
مولانا کوثر نیازی کی سیاسی زندگی سے اختلاف ممکن ہے مگر انکے علمی مرتبے پر کوئی دو آرا نہیں، عشق نبی ۖکے حوالے سے انکے خطابات سن کر دل خوشی سے نہال ہوجاتا ہے ۔ اللہ کریم انکی قبر ٹھنڈی کرے، معراج البنی ۖ کے حوالے سے انکا تاریخی شعر گفتگو کے آغاز میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جارہی ہے
تیری ۖعظمت کی جھلک دیکھ کر معراج کی رات
کب سے جبریل کی خواہش ہے بشر ہوجائے
معراج سید کل عالم ۖکے خصائص میں سے ایک ہے کہ مسجد حرام سے مسجد اقصی تک اور وہاں سے ساتوں آسمان اور کرسی و عرش تک اور وہاں سے بالائے عرش رات کے ایک مختصر حصے میں مع جسم اطہر تشریف لے گئے اور وہ قرب خاص حاصل ہوا کو کسی انسان و فرشتے کو ملا نا کبھی ملے گا اور جمال خالق کل کائنات کو بچشم سر دیکھا اور اللہ کریم سے بلاواسطہ ہم کلام ہوئے اور تمام ملکوت السماوات والارض کو بالتفصیل ذرہ ذرہ ملاحظہ فرمایا ۔عظیم ہستی کے عظیم سفر کے دو حصے ہیں:ایک زمینی سفر جسے اسرا اور دوسرا آسمانی سفر جسے معراج کہتے ہیں۔یعنی حضور محتشم ۖ کا رات کے ایک حصے میں مسجد الحرام سے مسجد اقصی تک کا سفر اسرا جبکہ بیت المقدس سے سدر المنتہی تک عروج کرنا معراج کہلاتا ہے۔قرآن کریم فرقانِ حمید میں تین مقامات پر معراج کا ذکر آیا ہے۔سورہ بنی اسرائیل سورہ نجم کی آیات قرآن کریم معراج کی غرض و غایت یہ بیان کرتی ہے کہ اللہ تعالی نبی اکرم ۖکو اپنی آیات یعنی نشانیاں دکھانا چاہتا تھا ۔حدیث شریف میں معراج کی تفصیلات بتائی گئی ہیں معراج کے واقعہ کو 22صحابہ کرام نے بیان فرمایا ہے جس میں سے سات راوی وہ ہیں۔طائف کے تبلیغی سفر کو نبی اکرم ۖ معرکہ احد سے زیادہ سخت دن قرار دیا ہے۔آپ ۖ نے خود کو اللہ کی رضا کیلئے دشمنوں کے حوالے کر دیا۔ سنگ باری سے جسم اطہر لہولہان کر دیا۔مظلومیت کی اس حالت میں زبان سے نکلنے والی صدا عرش بریں سے جاٹکرائی۔تعمیل کیلئے پہاڑوں کے فرشتے کو بھیجا گیا۔دنیوی نقطہ نگاہ سے یہ اذیت کی انتہا تھی مگر روحانی اعتبار سے سرخروئی۔جب آپۖ کو ہر طرح سے آزماکر کامیاب پایا گیا تو آپ ۖکو بلندیوں کی طرف اٹھایا گیا اور معراج سے ہمکنار کیا گیا۔شعبِ بنی ہاشم کی نظر بندی اور طائف کے بازار وں میں رسوائی کا انعام افلاک کی نظرنوازی اور عرشِ بریں پر عزت افزائی کی صورت میں عطا ہوئی ۔اسرا اور معراج کا سفر مسجد الحرام سے شروع ہوا جس نے فکرِانسانی کو ایک نیا موڑ عطا کیا۔حضرت جبرائیل نے حضور اکرم ۖکو سواری پیش کرتے ہوئے ان سے کہا۔اللہ تعالی کی قسم ان ہستی سے زیادہ بزرگ تر کوئی تجھ پر سوار نہیں ہوا ۔راستہ میں آپۖ نے دارالحجرت،طورِ سینا اور بیت اللحم میں سواری روک کر دوگانہ نماز اداکی ۔جب مسجد اقصی پہنچے جہاں برکتیں ہی برکتیں ہیں تو فرشتو ں نے آپۖ پر سلام بھیجتے ہو ئے کہا یا اول ،یا آخر ،یا حاشر۔شفاعت کے اعتبار سے آپۖ اول سِلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے یعنی آخر ،اور آپ کی امت کا اولین حشر ہو گااِس اعتبار سے حاشر پکارا گیا۔