹ تک بھی نہیں تھا ۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب عمران خان کو عوام نے پسند کرنا شروع کیا اور وہ عوام میں مقبول و مشہور ہوئے ۔ تو اس دوران مطلب آٹھ سے دس سالوں میں سوشل میڈیا نے پاکستان میں کافی ترقی کی ۔ جدید ٹیکنالوجی آئی پھر اس کے ساتھ جدید ایپلیکیشنز بھی آئے اس کے بعد ایک وقت ایسا آیا کہ پاکستان میں تری جی اور فور جی ٹیکنالوجی شروع ہوئی اور اس نے سب کچھ تبدیل کر دیا عوام عمران خان کی جلسوں کو براہ راست موبائل کے ذریعے دیکھتے تھے۔ اس دور میں عمران خان جب سٹیج پر کھڑے ہوتے اور خطاب شروع کرتے تو خان صاحب یہ ضرور بتاتے نواز شریف چور ہے اس کے علاہ دیگر سیاستدانوں کو غلط ناموں سے پکارتے ، کہتے فلاح ایسا ہے ، اس نے اتنی چوری کی ہے حتی کہ اس نے جمعیت علمائے اسلام کو بھی نہیں چھوڑا اور اس کے سربراہ کو غلط ناموں سے یاد کرتے یہ سب کچھ عوام موبائل پر دیکھتے تھے ۔ خاص کر عمران خان کے جو چاہنے والے تھے۔اس دور میں اگر کوئی تحریک انصاف کے خلاف بات کرتا تو وہی عمرانی زبان عمران خان کے سپورٹرز اس بندے کے خلاف استعمال کرتے ان کو گالیاں دیتے اس کے علاہ اگر کوئی صحافی عمران خان پر تنقید کرتا تو بھی ان کے چاہنے والے اس صحافی کو غدار ، انڈین ایجنٹ اور لفافہ کہتے تھے اس طرح یہ سلسلہ جاری تھا لیکن عمران خان نے اپنے انداز گفتگو میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی بلکہ مخالف سیاستدانوں پر جھوٹے الزامات لگاتے رہے ۔ جب سنہ دو ہزار اٹھارہ میں عمران خان وزیراعظم بن گئے ۔ وقت گزرتا گیا لیکن انصاف دور میں کچھ خاص تبدیلی نہیں آئی یہ سلسلہ جاری تھا عمران خان کی حکومت تھی ۔ لیکن وہ لوگ جو خان کو کئی سالوں سے سنتے تھے ان کا اندازہ گفتگو وہی تھا کوئی تبدیلی ان میں بھی نہیں آئی بلکہ مخالف جماعت کے بندوں کی لیے وہی جملے بازی وہی گالیاں استعمال کرتے تھے ۔اس طرح عمران خان کی خلاف عدم اعتماد کامیاب ہوا اور پی ڈی ایم نے عمران خان کو گھر بھیج دیا ۔ لیکن ان کے چاہنے والے پھر بھی خاموش نہیں ہوئے پی ڈی ایم کے خلاف سوشل میڈیا پر غلط ٹرینڈز چلاتے ، پاک فوج اور عدلیہ کو گالیاں دیتے ۔ یہ جو گالم گلوچ کا کلچر بنا ہوا ہے بدقسمتی سے اس کا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے کیونکہ عمران خان نے بنیادی غلطی یہ کی کہ اس نے ماضی کی سیاست دانوں سے کچھ نہیں سیکھا ماضی میں سیاستدان ایک دوسرے پر تنقید کرتے تھے لیکن عمران نے ان سے کچھ نہیں سیکھا اگر پچاس فیصد بھی جناب عمران خان صاحب ماضی سے کچھ سیکھتا تو آج کے دور میں یہ گالیاں ، جملے بازی کم ہوتیں یا ان میں تھوڑی بہت کمی آتی۔ اب پاکستانی سیاست ایک ایسی غلیظ صورت اختیار کر چکی ہے کہ اس میں لوگ دوست یاروں اور خاندان والوں کو بھی نہیں بخشتے بلکہ اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف لگے ہوتے ہیں ۔ کچھ ہی دنوں پہلے پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر میں سیاسی تکرار پر باپ نے بیٹے کو قتل کر دیا بات جھنڈا لگانے کی تھی ، باپ نے کہا یہ جھنڈا مت لگا بیٹے نے بات نہیں مانی اور حالات اس نہج تک پہنچ گئے کہ باپ نے اپنے بیٹے کو قتل کردیا ۔ میں سیاسی جماعت کی بات نہیں کررہا وہ تو ظاہر سی بات ہے کہ بات جھنڈے سے شروع ہوئی تھیں تو جھنڈا سیاسی جماعت کا ہی ہوتا ہے ۔ لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ بات جھنڈے سے قتل تک کیسے پہنچی کیا باپ نے بس صرف اتنا کہا تھا کہ یہ جھنڈا مت لگانا اور بیٹے نے بات نہیں مانی باپ نے قتل کردیا بلکہ بیٹے نے ضرور کوئی ایسی بات کہی ہوگی جس کی وجہ سے باپ تیش میں آگیا اور بیٹے کو قتل کردیا ، قتل کرنا بہت بڑا جرم ہے ۔ لیکن افسوس کی بات یہ کہ یہ جو ہم دیکھ رہے ہیں کیا یہ سیاست ہے اس کو سیاست کہ سکتے ہیں ۔ الیکشن میں بہت کم دن باقی ہے سیاستدان جلسے کررہے ہیں کیا وہ جلسوں میں عوام کو یہ نہیں بتاتے کہ اپنے اندر صبر و برداشت پیدا کرو ۔ کیا وہ یہ نہیں بتاتے کہ جو حریف سیاستدان یا سیاسی جماعتیں ہیں ان کے ورکرز کے ساتھ جھگڑے فساد نہ کرو۔ یہ عوام کو بتانا بہت ضروری ہے کہ اپنے حریف سیاسی جماعتوں اور ان کے نمائندوں کے ساتھ تعلقات اچھے رکھو یہ جمہوریت ہے ۔ لیکن ہمارے وہ نوجوان نسل جو تحریک انصاف کو سپورٹ کرتے ہیں ان کو آپ ہزار مرتبہ سمجھا کہ یہ جو سوشل میڈیا اور عام زندگی میں جو حرکات یا کام کررہے ہو یہ ٹھیک نہیں ہے وہ سرے سے یہ مانتا نہیں کہ میں غلط راستے پر ہوں بلکہ وہ کہتا ہے کہ میں درست کام کررہا ہوں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر جس قسم کے غلظ کام یہ بندہ کررہا ہے ، مخالف سیاسی پارٹیوں کے بارے میں غلط ٹرینڈز چلاتے ہیں یا جو باپ نے بیٹے کو قتل کردیا یہ ان کو کس نے سکھایا یا کہا پر انھوں نے یہ سیکھا ظاہری سی بات ہے کہ سوشل میڈیا سے سوشل میڈیا پر کون یہ باتیں کرتا ہے وہ آپ سب کو پتا ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں تعلیم کی بہت کمی ہے اور جہاں پر تعلیم نہیں وہاں کے لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کا گریبان بھی پاڑتے ہیں ایک دوسرے کے خلاف منفی سوچ ، خیال بھی رکھتے ہیں اور جس معاشرے میں یہ سب کچھ ہوتا ہے وہ ترقی پسند نہیں ہوتا وہاں کے لوگ ترقی یافتہ معاشروں سے پچاس سال پیچھے ہوتے ہیں تو پاکستانی سیاست دانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے جلسوں میں تعلیم کی اہمیت پر بات کریں ، ترقی یافتہ معاشروں کے بارے میں بات کریں اور یہ جو موجودہ سیاست ہے عوام کو کھل کر بتائے کہ اصل سیاست یہ نہیں ہے بلکہ سیاست کی شکل میں یہ کوئی بری چیز ہے ، جو لوگ اس سیاست کو اصل اور حقیقی سیاست سمجھتے ہیں وہ آپ کو بیوقوف بناتے یا بنارہے ہیں ۔ اگر اس قسم کی باتیں سیاست دان جلسوں میں شروع کریں تو امید ہے کہ کوئی باپ اپنے بیٹے کو قتل نہیں کرے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان میں تعلیم کی کمی ہے تعلیم کی کمی اس وجہ سے ہے ، پاکستان ہر سال بجٹ میں زیادہ تر حصہ دفاع پر خرچ کرتا ہے ، کم حصہ تعلیم کو دیتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں معیاری تعلیم نہیں ہے ۔ معیاری تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی یافتہ ممالک سے میرے خیال میں تقریبا پچاس سال پیچھے ہیں۔یہاں پر جو لوگ تعلیم حاصل کررہے ہیں وہ بھی برائے نام تعلیم ہے۔رہی بات گالم گلوچ کلچر کی تو اس کا تعلق بھی تعلیم سے ہے اگر نوجوان نسل کو درست اور معیاری تعلیم دی جائے اور ان کو جدید ٹیکنالوجی سکلز سکھائی جائیں ۔
اور ساتھ میں ان کو یہ بھی پڑھایا جائے کہ یہ سیاست دان صرف اپنی پاپولیرٹی بڑھانے کے لیے نوجوانوں کو استعمال کرتے ہیں۔ ان سے نعرے لگواتے ہیں تاکہ ہماری پہچان بڑھے ۔ اگر سائنس وٹیکنالوجی ، ترقی یافتہ معاشروں اور ترقی یافتہ قوم کے موضوعات پر سیمینار سکول ، کالج اور یونیورسٹی سطح پر منعقد ہونگے ۔ تو کچھ سالوں میں یہ کلچر ختم نہیں البتہ کم ہوسکتا ہے وگر نہ اگر اس کو اور تقویت مل گی تو یہ ہماری جو سماجی ، معاشرتی اور اخلاقی روایات ہیں ان کو جڑوں سے ختم کر دے گا ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button