عام انتخابات جوں جوں قریب آرہے ہیں، ہر جگہ سیاسی گہما گہمی دکھائی دیے رہی ہے ،دھند ،سموگ میںشدید سردی کے باوجود سیاسی طور پر ماحول خاصا گرم اور پارہ ہائی ہورہاہے ،عام انتخابات میں اب دو ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے ،اس لیے سیاستدانوں نے ووٹروں کو رام کرنے کیلئے دن راتایک کررکھا ہے ، ہر کوئی دودھ کی نہریں بہانے ،آسمان سے تارے توڑ لانے ،مہنگائی کا خاتمہ کرنے اور بیروز گاری دور کرنے کے ایسے پر کشش خواب دکھارہا ہے ،جو کہ ووٹ لینے کے بعد کبھی پورے نہیں ہوتے ہیں ۔
اس میں شک نہیں کہ عوام ان آزمائی قیادت کے آزمائے وعدے اور دعوئے بار ہا آزما چکے ہیں ،اس کے باوجود وہی پرانے نعرے لگائے جارہے ہیں ، وہی پرانے دعوئے دہرائے جارہے ہیں ، مسلم لیگ قیادت کا کہنا ہے کہ اگر ان کی حکومتیں ختم نہ کی جاتیں تو آج ملک خوشحال ہوتا ،تاہم حکومت میں آکر دوبارہ خوشحالی کے نئے سفر کا آغاز کریں گے،جبکہ دوسری جانب چیئر مین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری بھی بجلی کے تین سویونٹ مفت دینے سمیت بڑے بڑے دعوئے کررہے ہیں ، اس بارے جب ان سے پو چھا گیا کہ یہ سب کیسے ممکن ہو گا تو اُن کا کہنا تھا کہ کم از کم اچھے خواب تو دیکھنے چاہئے ، اس کا صاف مطلب ہے کہ یہ ہمیشہ کی طرح عوام کو صرف خواب دکھا کر ہی اقتدار میں آنا چاہتے ہیں۔
عوام باشعور ہیں اور جانتے ہیں کہ ایک بار پھر انہیں بہلایا اور بہکایا جارہا ہے، اس کے باوجود ہر با ہی کنفیوز ہو جاتے ہیں کہ ووٹ دیں تو پھر کس کو دیں ، ہر ایک کو بدل بدل کر دیکھ لیا ،ہر آزمائے کو بارہا آزمالیا ہے ،بارہ جماعتوں کے اتحاد کی بھی آنیاں جانیاں دیکھ لی ہیں ،لیکن کوئی بھی عوام کی زندگی میں ویسی تبدیلی لے کر نہیں آسکا کہ جس کا اظہار اپنے منشور اور الیکشن مہم میں زور شور سے کیا جاتاہے ،عوام ہر بار اپنی تقدیر اور اپنے حالات بدلنے کا سوچ کر ہی ووٹ دیتے رہے ہیں ، لیکن عوام کی تقدیر بدلی نہ ہی حالات بدلے ،اُلٹا آسمان سے زمین پر آگئے ہیں ،جبکہ سیاستدانوں نے اپنی تقدیر ضرور بدلی ہے ، ان کے اثاثے دن بدن بھڑتے ہی چلے جارہے ہیں۔
اس ملک کے اہل سیاست کے اثاثوں میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے ،جبکہ ملک وعوام دن بدن بد حالی کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں ،اس بدحالی سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ آزمائے سے جان چھڑائی جائے ، مگر ان سے جان چھوٹتی دکھائی ہی نہیں دیے رہی ہے ،اس پر عوام خا موش نہیں، لیکن بے بس ضرور دکھائی دیتے ہیں اور ان کی بے بسی کی دادرسی کرتا کوئی نظر نہیں آرہا ہے ،ایک بار پھر انہیں ہی لایا جارہا ہے کہ جن کی غلطیوں کی وجہ سے ہی عوام پس رہے ہیںاور ملک بد حالی کا شکار ہے ،یہ ماضی اور حال کے نام نہاد عوامی مسیحاایک بار پھر اپنی منڈلی سجا چکے ہیں، حرص و ہوس کاکھیل عروج پر ہے، اگر اس کھیل میں کوئی نظر نہیں آرہا ہے تو وہ عوام ہیں، ایک بار پھر عوام کی مرضی کے خلاف فیصلہ مسلط کیا جارہا ہے۔
عوام اپنی مرAضی کے خلاف فیصلوں پر آواز اُٹھا سکتے ہیں نہ ہی احتجاج کر سکتے ہیں ، عوام کی آواز کو دبایا جارہا ہے اور عوام سے آزادانہ حق رائے دہی چھینا جارہا ہے ، ایک عام انتخابات کا ایسا ڈھونگ رچایا جارہا ہے کہ جس میںعام عوام کو حق رائے دینے کی آزادی ہی حاصل نہیں ہے ، اس انتخابی عمل کی کوئی ساکھ ہے نہ ہی اس کے نتائج کوئی مانے گا ، اس کے باوجود عام انتخابات کو غیر متنازع بنانے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے ، اس سے انتشار میں مزید اضافہ ہو گا ، جو کہ ملک و عوام کے مفاد میں بہتر نہیں ، لیکن یہاں ملک و عوام کے مفاد کے بجائے ذاتی مفادات کا ہی زیادہ خیال رکھا جارہا ہے ۔
اس بے حسی پر عوام دعاہی کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالی فیصلہ سازوں کو ہدیت دیے ،کہتے ہیں کہ دعاؤں سے تقدیر بھی بدل جاتی ہے، معلوم نہیں کہ عوام کی تقدیر کب بدلے گی، ایسا لگتا ہے کہ جیسے عوام کی دعاؤں میں اثر ہی نہیں رہا ہے یا ہمار ا پروردیگارہم سے کچھ زیادہ ہی ناراض ہو گیا ہے، لیکن کسی بھی ملک کے عوام اس ملک کے فیصلہ سازوںسے کہیں زیادہ معصوم ‘ مظلوم اور مجبورہوتے ہیں اور مظلوم کی آہ تو سات آسمانوں کو ہلا دیتی ہے،وہ وقت انتہائی قریب ہے کہ جب پاکستانی عوام کی آہیں عرش ہلا دیں گی اور کوئی عوام کاحقیقی نجات دہندہ سامنے آ ہی جائے گا۔
0 36 3 minutes read