ہیکل سلیمانی میں تمام انبیا کرام اور ملائکہ نے آپ کی اقتدا میں نماز ادا کی ۔باہر تشریف لا کر دودھ کا پیالہ منتخب کرکے فطرت کو پسند فرمایا۔مقام صخرہ سے آسمانوں کی طرف عروج کیا سدر المنتہی پر پھر آزمائش ہوئی۔ تین پیالوں میں سے آپۖ نے دودھ کا پیالہ پسند فرما کر فطرت کی جانب رہنمائی حاصل کی جوآپۖ کی امت کا طرہ امتیاز ہے۔سدرہ سے کچھ آگے جاکر ایک مقام پر جبرائیل رک گئے اور عرض کیا مجھے اِس مقام سے بال برابر بھی آگے جانے کی اجازت نہیں ہے۔اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوکر آپۖ نے یو ں سلام پیش کیا۔تمام قولی بدنی اور مالی عبادتیں اللہ کیلئے ہیں جواب آیا سلام ہو آپۖ پر اے نبی ۖاور اللہ کی رحمت اور اسکی برکتیں ۔حضور اکرم ۖنے پھرعرض کیا ۔ سلام ہو ہم پر اللہ تعالی کے نیک بندوں پر۔حضرت جبرائیل اور دوسرے ملائکہ نے کہا ۔میں گواہی دیتا ہو ں کہ اللہ کے سوا کو ئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں معراج کا تحفہ پانچ فرض نمازوں کی صورت میں عطا ہوا۔جن کا ثواب پچاس فرض نمازوں کے برابر ہوگا٭سورہ البقرہ کی آخری دو آیات براہ راست حق شانئہ سے عطا ہوئیں٭سوائے شرک کے تمام گناہوں کے بخشے جانے کا امکان ہوا ٭جس نے نیکی کا ارادہ کیا اور عمل نہ کرسکا اسکی ایک نیکی اور جس نے عمل کیا اس کو دس نیکیو ں کا ثواب عطاہوگا٭ جس نے برائی کا ارادہ کیا اور عمل نہیں کیا تو اسکے نامہ اعمال میں کچھ نہیں لکھا جائیگا جس نے عمل کیا توصرف ایک گناہ لکھا جائیگا ۔ یہ وہ تحائف ہیں جو جنت کے خزانوں میں حضور کریمکے توسط سے معراج کے موقع پر ان کی امت کو عطا ہوئے۔واپسی کے سفر میں مکہ تشریف لاتے ہو ئے آپۖ کا مختلف قافلوں کے اوپر سے گزر ہوا ۔مقامِ ذی طوی میں حضور پاکۖ کے رفیقِ سفر حضرت جبرائیل سے پو چھا کیا قریش میرے معراج کے سفر کی تصدیق کرینگے ؟۔انہوںنے جواب دیا ۔ابو قحافہ کے فرزند حضرت ابوبکر صدیق آپۖ تصدیق کرینگے۔بلاشبہ اس مبارک واقعہ کی تصدیق کیلئے فکر ونظر کے سرمایہ کو داو پر لگانے کیلئے کسی ابوبکر صدیق جیسی بالغ النظر شخصیت کی ہی ضرورت تھی ۔صبح کے وقت اس واقعہ کی خبر سنتے ہی ابو جہل کو تکذیب کا ایک شوشہ ہا تھ لگا ۔چنانچہ کفار کو لے کر حضرت ابوبکر صدیق کو توڑنے کیلئے ان کے پاس پہنچا اور کہا کہ بیت المقدس کے سفر کیلئے آنے جانے میں دو ماہ کا عرصہ درکار ہو تا ہے اور یہ کیو نکر ممکن ہو سکتا ہے کہ حضور پاک ۖراتوں رات یہ سفر طے کرکے واپس بھی پہنچ گئے۔تمام ماجرا سننے کے بعد آپ نے کہا کہ اگر یہ بات حضورپاک نے فرمائی ہے تو میں اس کی تصدیق کرتا ہوں کہ یہ سچ ہے اسکے بعد حرم میں حضور بیت المقدس کے بارے میں لوگوں کے سوالو ں کے جواب دیتے جاتے تھے۔اور اقلیمِ عشق کے تاجدار، پیکرِ صدق ویقین حضرت ابو بکر تصدیق کرکے دانشورانِ کفر کو محوِ تماشا کرتے جاتے تھے
اسی موقع پر حضورپاکۖنے آپ کو صدیق کا لقب عطا فرمایا تھا ۔